درست سمت میں بڑا قدم
- تحریر بیرسٹر حمید بھاشانی خان
- بدھ 25 / دسمبر / 2019
- 8980
دانشوراورقانون دان حلقوں میں جنرل مشرف کی سزا پربحث جاری ہے۔ کچھ لوگوں کو سزا سے نظریاتی اختلاف ہے۔ یہ لوگ نظریاتی اوراصولی طور پرسزائے موت کے خلاف ہیں۔ سزائے موت کی مخالفت ایک معروف نقطہ نظر ہے، جو انسان کے ہاتھوں انسان کی جان لینے کے خلاف ہے۔ جرم اگربہت سنگین بھی ہے تو پھر بھی یہ لوگ سزائے موت کی جگہ عمرقید اوردوسری سخت سزائیں تجویز کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو سزا پر اعتراض نہیں، مگروہ زباں وبیان پرمعترض ہیں۔
یہ اختلاف رائے سمجھ میں آسکتا ہے۔ ہرسماج میں اس قسم کا اختلاف رائے پایا جانا لازم ہے۔ غنیمت یہ ہے کہ طویل التوا اور تاخیر کے بعد بلاخر یہ فیصلہ آیا ہے۔ اس طرح کے مقدمات میں عدالتی فیصلہ آنا ہی بجائے خود ایک اچھی خبر ہے، جس کواختلاف رائے کے شور شرابے میں گم نہیں ہونا چاہیے۔ خود اعلی عدالتوں کے کئی معزز جج حضرات اقرار کر چکے ہیں کہ اس باب میں پاکستان کی عدالتوں کی روایت مختلف رہی ہے۔
پاکستان کی اعلی عدالتوں نے گزشتہ ستر برسوں کے دوران کئی فیصلے کیے ہیں۔ ان میں سے کوئی فیصلہ بھی غیرمتنازعہ یا متفقہ نہیں سمجھا جاتا۔ ظاہر ہے ہرمقدمے کے دویادوسے زائد فریق ہوتے ہیں۔ دونوں فریق براہ راست یا بالواسطہ اس مقدمے کے فیصلے سے متاثر ہوتے ہیں۔ مگراگرمقدمہ کسی اہم نوعیت کا ہو۔ اس کا پس منظرسیاسی ہو۔ اس میں عوامی یا قومی دلچسبی کا سامان موجود ہو۔ اس کے ساتھ کوئی بڑا سماجی یا معاشی مئسلہ جڑاہو، تواس صورت میں عام لوگ اپنی اپنی پسند و ناپسند کے مطابق اپنے آپ کو اس مقدمے کا فریق سمجھتے ہیں۔
عدلیہ کی سترسالہ طویل تاریخ میں کئی فیصلے ایسے ہوئے، جو عدلیہ کے وقارمیں اضافے کا باعث بنے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ فیصلے ایسے بھی تھے، جن پر خود آنے والی عدالتوں نے شرمندگی محسوس کی اورایسے فیصلوں پربرملا ناپسندیدگی کا اظہارکیا۔
پاکستان میں سویلین اورجمہوری انتظام کے خلاف پہلی بغاوت سن انیس سو تریپن میں ہوئی تھی۔ اس وقت ملک غلام محمد گورنرجنرل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ملک کا سب سے بڑا مئسلہ ملک کی پہلی آئین ساز اسمبلی کا وجود اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین ہیں۔ اورسب مسائل کے حل کے راستے میں یہ دو رکاوٹیں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس حقیقت کے باوجود کہ خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کی مکمل حمایت حاصل تھی، ان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔
ایک شاہی طرز کے حکم نامے سے پاکستان کی اس پہلی آئین ساز اسمبلی کی بساط لپیٹ لی۔ یہ کام انہوں نے جنرل ایوب کی مکمل حمایت اور تعاون سے کیا۔ ایوب خان اس راز کو خفیہ رکھنے کے بجائے ببانگ دہل گورنرہاؤس میں ایک پریس کانفرنس میں اس امر کا برملا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ ناظم الدین اورگورنرغلام محمد کے درمیان اختلاف تھا۔ اس اختلاف میں میں نے گورنر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
اسمبلی کے صدرمولوی تمیزالدین نے اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست داہر کر دی۔ ہائی کورٹ نے مولوی تمیزالدین کے حق میں فیصلے دیتے ہوئے ملک غلام محمد کے حکم کوغیرقانونی قراردے دیا۔
وفاقی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں اپیل کردی۔ عدالت نے ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا۔ جسٹس منیرکی سربراہی میں گورنرغلام محمد کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پاکستان ابھی تک ایک مکمل خودمختارملک نہیں ہے، بلکہ یہ تاج برطانیہ کے تحت ایک ڈومینین ہے۔ تاج برطانیہ کے تحت ایک ڈومینین میں آئین ساز اسمبلی نہیں بلکہ گورنر ہی مقتدرہے۔ جسٹس کارنلیس اکلوتاجج تھا، جس نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ ایک تفصیلی اورمدلل اختلافی فیصلے میں جسٹس کارنیلس نے واضح کیا کہ پاکستان ایک خود مختارملک ہے، آئین سازاسمبلی مقتدرحثیت کی حامل ہے، اور گورنرکا قدم غلط اورغیر قانونی ہے۔ جسٹس منیرکا یہ فیصلہ آنے والے وقتوں میں پاکستان میں آمریت اورمارشل لازکوسندجوازیت فراہم کرنے کی بنیاد بن گیا۔
اسمبلی کی غیرآئینی وغیرقانونی برطرفی کی عدالتی توثیق سے شہہ پاکرگورنرنے مذید پیش قدمی کی، اورایک ریفرنس عدالت میں دائر کر دیا۔ یہ ریفرنس گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت دائرکیا گیا، جس میں عدالت سے یہ پوچھا گیا کہ کیا موجودہ صورت حال میں آئین و قانون میں کوئی ایسی گنجائش موجود ہے، جس کے تحت گورنرکے احکامات اوراقدامات کودرست قرار دیا جائے اوران کوملک کے جائزقانون کا حصہ تصور کیا جائے، تاوقتیکہ کہ نئی اسمبلی وجود میں آکران قوانین کی حثیت کا تعین کرے۔ گویا اسمبلی کی عدم موجودگی میں گورنرکوقانون سازی کا اختیاردیکراحکامات کے ذریعے قانون سازی کرنے کا اختیاردے دیا جائے۔
اس دوران دوسوکیس سامنے آیا۔ یہ بنیادی طورپر ایک اپیل تھی، جوہائی کورٹ سے ہوتی ہوئی سپریم کورٹ تک پہنچی تھی۔ دوسوکوبلوچستان کونسل نے قتل کے مقدمے میں ایف سی آرکے تحت سزائے موت دی تھی۔ اس کے لواحقین نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ ہائی کورٹ نے ایف سی آر کو انیس سو چھپن کے آئین سے متصادم قراردیا اور بلوچستان کونسل کے فیصلے کومعطل کر دیا۔
وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چلینج کر دیا۔ کیس کی سماعت تیرہ اکتوبر کو مقرر ہوئی۔ مگراس سے پہلے ہی سات اکتوبر کو سکندرمرزا نے ملک میں مارشل لا کا اعلان کر دیا۔ ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹیٹربن گئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک میں نئے لیگل آرڈرکا اعلان کردیا۔
سپریم کورٹ اس وقت ایک تاریخی موڑ پر کھڑا تھا۔ عدالت اگرچاہتی تودوسو کیس کے دوران ایوب خان کے نئے لیگل اڑڈر کو انیس سوچھپن کے آئین سے متصادم قراردیکر مارشل لا کو غیرآئینی قراردے سکتی تھی، اور ملک میں مارشل لاز کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر سکتی تھی۔ مگر اس کیس میں عدالت نے نِئے لیگل آرڈر کو درست قرار دے کر نہ صرف اس مارشل لا کوقانونی جواز فراہم کرد یا، بلکہ آنئندہ آنے والے طالع آزماؤں کے لیے بھی راستہ ہموار کر دیا۔
سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں انیس سو اٹھاون کے مارشل لا کو ایک پرامن انقلاب قراردیکر پوری دنیا کے جمہوریت پسندوں، اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والوں کو حیران کردیا۔ عدالت نے مارشل لا کی حمایت میں یہ دلیل دی کہ پاکستان کے عوام اس مارشل لا پرخوش ہیں، کیوں کہ انہوں نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے فیصلے کی بنیاد ”لیگل پازیٹیویٹی“ قرار دیا، جس کوعام زبان میں نظریہ ضرورت کہا گیا۔ جوآنے والے وقتوں میں قدیم ڈکشنری کی ایک بھولی بسری اصطلاح کے بجائے پاکستان کی سیاست کا ایک اہم ترین لفظ بن کر زبان زد عام ہوا۔
اس نظریہ ضرورت کے تحت غیرقانونی اقدامات کو درست قراردینے کا عمل شروع ہے، جومختلف ادوار سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا۔ اس نظریے کے تحت ایک پراہیویٹ شہری بھی اگر ”نیک مقصد“ یا اچھے کام کے لیے کوئی غیر قانونی اقدام کرتا ہے تو اسے سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ نظریہ بنیادی طور پرقرون وسطی کے ایک قانون دان ہینری ڈی برکٹن نے پیش کا تھا، جدید دور میں ویلم بلیک سٹون جیسے قانون دان اس نظریے کے پرچارک رہے ہیں۔ اس نظریے کو بریکٹن میکسم کہا جاتا ہے۔
جسٹس منیر نے اس کیس میں بریکٹن مکیسم کا باقاعدہ حوالہ دیا تھا کہ جو چیزغیرقانونی ہے اسے نظریہ ضرورت کے مطابق قانونی قراردیا جا سکتا ہے۔ جسٹس منیر کے فیصلے کے بعد یہ بریکٹن میکسم یا نظریہ ضرورت پاکستان کے مقامی حالات کے مطابق مقامی شکل میں ڈھل کر پاکستان کی عدالتی نفسیات کا حصہ گیا۔ آنے والے برسوں میں جمہوریت اورآمریت کی کشمکش میں یہ نظریہ کثرت سے استعمال ہوتا رہا۔ عوام کے اختیارات کے سوال پرکئی بار اس نظریے کی روشنی میں فیصلے ہوئے۔
گزشتہ تین چاردھائیوں کے دوران عدالتوں میں کئی ایسے مشہور مقدمات کے فیصلے ہوئے، جن میں اگر نظریہ ضرورت کا براہ راست اطلاق نہ بھی ہوا ہو، لیکن اس نظریے کی وجہ سے جو خاص نفسیاتی ساخت بن چکی تھی، اس کا پر تو ہرکیس میں واضح طورپرنظرآتا ہے۔ اس کی ایک کلاسیکل مثال بیگم نصرت بھٹو کیس ہے۔ اس کیس میں نصرت بھٹو نے مارشل لا اور زولفقارعلی بھٹو کی گرفتاری کو چلنج کیا تھا۔ اس کیس میں ایک بارپھرعدالت نے نظریہ ضرورت کا حوالے دیتے ہوئے مارشل لا کو درست قرار دیا۔
آنے والے وقتوں میں بینظیربھٹو کیس اورسید ظفرعلی شاہ کیس میں بھی اس نفسیات کی پرچھائیں نظرآتی ہیں۔ مشرف کیس میں ان روایات کے خلاف فیصلہ کرکہ عدالت نے نظریہ ضرورت کے قدیم متروک تصور کے سائے سے نکلنے کی کوشش کی ہے۔ فیصلے میں موجود ایک پیرا اگراف پر بجا اعتراض کے باوجود یہ ایک اہم تاریخی فیصلہ ہے، جو جدید دور کے جمہوری اورانسانی حقوق کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔
(بشکریہ: ہم سب لاہور)