مسئلہ ووٹ کی عزت بے عزتی کا
- تحریر مسعود مُنّور
- سوموار 21 / ستمبر / 2020
- 20190
پاکستان کی سیاسی جماعتیں پرانے بَیر اور عناد بھُلا کر نئے سرے سے اکٹھی ہو کر موجودہ سلیکٹڈ حکومت کی جان کو آئی ہوئی ہیں اور ایسی ایسی دون کی لا رہی ہیں کہ خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے۔ ایک تماشہ لگا ہوا ہے ۔ جوتیوں میں دال بَٹ رہی ہے ۔ میڈیا پر لفظی جوتم پیزار جاری ہے ۔
کل تک ایک دوسرے کر گلیوں میں گھسیٹنے والے اور پیٹ پھاڑ کر ڈالر نکالنےکی دھمکیاں دینے والے سیاسی حریف بھائی بھائی بن کر بلکہ بہن بھائی بن کر شیر و شکر ہو رہے ہیں ۔ اور پھر سو ہنگاموں کا ایک ہنگامہ یہ مچا ہے کہ سابق بیمار وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ، کمال صحت مندی سے ویڈیو لنک کے ذریعے اے پی سی میں شرکت کی جسے میڈیا دھواں دھار شرکت کا نام دے رہا ہے۔ حالانکہ اے پی سی کی کسی کرسی سے بھی دھواں نکلتا دکھائی نہیں دیا اور میاں نواز شریف صاحب نے عرفان صدیقی کی تحریرکی ہوئی اردو میں پٹاخہ چلا دیا اور موجودہ حکومت کی ناکامی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ۔اور مجھ جیسے سیاسی جوڑ توڑ کے اسرار و رموز سے نابلد لوگ بھی دم بھر کے لیے بھونچکے رہ گئے کہ یہ کیا ہوگیا ہے ۔میاں صاحب فرما رہے تھے کہ پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ۔ جمہوریت کی روح عوام کی رائے میں ہوتی ہے ۔ یعنی ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنہیں عوام اپنے ووٹوں کی اکثریت سے یہ حق دیں ۔ بالکل درست ہے ۔ میاں نواز شریف کو کم و بیش تین بار یہ حق ملا اور کم وبیش اتنی ہی بار پیپلز پارٹی بھی بر سرِ اقتدار رہی تو کہو صاحبو کیا وہ جمہوریت کے ادوار نہیں تھے ؟ سوالیہ نشان ۔
نہیں تھے اور وہ یوں نہیں تھے کہ ان ادوار میں ووٹ کو عزت نہیں دی گئی ۔ ووٹ کی عزت ووٹر کی عزت ہے اور ووٹر کی عزت پارلیمانی جمہوری نظام میں یہ ہوتی ہے کہ ریاست کے ایک ایک فرد کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں ۔ کون سے حقوق ؟ جینے کے حقوق ۔ سکھ چین سے زندگی کرنے کے حقوق ۔ اور وہ بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں؟ 1۔ روٹی 2۔ کپڑا 3۔ مکان ۔ 4 ۔ تعلیم5۔ طبی سہولیات ۔ یہ جموریت کے وہ پانچ بنیادی ارکان ہیں اور جس ملک میں دوکروڑ سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے رہتے ہوں اور دو کروڑ سے زیادہ بچے تعلیمی سہولتوں سے محروم ہوں وہاں ووٹ کی عزت نہیں ہوتی ۔ بالکل نہیں ہوتی ۔ اور جو حکمران اپنے کاروبار کو پھیلانے کے لیے میڈیا ہاؤسوں میں اپنے پالتو طوطے رکھتے ہوں اور اپنی شان میں قصیدے لکھواتے ہوں وہاں ووٹ کی عزت نہیں ہوتی ۔
پاکستان میں روٹی تو موجود ہے لیکن اس کی تقسیم غلط ہے ۔ سیاست کے اندھے مال و مراعات کی رویوڑیاں اپنوں اپنوں میں بانٹ کر اپنے حمایتیوں کی ایک فوج تیار کر لیتے ہیں اور اپنے گلو بٹ پال لیتے ہیں جو سیاسی جلسوں میں اُن کی جے بولتے اور اُن کے لیے پبلک کو دہشت زدہ کر کے ووٹ بھی ڈلواتے ہیں ۔ اس طرح سے ڈالے ہوئے ووٹ کی عزت کون کرتا ہے ۔ قیمے والے نان اور بریانی کی پلیٹوں کے عوض خریدے ہوئے ووٹ اپنے لیے کس توقیر کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ صرف وہی جو پاکستان کے اندر اپنے خوش حال اور متمول پاکستان کے شہری ہیں ، جن کا خطِ غُربت سے نیچے سسکنے والوں سے کوئی رشتہ نہیں ۔ اُن کا اپنا الگ اور محفوظ پاکستان ہے جس کے لیے وہ پاک سر زمین شاد باد گاتے رہتے ہیں ۔اور گذشتہ ستر برس کی مارشل لاؤں اور جمہوریتوں نے ایک مفلوک الحال اور مقروض پاکستان تعمیر کیا ہے جہاں نہ پانی صاٖف ملتا ہے اور نہ دودھ خالص ہے ۔ ہائے احمد مشتاق نے نصف صدی پہلے کیا دعا مانگی تھی :
دودھ ملے چاندی سا اُجلا پانی صاف ملے
امن ملے میرے بچوں کو اور انصاف ملے
اور تو اور بیماروں اورمریضوں کو ادویات بھی زہریلی بہم ہوتی ہیں ۔ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ اپنے مونہہ سے بول بول کر کہتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ملاوٹ کرنے والا میری اُمت میں سے نہیں ہے اور کتنی شرمناک بات ہے کہ یہ لا اُمتی لوگ ،مسلمان بن کر خلقِ خُدا کو زہر کھلاتے رہتے ہیں اور یہ پچھلے دو سال کا نہیں پچھلی ستر سال کی جمہوریتوں کا حاصل ہے ۔ اور اس سے بھی بڑا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ان جمہوریتوں کی گود میں پلی ایک نسل قومی شعور او مذہبی اخلاقیات سے عاری ہے ۔ شہباز شریف صاحب کے خدمتِ عوام کے عہد میں زینب کیس کی شکل میں جو واردات قصور میں ہوئی اب وہ گلی گلی ہو رہی ہے ۔ لوگوں کی جان و مال ، عزت آبرو اور کاروبار تک سب غیر محفوظ ہیں ۔ ملک کی سڑکیں رہ زنوں کی شکار گاہیں ہیں ۔ پولیس کا رویہ اتنا شرمناک ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ کسی مسلمان ملک کی پولیس ہے ۔ اور اس پر طرہ یہ کہ خبروں کے مطابق پولیس نہ صرف مجرموں کی پشت پناہی کرتی ہے بلکہ جرائم کے اڈے بھی چلاتی ہے اور مستعد اتنی ہے کہ ہفتے بھر میں موٹر وے ریپ کیس کے مرکزی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکی ۔
واقفانِ حال کا قیاس ہے کہ عابد ملہی نامی ملزم یا تو پکڑا ہی نہیں جائے گا یا ماردیا جائے گا کیونکہ وہ محکمے کے اندر کا آدمی ہے ۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو مگر آپ لوگوں کو قیاس آرائی سے تو نہیں روک سکتے ۔ کیونکہ( لوکی بھیڑے شک کردے) ،ہمارا معاشرتی رویہ ہے ۔ ووٹ کی عزت کا معاملہ بر حق مگر اس کے علاوہ اداروں کی بے عزتی کا مسئلہ حکومت کی طرٖ ف سے اٹھایا گیا ہے کہ اداروں کی توہین کرنے والا مستوجبِ سزا ہوگا ۔ بالکل ہونا چاہیے مگر فرد کی توہین کرنے والے ادارے کے لیے بھی سزا ہونی چاہیے ۔ کیونکہ ادارے افراد بناتے ہیں اور ہر فرد اللہ کی مخلوق ہے اور برابری ، اخوت اور مساوات کے اصولوں کے تحت کوئی شخص دوسرے سے افضل نہیں ہے ، سوائے متقی کے ۔ تقویٰ فضیلت کا واحد پیمانہ ہے اور جو لوگ منی لانڈرنگ ، کرپشن ، دھونس دھاندلی اور رشوت کے مرتکب ہوتے ہیں ، وہ اہلِ تقویٰ سے افضل نہیں ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ اس مملکتِ خُداداد میں افضل وہ ہے جس کے پاس اعلیٰ سرکاری عہدہ ، محل نما گھر ، ملکوں ملکوں پھیلا کاروبار اور بے پناہ دولت ہے ۔ اور اس کے مقابلے میں دینی افکار کی کیا اہمیت ہے جو ایک فقیر کو بادشاہ سے بھی بڑا قرار دیتی ہے ۔ یہ اقبال کی سنو۔ فرماتے ہیں:
نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بار گاہ میں ہے
ارے صاحب ، ہمارے پاکستان میں تو ساری بات ہی تخت و تاج اور لشکر و سپاہ کی ہے ۔ فقیر کو کون پوچھتا ہے حالانکہ مذہب مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی شناخت ہے جس کا اظہار اُس کے روز مرہ معمولات ، عادات و اطوار اور اخلاقی رویوں سے ہوتا ہے۔ اور یہی رویے اس کی اجتماعی معاشرتی زندگی کے تاروپود بنتے ہیں اور مسلمانوں کے سیاسی نظام کے خدو خال متعین کرتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں مذہب کا کردار بہت ہی اہم رہا ہے مگر بدقسمتی سے مسلمانوں نے اسلام کی کثیر المذہبی روح کو سمجھا ہی نہیں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ دینی اشتراک اور دوطرفہ ربط و ضبط کے بجائے دوسرے مذاہب سے ہمیشہ نفرت کا اظہار کیا ہے اور یہ نفرت اب اندرونِ خانہ فرقہ وارانہ سطح پر اتنی شدت سے عود کر آئی ہے کہ شیعہ کو کافر قرار دینے کی مہم زور پکڑ گئی ہے جو ملکی اور قومی وحدت پر ایک مہلک وار کی طرح ہے ۔
ان حالات میں ووٹ کی عزت کسی کا مسئلہ نہیں سوائے اقتدار سے محروم سیاست دانوں کے جو بے روزگار ہو چکے ہیں اور ایسٹبلشمںٹ سے اپنی دوبارہ بحالی کے لیے طرح طرح سے درخواستیں پیش کر رہے ہیں کہ عمران کو چلتا کرو اور ہمیں ہمارے پرانے منصب واپس دے دو ۔
یہ ہے ری ان سٹیٹ منٹ کی درخواست