امردوں کو مرد بنانے کی مہم

عمران خان کی پی ٹی آئی حکومت پاکستان کے کرپشن زدہ اور اخلاق باختہ سیاسی نظام میں ایک نیا تجربہ ہے ۔ یہ لوگ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف لڑ رہے ہیں لیکن کیسے ؟ یہ تو کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں کہ ایک کرپشن زدہ معاشرہ خود اپنے خلاف کیسے لڑ سکتا ہے ۔

 یہ کیسا منظر ہوتا ہے جب کوئی کرپٹ سیاستدان پریس کانفرنس بلا کر کرپشن کی مذمت کرتا ہے اور کرپٹ سیاستدانوں کو بُرا بھلا کہتا ہے ۔اپنے کپڑے پھاڑ کر اپنے مونہہ پر تھپڑ مارتا ہے اور باتوں ہی باتوں میں اپنی پوشیدہ جگہوں پر تھوکتا ہے ۔ یہ سب ایک عام پاکستانی کے لیے حوصلہ شکن منظر ہوتا ہے ۔ تب وہ سوچتا ہے کہ وو قومی نظریے کی بنیاد پر جو ملک بننا تھا وہ کیوں بن نہیں پایا ۔ کس لیے وہ خوب صورت نظریہ جرائم پیشہ طاقتور اور غیر جمہوری خاندانوں  اور اُن کی گروہ بندی کی نظر ہوگیا  اور اُسے اس طرح دبوچ لیا گیا کہ وہ من حیث القوم شعوری ارتقا کا سفر طے نہیں  کرسکا ۔ان گروہی سلطانوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اس ملک کا معاشرہ  لاقانونیت ، بد انتظامی ، معاشی بد عنوانی اور اخلاقی کی بے راہروی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے ۔ اور یہ کوئی حالیہ سالوں میں رونما ہونے والا المیہ نہیں ہے بلکہ پچھلی کئی دہائیوں سے یہ ملک جنسی بے راہ روی کے طوفانوں  میں تھپیڑے کھاتی ہوئی کشتی کی طرح ہے جہاں ہم جنس پرستی سے لے کر کر جسم فروشی تک معمول کی بات رہی ہے ۔

 لاہور کی مال روڈ گواہ ہے کہ لاہور کی راتیں ایوب خان کے زمانے سے بہت پہلے سے ہی گوناگوں ، جادو بھری پراسرار رنگینوں کا گہوارہ رہی ہیں ۔ لاہور میں ایک شبینہ لاہور تھا ۔ پیشہ ور آوارہ لوگوں کا لاہور جو داتا دربار سے بھاٹی گیٹ تک ، گول باغ( ناصر باغ) سے پرانی انارکلی تک  ، ریگل چوک سے الفلاح تک اور ہال روڈ سے لکشمی چوک تک تماشائیوں ، شب گردوں اور ہم جنس پرستوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا ۔ ان زائرینِ شب میں بڑے بڑے علما ، بڑے بڑے مین پاور  چودھری  ، بڑے بڑے سیاسی مولوی وسکی ، بڑے بڑے سیاست مآب  راؤ صاحبان ،جغادری صحافی اور اخباری  دانشور  اس کھیل میں شریک ہوا کرتے تھے ۔ انارکلی بازار بند ہو جانے کے بعد دانش کدہ کے زیرِ سایہ ایک پان سگریٹ کی دکان کے سامنے کرسیاں بچھا کر  احسان دانش اور شورش کاشمیری بیٹھا کرتے تھے اور اہلِ ذوق اُن کو سلام پیش کرتے سرکلر روڈ کو نکل جاتے ۔ محولہ بالا تمام کے تمام علاقہ جات ایک چاکلیٹ منڈی کی طرح  تھے جہاں خوبصورت لڑکوں کے نستعلیق چہروں کی ٹافیاں اشرفیوں کی طرح لُٹتی تھیں ۔ یہاں ایوانِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی راہیں ایک ہوتی تھیں ۔ ان اکابرین میں ایوب خان کی کابینہ کے ایک بنگالی وزیر عبدالصبور خان کے قصے سُننے کو بہت ملتے تھے ۔

 اسی زمانے میں یوتھ کلچرل آرگنائزیشن نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم بنی جن میں شہر کے بیشتر خوشخط ، خوش گِل اور قشنگ چہرے بھرتی تھے ۔ اس تنظیم کا سیکریٹری راولپنڈی کا ایک نوجوان اشرف رضا تھا جس کے دوش بدوش ایم اور کالج کا ایک دبلا پتلا نوجوان افتخار فتنہ بھی تھا جو پیپلز پارٹی کے نعرہ بازوں میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا ۔  اشرف رضا شاید اس دنیا میں نہیں رہے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے ایک سابق صحافی دوست نے بتایا کہ وہ اب خُلد آشیانی ہو چکے ہیں ۔یہ صرف کلچرل آرگنائزیشن ہی نہیں تھی بلکہ کلچر کی آڑ میں اس کے سیاسی اہداف بھی تھے ، جن میں سرِ فہرست ایجنسیوں کی مخبری تھی اور حکومت کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کروانے میں اہم کردار ادا کیا جاتا تھا ۔اُس زمانے میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی ایسا وقت آئے گا جب کوئی شخص بھنگ کو ملنگوں کے علاوہ عام آدمی کے لیے بھی حلال قرار دے دے گا ۔گویا رنگ پر بھنگ گرائے گا مگر ساتھ ہی مردوں کو نامرد بنانے کا پلانٹ بھی لگائے گا ۔ اور وہ اس لیے کہ یہ مردوے کمزور عورتوں ، کم سن بچیوں اور لڑکوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں  حالانکہ مرد ایسی غلیظ حرکتیں کر ہی نہیں سکتا ۔ ایسے کام تو ہمیشہ نامرد ہی کرتے ہیں اور ان نامردوں کو مرد بنانا اُنہیں انسانی اخلاقیات سکھانے کا کٹھن ، دشوار اور مشکل کام ہے جسے لاکھوں مذہبی کارکن بہتر سالوں میں بھی انجام نہیں دے سکے ۔

یہ مذہبی کارکن جن میں نام نہاد علماء بھی شامل ہیں اتنے ذمہ دار اور با صلاحیت ثابت نہیں ہوئے کہ  معاشرے کو نامردی سے پاک کرسکتے ۔ مرد تو مردِ خُدا ہوتا ہے ۔ عارفِ مولا ہوتا ہے وہ بھلا کسی طرح پیڈو فیلی ( کم سن بچوں اور بچیوں سے بد فعلی ) کا شکار ہوسکتا ہے ۔ اور یہ ایسا قبیح اور مقبولِ عام فعل ہے جو سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹوں اور دینی مدارس میں یکساں  دل چسپی ، رغبت اور مہارت سے انجام دیا جاتا ہے ۔یہ سارے ادارے بے حیائی کے حمام میں ایک ہی سٹائل میں ننگے نہاتے ہیں ۔ جہاں کچھ طلبا و طالبات اور اساتذہ راتوں کو جون بدل کر جنسی بھیڑیے بھی بن سکتے ہیں  اور جب تک ان اداروں کی صفائی نہیں ہوتی تب تک مردوں کو نامرد بنانے کے منصونے کا بھی وہی حال ہوگا جو مرغی سکیم ، ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا ہوا  ہے کہ مرغیوں نے انڈے دینے سے انکار کردیا ہے ۔نوکریوں نے اُلٹا بے روزگاری کو ہوا دی ہے اور پچاس لاکھ گھروں کی خانہ پُری  شبینہ  پناہ گاہوں سے کی گئی ہے ۔

 جب مرغیاں نہیں تو انڈے نہیں  اس لیے تبدیلی کا آملیٹ کھانے کی آرزو نہ کرو ۔ اور جان لو کہ تبدیلی کے تلوں میں تیل نہیں ہے ۔ اور سسٹم ؟ وہ ایک خراب مشین ہے جس کی اوور ہالنگ نا ممکن ہے ۔ قانون کا نفاذ ناممکن کا سودا ہے ۔ پولیس جو موٹر وے ریپ کے مرکزی ملزم کو دو ہفتوں میں نہیں پکڑ سکی وہ جرائم پر قابو تو نہیں  پا سکے گی  ۔ پریس کانفرنسیں ہوتی رہیں گی ، ٹی وی پر شور مچتا رہے گا ، سیاستدان جو اپنے اپنے مفادات کے بندے اور عوام کے باب میں بے حس ہیں  ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈال کر  اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتے رہیں گے کیونکہ ان کی اوقات یہی ہے اور ان نالائقوں کی عملدار ی میں عورتیں اور بچے اپنے مقدر پر ماتم کُناں رہیں گے ۔ اب آخر میں آج کی نظم:

صبح کا اخبار ( مارننگ نیوز)

پڑھ کے بسم اللہ جھوٹ بولتے ہیں

خالی جیبوں میں رب ٹٹولتے ہیں

ایسے پابند ہیں شریعت کے

فی سبیل اللہ کفر تولتے ہیں

بجلی چوری ہماری ہوبی ہے

بھتہ خوری کے موتی رولتے ہیں

شکر مُلا کا جس کے ہوتے ہوئے

چھپ کے پیتے ہیں اور ڈولتے ہیں

ہاں ، کرپشن پسند ہیں کچھ کچھ

تھوڑا دہشت کا زہر گھولتے ہیں

خُفیہ رکھتے ہیں دل کی پالیسی

ہم کہاں اپنے راز کھولتے ہیں

یہ سیاست کا کھیل ہے مسعود

ہم غریبوں سے بھی مخولتے ہیں