نسلی کُتّے اور بد نسل جنسی کُتّے
- تحریر مسعود مُنّور
- سوموار 23 / نومبر / 2020
- 39010
ہم جس روایتی معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں کُتّا ایک گالی بھی ہے اور وفاداری کی علامت بھی۔ ہمارے اردو ادب میں خواجہ سگ پرست کی کہانی کا کُتّا انسانوں سے زیادہ باعزت اور محترم مخلوق تھا، ہے اور رہے گا۔ کُتے کو کئی صوفیوں نے عابد وں، زاہدوں کا سا اعزاز دیا ہے۔ بُلھے شاہ کی ایک کافی میں ہم نے پڑھا:
راتیں جاگیں کریں عبادت، راتیں جاگن کُتّے
تَیں تھیں اُتّے
کُتّے کو نجس جانور سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس گھر میں کُتا ہو وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں اُترتا۔ ممکن ہے ایسا ہو ، مگر میں نے رحمت کے فرشتے نہیں دیکھے اور نہ ہی اُن کے اُترنے کا کوئی منظر دیکھا ہے ۔ تاہم قرآن کی سورہ ء کہف میں ایک کُتے کا ذکر ہے جو غار کے دروازے میں بیٹھا ہے اور کہتے ہیں کہ وہ کُتا جنت میں اصحابِ کہف کے ساتھ ہوگا۔ کُتّے بستیوں میں زندگی کی علامت ہیں اور گلیوں میں چلتے، گھروں کے دروازوں پر روٹی کے دو لقمے مانگتے اُنہیں سب نے دیکھا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی ایک نظم میں کُتّوں کا ذکر کیا ہے:
جیہڑے ٹھٹڑے اَگ نہ بلّے ، چُلیہوں دھوں نہ نکلے
اوتھے کیہ جانڑاں
جس وستی دی گلیاں دے وچ بھونکن مُول نہ کُتّے
اوتھے کیہ جانڑاں
لیکن پاکستان اب وہ ملک بن چکا ہے جہاں کُتّے اور کروڑوں انسان ایک جیسی زندگی بسر کرتے ہیں مگر ساتھ ہی انسان اور کُتّے ایک دوسرے سے خوف کھاتے ہیں۔ آوارہ کُتّوں اور آوارہ انسانوں میں بہت مشابہت ہے۔ دونوں گلی کوچوں میں رُلتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے بَیری ہوتے ہیں جس پر اردو میں اور پنجابی میں ایک ہی مفہوم کا محاورہ ہے کہ کُتّا کُتّے کا بیری ۔ اس زمانے میں دہشت گردی کی اموات نے اور بھی کئی دل چسپ محاروں اور شعری اظہار کو رواج دیا کہ ایک کُتے نے دوسرے کُتّے سے کہا کہ اس شہر سے بھاگ ورنہ تو انسان کی موت مارا جائے گا۔ کُتے کی موت مرنے کا یہ مضمون اب نظموں غزلوں اور کہانیوں میں کثرت سے نظر آتا ہے۔
لیکن فی زمانہ کُتوں کی افراطِ آبادی نے بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ بہت سی بستیوں میں کُتّے ہر عمر کے لوگوں اور بالخصوص بچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اُنہیں کاٹتے ہیں ۔ سندھ میں کُتے کے کاٹے کی ویکیسین نہ ملنے کی خبریں پچھلے دنوں بہت گرم رہی ہیں۔ بارہا ٹی وی کے خبرناموں میں آوارہ کتوں کے غول کے غول دیکھنے کا موقعہ ملا جن کے بارے میں شکایت تھی کہ وہ خوف و ہراس اور دہشت پھیلاتے ہیں۔ ان دہشت گرد کُتوں کے علاوہ بچوں اور بچیوں کے لیے ایک اور بڑا خطرہ بد نسل جنسی کُتّے ہیں جو کاٹتے ہی نہیں ریپ کر کے قتل بھی کرتے ہیں ۔ پتہ نہیں مجھے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو چھوٹے بچوں اور بچیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں وہ انسان کی کھال میں کُتے ہی ہیں۔ شاید اس کا سبب میرا مذہبی عقیدہ ہے کیونکہ میں نے سورہ ء الواقعہ میں پڑھا ہے کہ:
ہم نے تم میں مرنا ٹھہرا دیا ہے۔ اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تمہاری طرح کے اور لوگ تمہاری جگہ لے آئیں اور تم کو ایسے جہان میں پیدا کردیں جسے تم جانتے نہیں۔ اور تم نے پہلی پیدائش تو جان لی ہے پھر سوچتے کیوں نہیں۔ آیت ۰۶، ۱۶، ۲۶۔
تب اچانک مجھے سبت والوں کا قصہ یاد آیا جو سورہ بقر میں درج ہے کہ اُنہیں ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا گیا تھا مگر انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی تو اُنہیں سزا کے طور پر بندر بنادیا گیا ۔ اور وہ جس شکل میں چاہے پیدا کرنے کی قدر ت رکھتا ہے۔ اس سیاق و سباق میں،مجھے خیال آتا ہے کہ کہیں یہ لوگ جو جنسی درندگی کے مرتکب ہوتے ہیں اور کُتے جو اس قدر کثرت سے کاٹتے پھرتے ہیں، کہیں اپنے اعمال کی سزا میں تو نہیں۔ ان انسانی جسموں میں کہیں وحشی درندے تو آباد نہیں؟ آخر ہماری بستیاں ایسے درندوں سے کیوں بھر گئی ہیں جو صورت سے تو انسان لگتے ہیں مگر ان کے اعمال انہیں درندے اور جانور ثابت کرتے ہیں ۔
اس صورتِ حال کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں کلبلانے لگتا ہے کہ آخر مسلمان پندرہ صدیوں میں وہ معاشرہ کیوں تعمیر نہیں کر پائے ، جس میں انسان نما درندے موجود نہ ہوتے۔ اور یہ کوئی اکا دکا واردات نہیں بلکہ ہر روز ایسی خبریں آتی ہیں جس میں جنسی درندگی کی وارداتوں کی ایسی بھیانک تصویر ملفوف ہوتی ہے جسے دیکھ کر ندامت کے مارے آنکھیں کھولنے کو جی نہیں چاہتا ۔ اور اس کے ردِ عمل میں مذہبی اداروں اور علماء کی خامشی بڑی معنی خیز لگتی ہے۔ نہ اس موضوع پر مولانا سراج الحق زبان کھولتے ہیں، نہ اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ بدکاری نظر آتی ہے، نہ وفاقی شرعی کورٹ کے کان پر جوں رینگتی ہے نہ مذہبی امور کے وریز نورا الحق قادری ہی اس پر اپنا موقف بیان کرتے ہیں اور مولانا فضل الرحمان کا تو مذکور ہی کیا۔ وہ حکومت کو پسپا کر کے چلتا کرنے کے لیے اپنی جنگی پالیسیوں میں بہت مصروف ہیں اور اگر وہ مصروف نہ بھی ہوتے تو کیا تھا۔ قصور کی زینب کا کیس تو ان کے زمانہ ء اقتدار میں ہوا تھا، وہ تو اس وقت کشمیر کمیٹی کے چیمبر سے باہر نہیں نکلے۔ ایسا لگتا ہے اُن کے نزدیک اخلاقیات کا مذہب سے کوئی لین دین نہیں۔ اسلام ان کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے اور ان کا اصل کام جعلی، سلیکٹڈ، کٹھ پتلی اور نالائق حکومت کو مارگرانا ہے۔ رہا جنسی دہشت گردی کا معاملہ تو وہ اسلام کے دائرہ ء کار میں نہیں آتا بلکہ ملکی آئین اور قانون کا معاملہ ہے اس لیے مولانا ایسی باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔
کُتے لوگوں کو کاٹتے رہیں، بد نسل جنسی کُتّے بچوں اور بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کرتے رہیں، اس کا مذہب سے کیا تعلق۔ یہ تو پولیس اور عدالتوں اور وکالتوں کا معاملہ جس سے مذہب بری الذمہ ہے۔ آخر علماء نے اخلاقی تربیت کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا۔ ان کا کام نمازیں پڑھانا، خطبات دینا، تقریریں کرنا اور چندہ اکٹھا کرنا ہے، قوم کی اخلاقی تربیت کرنا نہیں اور وہ یہ کام خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔