صحافی درباری نہیں ہوتا

ملک میں ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار فئیر کے ذریعے قومی سلامتی اور ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کا چرچا ہے۔ اس   دعوے کی تصدیق کے لئے گاہے بگاہے بھارتی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں جھوٹی سچی خبروں کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔  کسی بھی دشمن ملک کی طرف سے پروپیگنڈا یا اس کے تدارک  کے لئے اقدمات کرنا ہر دور میں اہم رہا ہے لیکن  پاکستان میں اس مقصد کے لئے صحافت کو پابند سلاسل اور آزادی رائے کو محدود  کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔

یوں تو پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوری حکومت کی  ضرورت پر زور دیتے ہوئے یوم دفاع کے موقع پر  جی ایچ کیو کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے  اعلان کیا ہے کہ جس  فوج کو عوام کی تائد و حمایت حاصل نہ ہو، اس کا حشر ہمسایہ ملک میں (افغانستان) بھاگ جانے والی فوج جیسا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ   امریکہ اور اتحادیوں نےلگ بھگ ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی لاگت سے تین لاکھ نفوس پر مشتمل افغان فوج  تیار کی تھی جس نے کسی بھی مرحلہ پر طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لئے  مزاحمت نہیں کی۔  حتی کہ کابل جسے حکومت کا گڑھ اور سابق صدر اشرف غنی  کا سب سے نمایاں دفاعی مرکز سمجھا جاتا تھا، طالبان کے فصیل شہر تک پہنچتے پہنچتے خالی ہوچکا تھا۔ افغان فوج کے ’جیالوں‘ نے جو واحد بہادری دکھائی تھی ، وہ شاید اشرف غنی کو ملک سے فرار ہونے میں مدد فراہم  کرنا تھا۔ یا شاید  یہ کارنامہ بھی امریکی افواج ہی نے   سرانجام دیا ہو۔ ہمسایہ ملک میں رونما ہونے والے واقعات پر حالات کی بہت  گہری دھول جمی  ہے اور تصویر صاف  ہونے اور حقیقی صورت حال سامنے آنے میں شاید ابھی کافی وقت صرف ہوگا۔

یہاں یہ موضوع یوں گفتگو  کا حصہ بنا ہے کہ آرمی چیف نے پاک فوج کی عوامی مقبولیت   کی ضرورت واضح کرتے ہوئے  افغان  فوج کی ناکامی کا حوالہ دیا ہے۔ البتہ یہ حوالہ اس وقت   درست ریفرنس  یا  مثال کی صورت اختیار کرسکے گا جب یہ معلومات سامنے ہوں گی کہ کیا واقعی  افغان فوج کے نام پر کھڑا کیا گیا  ’ڈھونگ‘ ایک فوج ہی تھا یا کاغذی  گورکھ دھندے اور زبانی جمع خرچ کا ایک انبار تھا  جو باتیں بنانے کی حد تک تو  جدید اسلح سے لیس کثیر فوج تھی لیکن عملی طور پر اس کی حیثیت  سیاسی نعروں یا وعدوں سے زیادہ نہیں تھی۔  عوامی مقبولیت کے پیمانوں کو یوں بھی افغان سیاست کے تناظر میں ماپنا  مناسب نہیں ہے کیوں کہ وہاں پر اب اقتدار سنبھالنے والی قوت ’طالبان‘ نے بیس برس تک  جو مسلح جد و جہد کی ہے ، اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ افغان عوام  کی جد و جہد تھی۔ بلکہ ایک شدت پسند گروہ نے امریکی افواج  کے خلاف گوریلا  جنگ کی،  جس میں ان کا زیادہ تر نشانہ افغان شہری ہی بنتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت  اس جنگ میں ہلاک و زخمی ہونے والے لوگوں کے اعداد و شمار پر ایک نگاہ ڈالنے سے بھی ہوسکتا ہے۔  

تصویر کے اس رخ  کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ طالبان کو  مسلسل ایک ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان نے اسی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی و اتحادی فوجوں کا مکمل ساتھ دیا تھا۔  اگرچہ  وزیر اعظم عمران خان نے 2001  میں کئے گئے فیصلوں کو غلطی قرار دیا ہے لیکن  یہ فیصلے اسی فوج نے کئے تھے ، جس کے تعاون سے اب تحریک انصاف کی حکومت  افغانستان پر قبضہ کرنے والے طالبان کو دنیا سے  تسلیم کروانے  کی سفارتی جد و جہد میں مصروف ہے تاکہ وہاں ’امن قائم ہوسکے اور افغان عوام کو قحط اور مالی مشکلات‘ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ماضی میں اگر فوجی قیادت نے افغانستان کے حوالے سے کچھ غلط فیصلے کئے تھے تو اب عسکری ادارے ہی اس کا جائزہ لے کر  ’وہائٹ پیپر‘  قسم کی کوئی دستاویز سامنے لائیں تو  یہ مانا جاسکتا ہے کہ پاک فوج ماضی میں کی گئی غلطیوں سے تائب ہوچکی ہے اور نئی حکمت عملی بناتے ہوئے ، ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر وہی فیصلہ کرنے کا تہیہ کیا گیا ہے جو  عوام کی منتخب حکومت پارلیمنٹ کی مرضی و منشا کے ساتھ کرے گی۔ اس رجحان کی علامات  ابھی تک  سامنے نہیں آئی ہیں۔ افغانستان پر حکمران تحریک انصاف اور پاک فوج ضرور  ’ایک پیج‘ پر ہیں لیکن پاکستانی پارلیمنٹ کو اس عمل سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔

 شاید یہ مان لیا گیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو طالبان کی انتہا پسندی، خوں ریزی، انسان دشمن رویوں اور غیر جمہوری مزاج کے باوجود  ہمسایہ ملک میں ایک ایسی حکومت قائم ہونے پر اعتراض نہیں ہوگا جسے  فوج پاکستان کے لئے   مناسب سمجھتی ہے کیوں کہ   اس تبدیلی سے افغانستان کی سرزمین سے فی الوقت بھارتی  سرگرمیوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ بھارت نے اتحادی افواج کے دور میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف  تخریبی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا اور تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ  بلوچ قوم پرست عناصر کے ذریعے مسلسل پاکستان میں  بدامنی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔   یہ سارا کام ایک ایسے وقت میں ہورہا تھا جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریب ترین حلیف تھا لیکن جس ملک سے دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے یہ جنگ ہورہی تھی ، وہی پاکستان میں دہشت گردی کا منبع و مسکن بھی بنا ہؤا تھا۔ اس دوران پاکستان  کے اعتراضات کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور نہ ہی پاکستان نے اس عذر کی بنیاد پر کبھی امریکی جنگ کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ اس حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات کا تعلق مالی وسائل کی فراہمی اور   عالمی سفارت میں پاکستان کی بجائے بھارتی منصوبوں کی سرپرستی  سے تھا۔  پاکستان  میں گو امریکہ  مخالف جذبات بھی موجود ہیں اور رائے عامہ بھی امریکی حکومتوں کی پاکستان کے خلاف پالیسیوں  کو مسترد کرتی ہے لیکن حکمرانوں نے ہمیشہ امریکی لابی کا حصہ رہنے  کو ہی ترجیح دی ہے۔ حتی کہ سی پیک جیسا وسیع البنیاد معاشی منصوبہ شروع ہونے کے بعد بھی  پاکستانی اشرافیہ نے ہمیشہ امریکہ ہی کو خوش کرنے کی کوشش کی اور ان ’خدمات‘  کا معاوضہ وصول کرنے کی خواہش پالی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والی دوریوں میں پاکستان کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ یہ فاصلے امریکہ ہی کی طرف سے پیدا کئے گئے  ہیں جس نے بھارت کو اس  خطے میں اپنا اہم ترین اسٹریٹیجک پارٹنر بنا رکھا ہے۔

بات طول کھینچنے لگی لیکن یہ حوالہ دیے بغیر بھی چارہ نہیں ہے کہ افغانستان میں نہ تو طالبان کو عوامی نمائیندے ہونے کا زعم ہے اور نہ ہی انہوں نے جمہوریت کی کسی بھی قسم  کو اپنانے  کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وہ اب بھی ڈنکے کی چوٹ پر اسلامی شریعت کو افغانستان کا آئین قرار دیتے ہیں اور جمہوریت کو غیر افغان طریقہ کہتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔  اس لئے طالبان کی کامیابی  اور حکومت سازی سے افغان عوام کی مرضی و منشا کا سراغ لگانے والوں کو اس    بارے میں احتیاط  کرنی چاہئے ۔ یوں بھی کابل اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں طالبان کی بجائے پاکستان کو افغان عوام کا دشمن قرار دینے کے سلوگن درج تھے۔  ہوسکتا ہے کہ یہ نعرے  افغان عوام کی اکثریت کی نمائیندگی نہ کرتے  ہوں لیکن یہ  صورت  حال  پاکستان کے لئے خوشگوار نہیں ہے ۔ اور   اسے  اپنی افغان پالیسی اور طالبان کے ساتھ تعلق کے حوالے سے  سنجیدہ غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔  یوں بھی افغان طالبان  پر مکمل ’سرمایہ کاری‘ کرتے ہوئے  یہ  بھی سوچ لینا چاہئے کہ  انہوں نے ابھی تک  ٹی ٹی  پی کے حوالے سے کوئی واضح اور دو ٹوک  وعدہ نہیں کیا ہے۔ افغانستان کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی بات عمومی تناظر میں کی گئی  ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت کو بھی شاید  معاملہ کی  سنجیدگی کا ادراک ہے ۔ اسی لئے  عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ پاک افواج کسی بھی قسم کے خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔

اس خطرے  کا مقابلہ کرنے  کے لئے البتہ فوج کو عوامی تائد کی ضرورت ہے۔ اس کا برملا اظہار جنرل قمر جاوید باجوہ نے چھے ستمبر کی  تفصیلی تقریر  میں بھی کیا ہے۔ البتہ یہ عوامی قبولیت حاصل کرنے کے لئے جن ذرائع پر بھروسہ کیا جارہا ہے اور  میڈیا پر مکمل کنٹرول کے ذریعے  یک طرفہ سنہری تصویر پیش کرنے کا جو طریقہ مروج ہورہا ہے، اس سے شاید فوج اور عوام کے درمیان اعتماد سازی کا ماحول پیدا نہیں ہوگا۔  یہاں یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ پاکستانی عوام پاک فوج سے محبت کرتے ہیں  کیوں کہ فوج پاکستانی قوم سے علیحدہ کوئی اکائی نہیں ہے بلکہ اسی  کے گھروں آنگنوں  میں پروان چڑھنے والے نوجوان ہیں جو  ملکی سرحدوں کی حفاظت کے جذبے سے پاک فوج کا حصہ بنتے ہیں۔   فوج اور عوام کے درمیان فاصلے  البتہ وہ فیصلہ ساز قیادت پیدا  کرتی ہے جو  کسی نہ کسی عذر کی  بنیاد پر فوج کے آئینی کردار میں ترمیم و توسیع پر یقین کرنے لگتی ہے اور سیاسی  عناصر بھی کوتاہ اندیشی یا وقتی مفاد کے لئے اس مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں۔     ملکی فوج اور سیاسی قیادت کو اس پہلو  سے ترجیحات اور دائرہ کار واضح اور نمایاں  کرنے کی ضرورت ہے۔

فوج اور حکومت سمیت   ریاست کے اہم اداروں اور عوام کے درمیان تعلق کو مضبوط کرنے میں میڈیا اور صحافی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔   لیکن   حکومت یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے کہ صحافی درباری نہیں ہوتا۔  سیاست میں درباریوں کی ضرورت بھی ہوتی ہوگی لیکن اگر صحافت کو دربار اور اس کے کارکنوں کو قصیدہ گو بنانے  کے منصوبے پر عمل کیا جائے گا تو  اداروں پر اعتماد کا ’ڈھونگ‘ تو  قائم ہوجائے  گا لیکن اعتبار  کی وہ فضا پیدا نہیں ہوگی جو   سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے کلیدی اہمیت  رکھتی ہے۔   یہ ممکن ہے کہ سرکار دربار کی سرپرستی میں قائم ٹی وی چینل، یوٹیوب نشریا ت یا سوشل میڈیا گروپ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی  کی  آسودگی و  تسکین کا سبب بنتے ہوں لیکن  ان درباریوں کو  صحافی کہنے اور سمجھنے  والے  صرف خود کو دھوکہ دینے کا موجب بنیں گے۔

صحافی سچ خبر  سامنے لانے اور حالات و واقعات پر  دیانت دارانہ  و خود مختارانہ رائے دینے والے  شخص کو کہا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی مرحلے پر کسی رائے  سے اختلاف کی صورت پیدا ہو اور     ایک خاص وقت میں  کسی خبر کی تشہیر کو عوامی و ملی مفاد کے برعکس مانا جائے ۔ تاہم اہل حکومت کو جمع خاطر رکھنی چاہئے کہ  ناقدانہ نگاہ رکھنے والے صحافی کو بھی ملک و قوم کا مفاد اتنا ہی عزیز ہوتا ہے جتنا حکومت یا طاقت کے کسی عہدے پر فائز شخص کو ہوسکتا ہے۔   خود مختاری  اور دیانت داری سے خبر یا رائے کا اظہار کرنے والےعناصر کی حوصلہ افزائی سے  ہی وہ جمہوری روایت نشو  و نما  پاتی ہے   جو  کسی بھی بحران پر قابو پانے کی صلاحیت  سے مالامال ہوتی ہے۔ 

ففتھ جنریشن وار  لڑنے کے شوق میں صحافیوں کے نام پر درباریوں کی فوج پیدا کرتے ہوئے اس پہلو  پر غور کرلیا جائے تو مستقبل کو ویران ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ افغان فوج کا حشر   یہ بتاتا ہے کہ قیاس  کی بنیادپر بنایا گیا غبارہ   پھٹتا ہے تو بہت سے منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں۔