مذہب کا غیر مذہبی تصور

تُو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

مذہب کے  ضمن میں مولانا روم  کا موقف یہ ہے کہ  مذاہب دنیا میں انسانوں کو انسانی رشتے میں پرونے  اور اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے اُتارے گئے تھے  لیکن اس کے برعکس ہوا یہ  کہ مذاہب کے کم فہم علمبرداروں نے  انسانوں کو انسانوں سے جُدا کر کے اُن کے درمیان نفرت اور دشمنی کے بیج بوئے  اور کچھ درندہ صفت انسانوں نے  مذہب کو دوسری اقوام  کی زمینیں چھیننے اور اُنہیں غلام بنانے کے لیے استعمال کیا۔ 

یہ اُس وحشی انسان کی کہانی ہے  جس نے مادی تہذیب کے بل پر شاندار عمارتیں، ملبوسات، زیورات، گاڑیاں، طیارے، بحری جہاز،  اور ٹیکنالوجی  کے استعمال سے قسم قسم کی جدید مشینیں تو بنا لیں  مگر محبت کو عام کرنے والی مشین نہیں بنا سکا  اسی صورتِ حال کا ادراک کر کے اقبال نے گلہ کیا تھا :

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا

آج تک فیصلہ  نفع و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاوں کو گرفتار کیا

زندی کی شبِ تاریک، سحر کر نہ سکا

اس سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی نے جہاں انسانوں کو سہولتیں دی ہیں، وہاں اُن کے لیے یا ینحل مسائل بھی بیدا کیے ہیں۔  گویا اعلیٰ  انسانی اقدار کو  رواج دینے کے بجائے اُن کا قلع قمع کیا ہے اور انسانوں کو سدھارنے کے بجائے خراب کیا ہے۔  تیمور و نادر و چنگیز  اب بھی ہیں مگر اب اُنہوں نے  کمزوروں کو لُوٹنے اور  مارنے کے لیے جدید طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔  قوموں کو اقتصادی  طور پر غُلام بنانے کے  آئی ایم ایف، اور عالمی بنک جیسے متعدد  بین الاقوامی پھندے  ایجاد کیے گئے ہیں  جو غریب اقوام کا خون بڑے سائنسی طریقے سے چوستے ہیں  اور اپنے ظلم و ستم اور جوروجفا کو  انسانوں کی فلاح و بہبود کا نام دیتے ہیں۔ اگر ہم ویت نام، ہیروشیما، ناگاساکی ، لیبیا، شام  اور عراق جیسے  ملکوں کی تباہی و بربادی  پر نظر ڈالیں  تو اُن کے پیچھے وہ  مہذب درندہ صاف نظر آ جائے گا  جس نے ظاہر کو آباد اور باطن کو برباد کیا ہے  اور اپنے مذموم مقاصد کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے لیے طرح طرح کے فلسفے، حیلے، بہانے اور نظریات گھڑے گئے ہیں  جن کے بل پر طاقت اور جبر و استبداد کی حکمرانی قائم کی گئی ہے۔  اور ہمارے حروفِ ہجا میں الف سے اللہ کو الف سے امریکہ بنا دیا گیا ہے  اور اس پر طرہ یہ کہ ہمارے  مذہبی آڑھتیوں  کی کوتاہ بینی، کم ظرفی اور جہالت نے  مذہب کو ایک کاروباری ادارے میں  تبدیل کر دیا ہے ، جس میں قسم قسم کے ڈبہ پیر  اور شیوخ الاوہام  مذہب فروشی کر کے کھرب پتی تک بن گئے ہیں ۔ فی زمانہ مذہب کے نام پر جو ہاہاکار مچی ہے اُس کے بارے میں صوفیا کا موقف واضح ہے کہ:

اُچّے کلمے سویو پڑھدے نیت جیہناندی کھوٹی  ھُو

اور ٹیکنالوجی نے یہ سہولت مہیا کر رکھی ہے  کہ مذہب کے نام پر تفرقے کا شور برپا کیا جائے۔  ہر گلی کوچے میں  تقریروں اور خپبوں کا وہ شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی جس میں اللہ کی صدا کو پہچاننا ناممکن ہوگیا ہے۔  کوئی  بھی یہ نہیں سوچتا کہ  خپدا دلوں کا حال جانتا ہے اور  اُسے اپنے دل کی بات بتانے کے لیے شور مچانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

مذہب اپنی نوعیت کے اعتبار سے  انسانوں کو آپس میں جوڑنے  کے لیے محبت، اخوت اور مساوات کا عہد و پیمان ہے  جو روزِ میثاق سے چلا آتا ہے  جب خالقِ کائنات نے تمام ارواح سے مخاطب ہو کر سوال کیا  تھا  (الست بربکم) کہ کیا میں تمہارا رب ہوں؟  تو سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا تھا  (قالو بلیٰ)  کہ ہاں آپ ہی ہمارے رب ہیں۔  اُس اجتماع میں گورے کالے  پیلے  اور  رنگدار سبھی  موجود تھے جنہیں بتایا گیا کہ تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو  اور آپس میں اخوت کے رشتے میں منسلک ہو۔ اور یہی وہ پیغام ہے جو  خطبہ ء حجتہ الوداع میں بنی نوعِ انسان کو یاد دلایا گیا تھا   مگر ہمارے سوشل سٹیٹس  کے بُخار نے  ہمیں  اندھا، گونگا اور بہرا کردیا  اور ہم نے صرف ایک نعرے پر اکتفا کرلیا کہ ہم  دنیا کی بہترین اُمت اور  عشاقِ رسول ﷺ ہیں  مگر ہم نے آقائے نامدار ﷺ کے پیغام پر عمل کرنا چھوڑ دیا  اور یہ نہ سوچا کہ رسولِ کریم ﷺ کو ماننا، ااپ ﷺ کی شریعت پر من و عمل کرنا ہے ۔

 ہماری چالاکی دیکھیے کہ ہم اعمال تو اپنی مرضی کے کرنے لگے  اور نام محمد ﷺ کا لیتے رہے۔ اس سے بڑا مکر و فریب  کیا ہوگا؟ اور  اس کا حاصل اور نتیجہ یہ ہے کہ  ہم اقوامِ عالم میں سب سے پسماندہ رہ گئے ہیں  مگر جنت اور حوروں کے خوابوں میں مست رہتے ہیں  اور یہی ہماری اوقات ہے۔  ہم یہ بالکل بھول گئے ہیں کہ  ساری مخلوق ایک ہی خُدا کا کُنبہ ہے ۔ ساری نبوتوں کا سرچشمہ یہی ہے ۔ اگر ہم نے ناظرہ قرآن خوانی کے بجائے  کبھی سورہ ء انبیا کے مفہوم و معنی پر غورکیا ہوتا  تو ہمیں معلوم ہوتا کہ ہم سب ایک ہیں۔، مگر ہمارے گروہی اور ذاتی مفادات نے  ہمیں ایک دوسرے سے مل کر رہنے نہیں دیا  جس کے نتیجے میں انتشار و افتراق ہماری تقدیر بن کر رہ گئے ہیں  اور ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ ہابل وقابیل، قاتل و مقتول، اور ظالم و مظلوم کا خُون ایک ہی ہے۔

 اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ  ہم اپنے باہمی انسانی رشتوں  از سرِ نو مرتب کریں  کیونکہ سب آسمانی مذاہب کا سرچشمہ ایک ہی ہے ، مگرہماری کوتاہ فکری  اور ذہنے فرومائگی نے ہمیں ہلاک کر کے رکھ دیا ہے، ہمارے ذہن ماؤف ہو گئے ہیں  اور ہمیں مذہب کی حقیقت بھول گئی ہے۔  حالانکہ قرآنِ کریم نے اپنا واضح فیصلہ دے رکھا ہے کہ:

یہودی ہوں، عیسائی ہوں، مسلماں ہوں کہ صابی ہوں

عمل کر نیک کرتے ہوں  تو پھر کیا خوف و غم اُن کو

سورہ ء بقر آیت  ۲۶

وما علینا الابلاغ،

فی زمانہ سیاسی صورتِ حال پر گفتگو کرنا  ایک بے معنی فعل ہے۔  بہتر یہ ہے کہ حلوہ بکا کر  کھایا جائے اور اپنی جہالت کا جشن منایا جائے۔