اعصابی تشنج (ٹینشن) میں مبتلا معاشرہ

اعصابی تشنج کی مشکل اصطلاح کو ٹینشن کہہ کر آسان اور قابلِ فہم بنایا جاسکتا ہے۔ سارے اعصابی تناؤ اور  دردوں کا ماخذ ہمیشہ یہ ہوتا ہے  کہ فرد اور ادارے خود کو من و عن قبول نہیں کررہے ہوتے اور خود سے  راہِ فرار اختیار کر کے  خوابوں اور خواہشوں  پناہ لیتے ہیں۔

مثلاً پاکستان کا خواب  ایک اسلامی مملکت کا خواب ہے۔ اسلامی مملکت نوعیت کے اعتبار سے ایک فلاحی مملکت  ہے ، جس میں ہر شہری  کو برابری کی بنیاد  پر شہری حقوق اور مواقع میسر ہو تے ہیں۔ مگر شومی  قسمت سے  عوام کی خوش حالی کا یہ خواب شرمندہ  تعبیر نہیں ہو سکا۔  کیونکہ ہمارے ادارے مشینی نوعیت کے ہیں  جن کا کام خود کار نوعیت کی طرح ہوتا ہے  جو اپنی رسمی کاروائیوں کے بل پر زندہ رہتے ہیں۔  اس طرح یہ ادارے اپنے ہونے کا جواز فراہم کرے ہیں۔  کوالیفائیڈ  افراد سے تہی یہ ادارے  روبوٹوں کی طرح کام کرتے ہیں  اور  اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں ۔  ایسے اداروں  میں نہ تو فرد کی  اہمیت کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے  اور نہ ہی اُسے جیتا جاگتا انسان سمجھا جاتا  ہے۔ وہ مشینی ساخت کے ادارے کا ایک پرزہ ہوتا ہے،  جب وہ خراب ہو جائے تو اس کو بدل دیا جاتا ہے۔

ان کل پرزوں کی حسبِ ضرورت دیکھ بھال کی جاتی ہے  تاکہ وہ ضرورت کے مطابق ادارے کی خدمت کرتے رہیں۔ ایسے معاشرے انسانی ہمدردی سے خالی ہوتے ہیں۔ یہاں ہر طبقے کے لوگ اپنی اپنی جگہ اپنے مفادات کے حصول میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان طبقوں کی  موجود حالت سے مطلوبہ  منصب اور مرتبے  تک کے درمیان جو فاصہ یا گیپ ہوتا ہے،  وہ ٹینشن پیدا کرتا ہے۔  حکمران طبقے اپنی رِٹ  کو برقرار رکھنے کی ٹینشن میں ہوتے ہیں۔ اقتدار سے  محروم  سیاسی طالع آزما دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی ٹینشن میں ہیں اور ساتھ ہی نیب کے مقدمات سے بچنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ میڈیا کے میڈ ہاؤسز اپنے کاروباری  نقصانات کی تلافی کی ٹینشن میں ہیں اور عوام  کی  ٹینشن  سب سے بڑی ہے جو  خوفناک مہنگائی  سے چھٹکارہ پانے کے لیے رو پیٹ رہے ہیں۔ 

ملک کی سڑکیں رسہ گیروں اور راہزنوں  کی محفوظ شکار گاہیں ہیں۔ حکمران اپنے وعدے  پورے نہ  کر سکنے کی اعصابی اذیت میں سلگ رہے ہیں اور  ایسی عذابناک صورتِ حال میں عام لوگوں سے لے کر اشرافیہ تک اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کو صلواتیں سناتے ہیں اور ایک دوسرے کے لتے لیتے ہیں، ملکی قوانین اپنی  نفاذ کی  طاقت کھو چکے ہیں اور ہر ادارہ دوسرے ادارے کا اسی طرح بیری ہورہا ہے جیسے کُتا کُتے کا بیری ہوتا  ہے۔ تمام قوانین، اخلاقی ضابطے اور رویے دم توڑ چکے ہیں۔  اور جہاں سے  باہمی رواداری، اخوت اور جذبہ ترحم  کوچ کر جائے  وہ معاشرہ قبرستان میں تبدیل ہو جاتا ہے، جہاں قبروں سے غیر انسانی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ ایسے معاشروں کر ٹھیک کرنے اور راہ پر لانے کے لیے  نت نئے قوانین وضع ہوتے ہیں  جو شعوری نہیں مشینی ہوتے ہیں جو بالمعموم بری عادات میں تبدیل ہو کر معاشرے کا جذام بن جاتے ہیں۔

ایسے قوانین خواہ  شرعی ہوں  یا اولی الامر کی شوریٰ کی طرف سے وضع  کیے گئے ہوں،  کاغذی پرزوں سے زیادہ وقعت کے حامل نہیں ہوتے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ  پاکستانی معاشرے میں منبر و محراب سے یہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ  ایک بے گناہ شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مگر  کوئی اس بات کو یا تو سمجھتا نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتا۔  قرآنی  آیات کے حوالوں کے باوجود  گلی کوچوں میں ہر روز قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا ہے۔  اور اس کی وجہ یہ ہے  کہ قانون اور اس کا اطلاق محض رسمی  ہے  جو آئین اور قانون کی کتابوں میں تو لکھا ہوا ہے  لیکن یہ ریاست کے شہریوں کا  جزوِ زندگی  نہیں ہے۔ اور جب تک کوئی قانون معمول نہیں بن جاتا  تب تک اُس کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں ہوتی۔  اور شومی قسمت سے ہمارے عہد میں نہ کوڑی  چلتی ہے نہ قانون مگر زبان میں اس کے محاورے ضرور باندھے جاتے ہیں ۔ چنانچہ قانون اور لوگوں کے روز مرہ کے درمیان جو گیپ یا فیصلہ ہے  وہ اعصابی کھنچاؤ کا سبب بنتا ہے جس کا ذکر اس مضمون کی ابتدا میں کیا گیا ہے۔

چنانچہ ہمارے  معاشروں  میں قانون اور شہری کے درمیان خلیج بنگال کا فاصلہ ہے ۔ یہ وہی خلیج ہے جس نے دسمبر اکہتر میں ایک ملک کے دو بازوؤں  کو  ٹُوٹ کر ایک دوسرے سے جُدا ہوتے دیکھا ہے۔ اور اس صدمہ جانکاہ سے گزرنے کے باوجود ہم یہ نہیں سمجھ پائے  کہ قانون اور اسلام لازم و ملزم ہیں۔ اور یہ قانون تین  ضلعی مثلث  نماہے جس کا ایک ضلع اللہ کی اطاعت، دوسرا رسول اللہ و کی اطاعت اور تیسرا ضلع حاکمِ وقت کی اطاعت ہے۔  انسان قانون کی پابندی کا عملی نمونہ ہوتا ہے۔  اور جس قانون پر عمل نہ ہو رہا ہوں وہ بجائے خود ایک  جرم نما بوجھ ہوتا ہے۔  یہی وجہ ہے  کہ ہم وکلا اور ججوں کی فوج ظفر موج کے ہوتے ہوئے  انصاف پر مبنی معاشرہ قائم نہیں کر سکے۔ یہ ہماری چوہتر برس کی نالائقیوں کی تاریخ ہے۔  

ہم دن بھر قانون قانون کی جگالی کرتے ہیں  مگر ہمارے اعمال قانون سے  ہماری آگاہی کی گواہی نہیں دیتے۔  یہ  صورتِ  حالات ہمارے لیے ایک لمحہ ء فکریہ ہے  لیکن ہمارے  مذہبی رہنما  سیاسی قائدین  اور دانشور  اس معاملے کی سنگینی کو یکسر نظر انداز کر کے  اپنے مالی اور سماجی مرتبے کو  تحفظ اور ترقی دینے  میں لگے رہتے ہیں۔  اُن کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ معاشرے میں قانون کی پابندی روا رکھی جاتی ہے یا نہیں ۔  بدقسمتی سے قانون انہیں تب یاد آتا ہے جب  ان کی اپنی جان شکنجے میں ہوتی ہے اور وہ ڈوبتے ہوؤں کے مصداق قانون کے تنکے کا سہارا لیتے ہیں۔ نظریاتی تصورات کی وادی میں بھٹکنے والوں یہی انجام ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ٹینشن کی اذیت میں مبتلا رہتے ہیں  اور دوسروں کو بھی رکھتے ہیں۔ کیونکہ جو کسی کے پاس ہو وہی تو وہ دے سکتا ہے۔

چلو چلو پاکستانیو! اپنے اپنے حصے کی ٹینشن کا راشن وصول کر لو۔ مہنگائی کے دور میں ٹینشن پر جینے کے علاوہ ہو ہی کیا سکتا ہے اور اب آخر میں چند اشعار قارئین کی نذر:

نہ آسمان کا ہوں اور نہ اس زمیں کا ہوں

میں ایک خواب کسی چشمِ سرمگیں کا ہوں

مرا خیالی وطن ہے وہ ملک پاکستان

جہاں میں رہتا نہیں ہوں مگر  وہیں کا ہوں

رہا ہمیشہ محبت کے  ہفت  سُر میں مقیم

میں ایک نوحہ لبِ لعلِ نازنیں کا ہوں

مجھے پہنتا نہیں کوئی موسمِ گُل میں

لباسِ شب میں کہاں جسمِ صندلیں کا ہوں

نہ خانقاہ نشیں ہوں نہ البلہِ مسجد

میں داغِ سجدہ گنہگار کی جبیں کا ہوں