اسلام خطرے میں
- تحریر مسعود مُنّور
- ہفتہ 04 / دسمبر / 2021
- 10230
یارِ عزیز حبیب جالب رحمتہ اللہ علیہ نے مذہب کے بارے میں نعرہ حق بلند کیا اور فرمایا:
خطرہ ہے زرداروں کو
رنگ برنگی کاروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
اسلام کبھی خطرے میں نہیں رہا کیونکہ کتاب اللہ میں یہ وعید رقم ہے: کہ میں نے ہے یہ ذکر اُتارا ہے اور میں ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہوں۔ جس پیغام کو اللہ نے اُتارا اور اُس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے وہ خطرے میں کیسے ہو سکتا ہے لیکن حقیقت یہ کہ بزعمِ خود مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی دسترس میں کتاب اللہ نہیں رہی اور اُس کا سبب یہ ہے کہ اب مسجدیں خُدا کے دین کی درسگاہیں نہیں بلکہ مُلائیت کی کاروباری فرمیں بن کر رہ گئی ہیں، جہاں دین کے دام کھرے کیے جاتے ہیں۔
لگتا ہے کہ اب اس عہد میں خُدا لوگوں کے دلوں میں موجود ہی نہیں بلکہ کوچ کر گیا ہے۔اب ملحدوں کی اکثریت خود کو موحد کہتی ہے اور بے صبری کے دشت میں بھٹکتی ہے حالانکہ اللہ نے صاف صاف واضح کردیا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جہاں صبر نہ ہو وہاں توحید نہیں الحاد ہوتا ہے۔ اس عہد کے بیشتر علماء الحاد کے شارحین اور مفسر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پچھلی سولہ صدیوں میں مسلمانوں کی وہ نسل تعمیر ہی نہیں کرپائے جو صادق اور امین کی گواہ ہو۔ ہمارا المیہ یہ ہے ہم ہر روز پانچ نمازوں میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی گواہی کا اعلان کرتے ہیں لیکن اپنے اعمال سے اللہ کے احکامات اور رسول ﷺ کی شریعت کی گواہی نہیں دیتے۔ یہ گواہی صرف اور صرف اعمال سے دی جاتی ہے کیونکہ اللہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ لما تقولون ما لا تفعلون یعنی جس بات پر تم عمل پیرا نہ ہو اُس کو زبان پر مت لاؤ۔
اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے عمل کا دروازہ بند کر رکھا ہے اور اللہ کے دین کو تقریوں، بحثوں اور نعروں تک محدود کر رکھا ہے جوبجائے خُود بڑی بھیانک بلاس فیمی ہے اور اس عہد نے دین کے ان غداروں نے اپنی ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کا یہ طریقہ دریافت کر رکھا ہے کہ توہینِ مذہب یا ناموسِ رسالت ﷺ کی اہانت کا الزام لگا کر کسی کو بھی قتل کردیا جائے اورخود کو غازی کے مرتبے پر فائز کرنے کا اعلان کردیا جائے۔
ہماری کم مائیگی یہ ہے کہ ہم دن بھر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہم اللہ کے حکم کے برعکس جھوٹ بولتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، کم تولتے ہیں، غیبت کرتے ہیں، چغل خوری کرتے ہیں، بد کلامی اور گالی گلوچ کرتے ہیں اور پھر اسی ناپاک مونہہ سے اسلام کے مجاہد ہونے کے فرضی دعوے کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح کے مجاہدوں نے آج سیالکوٹ میں سری لنکا کے ایک شہری اور ایک فیکٹری کے منیجر کو توہینِ مذہب کا الزام لگا کر بے دردی سے قتل کیا، لاش کی بے حرمتی کی اور پھر لاش کو نذرِ آتش کردیا۔ یہ ہے وہ اسلامی کردار جو ہمارے نام نہاد علما نے تعمیر کیا ہے۔
اس ملک میں بدقسمی سے ناموسِ رسول ﷺ کو آلہ ء قتل میں تبدیل کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ہے اور ہمارے علما کو اللہ نے اتنی توفیق نہیں دی کہ وہ جس نام کا کھاتے ہیں اُسی نام کی لائی ہوئی تعلیمات کو من و عن نافذ کر سکیں۔ ہمارے یہاں بد قسمتی سے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آگیا ہے، جو ہر طرح سے بے لگام ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے لیے روشنی نہیں بن سکے۔ اور اس کی سب سے خراب مثال وہ علماء ہیں جو خود تو لوگوں میں روشنی تقسیم کرنے کے دعویدار ہیں مگر خود مال جمع کرنے اور امیر بننے کے راستے پر دین کے تاجر بنے ہوئے ہیں۔ بُلھے شاہ نے کہیں اس صورتِ حال کو بڑی دانشمندی سے بیان کیا ہے؛ فرماتے ہیں:
مُلا اتے مشالچی ،دونویں اِکّو چِت
لوکاں ونڈن چانناں تے آپ ہنیرے وچ
لیکن ہم بطور مسلمان اپنے کردار پر بھروسہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے ہاتھ میں تعلیمِ محمدی ﷺ کی ٹارچ نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں۔ ہم محمدﷺ کا نام تو لیتے ہیں، مگر اُن کے راستے پر نہیں چلتے۔ بابا فضل شاہ نور والے علیہ رحمت فرمایا کرتے تھے کہ ہم خُدا کو تو مانتے ہیں مگر خُدا کی ایک نہیں مانتے۔ ہم اپنے بدن کی غلاظتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر ہمارا جسم جھوٹ، فریب، منافقت، جہالت، دشنام طرازی اور غیبت کے کوڑا کرکٹ سے کچرا کُنڈی میں بدل گیا ہے اور ہم چلتی پھرتی کچرا کُنڈی بن کر رہ گئے ہیں تو ہم اس پر ذرا سے بھی جھجکتے اور شرماتے نہیں۔
جب ہم جانتے ہیں کہ ہم جو بو رہے ہیں، وہی ہمیں کاٹنا ہوگا تو پھر ہم اپنے آپ کو کیوں نہیں بدلتے کیونکہ جب تک فرد نہیں بدلے گا ادارے نہیں بدلیں گے۔ اور نہ جانے ہم اتنی سی بات کیوں سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ادارے ہم آپ ہی ہیں۔ اگر ہم آپ کرپٹ، بدعنوان اور بے ایمان ہیں تو ادروں اور سسٹم کی تبدیلی کی بات کیوں کرتے ہیں۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم ہی فرد ہیں، ہم ہی ادارہ ہیں اور ہم ہی سسٹم ہیں۔ شاید یہ بات ہماری فہم و فراست سے بالاتر ہے۔ اگر بات سمجھ میں آگئی ہوتی تو یہ معاشرہ بچھوؤں اور حشرات الارض کا گڑھ نہ ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم سچ مُچ اتنے کُند ذہن اور غبی ہیں کہ ہم کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ضررکو نہیں سمجھتے۔ شاید نہیں۔ اگر بات ہماری سمجھ میں آگئی ہوتی تو ہم یقیناًبدل چکے ہوتے، سمجھ بوجھ کے ضمن میں بلھے شاہ فرما گئے ہیں:
گل سمجھ لئی تے رولا کیہ
ایہہ رام، رحیم تے مولا کیہ
اور ہم اسی بے سمجھی کے کاندھوں پر اسلام کی لاش اُٹھائے قوالی گا رہے ہیں کہ:
میرے مولا! بُلا لو مدینے مجھے
میں کچھ عرصے سے اللہ کی طرف سے اُتاری گئی ایک آزمائش میں مقیم ہوں اور اپنی کیفیت اللہ کے سوا کسی سے بیان نہیں کرتا مگر آج سیالکوٹ میں جو کچھ ہوا، اُس نے مجھے بہت دکھی کیا ہے اور میں اس دکھ کو اللہ کے سامنے دُکھڑا رونے کے ساتھ آپ سے بھی اپنا درد شیئر کر رہا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اُس نے ہمیں جو ہدایت دے رکھی ہے، اُس کو صرف سُخنے ہی نہیں قدمے بھی قبول کریں ورنہ، اقبال سے بصد معذرت:
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ کے اے فرضی مسلمانو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں