پاکستان کے شرمسار ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟

سیالکوٹ میں  توہین مذہب کے الزام پر ایک سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل کے بعد وہی معلومات سامنے آرہی ہیں جو اس سےپہلے درجنوں بار دیکھنے اور سننے میں آچکی ہیں۔ یعنی  چند لوگوں کے اکسانے پر ہجوم جمع ہؤا  اور توہین مذہب و رسالت کے نام  پر گروہ کو اشتعال دلا کر   قانون کو ہاتھ میں لینے  اور کسی ناپسندیدہ شخص کو گزند پہنچانے پر آمادہ کیا گیا۔   اب  وزیر اعظم عمران خان  کا کہنا ہے یہ دن پاکستان کے لئے  یوم شرمندگی ہے ۔ اپوزیشن  لیڈر شہباز شریف کہتے ہیں کہ اس قابل مذمت واقعہ  سے پو ری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ سوال تو صرف اتنا ہے کہ ملکی قائدین کی شرمندگی سے کیا  مستقبل میں ایسے سانحات کو روکا جاسکے گا؟

اس سوال کا جواب جاننا ہو تو   جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور رویت ہلال کمیٹی کے سابق  چئیرمین مفتی منیب الرحمان کے بیانات پر غور  کرلیا جائے۔ ان بیانات سے ہی اندازہ ہوجائے گا کہ  اس ’شدید شرمساری ‘  کے عالم میں بھی ملک کے  مذہبی رہنما  عقیدے کی بنیاد پر اشتعال انگیزی سے باز نہیں  آتے۔  مولانا فضل الرحمان کا  کہنا تھا  کہ ’ سیالکوٹ  کا واقعہ قابل مذمت  ہے لیکن ریاست اگر توہین رسالت اور توہین ختم نبوت کے ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی تو اس قسم کے واقعات تو ہوں گے‘۔ گویا ملک میں جمہوری انقلاب برپا کرنے کے داعی، ایک  بڑی مذہبی جماعت کے سربراہ ، نام نہاد عالم دین اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے صدر سیالکوٹ میں انسانیت کو شرمسار کرنے والی حرکت  کا بھی کوئی نہ کوئی عذر نکالنے کے اہل ہیں۔ ایسے عذر خواہوں کے ہوتے   مذہبی انتہا پسندی اور حمیت دین کے نام پر قانون شکنی کے مظاہر کو روکنا محال ہے۔

کچھ اسی قسم کا رویہ حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایما پر تحریک لبیک  پاکستان کا غیر قانونی دھرنا اور احتجاج ختم کروانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے  رویت ہلال کمیٹی کے سابق چئیرمین  مفتی منیب الرحمان نے بھی اختیار کیا ہے۔ وہ  بھی اگرچہ سیالکوٹ میں ہونے والی بربریت کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر میڈیا سے ناراض ہیں کہ اس حوالے سے تحریک لبیک کا نام کیوں لیا جارہا ہے۔ اگرچہ یہ تو درست ہے کہ تحریک  لبیک نے براہ راست  ان مظاہرین کو جمع نہیں کیا تھا جنہوں نے سیالکوٹ کی فیکٹری کے منیجر  پرینتھا  کمارا دیا وادنگے  کو زد و کوب کرکے قتل کیا اور پھر اس کی لاش کو آگ لگا دی گئی۔ لیکن پولیس ذرائع نے  بتایا ہے کہ  جن لوگوں نے ہجوم کو اشتعال دلایا اور قانون کو ہاتھ میں لینے پر آمادہ کیا ، ان میں  وہ 17  افراد شامل تھے جنہیں تحریک لبیک  کے احتجاج کے دوران اندیشہ نقص امن کے تحت حراست  میں لیا گیا تھا ۔ یہ لوگ مفتی منیب الرحمان کی طرف سے حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان  ایک خفیہ معاہدہ کروانے کے بعد اسی معاہدہ میں تسلیم کی گئی شرائط کی رو سے رہا  ہوئے تھے۔ حکومت نے اس معاہدہ کے تحت جس کی تفصیلات ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی ہیں،  ٹی ایل پی کا دھرنا ختم کروانے کے لئے اس کے تمام کارکنوں، ہمدردوں اور لیڈروں کو رہا کرنے اور ان کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اسی شرط کے  تحت دہشت گردی جیسی شقات  میں گرفتار کئے گئے تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کو بھی غیر مشروط طور  سے رہا کیا گیا تھا۔ مفتی منیب الرحمان درحقیقت ملک میں فساد بپا کرنے والے عناصر کے  ہمدرد و  نمائیندہ کے طور پر آرمی چیف سے ملے تھے اور پھر ثالث بن کر ایک ایسا معاہدے کا اعلان کیا  تھا جس کی تفصیلات سے قوم کو ابھی تک مطلع کرنا ’قومی مفاد‘ کے خلاف سمجھا جارہا ہے۔

اب مفتی منیب الرحمان  کو اس بات پر شدید صدمہ ہے کہ میڈیا  سیالکوٹ کے واقعہ میں  تحریک لبیک  کے عناصر کے ملوث ہونے کے  بارے میں معلومات کیوں سامنے لارہا ہے۔ انہوں نے میڈیا کو مشورہ دیا ہے کہ  وہ کسی  گروہ پر الزام تراشی نہ کرے۔  ان کا کہنا ہے کہ ’میڈیا کو تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے اس  بارے میں  کسی ایک گروہ پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہئے۔   قانون ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز نہیں تھا کیوں کہ ملک میں بہرحال ایک آئینی قانونی نظام کام کررہا ہے۔ ملک میں پھیلنے والی لاقانونیت اور انارکی  کسی بھی طرح قومی مفاد میں نہیں ہے۔ اس سے عالمی سطح پر ملک کا منفی تاثر ترتیب پاتا ہے‘۔   گویا منیب الرحمان جب اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے  انتشار اور تخریب کاری پر اترے ہوئے گروہ کی سرپرستی کرتے ہیں تو وہ  نہ صرف  انسان دوستی کہلائے گی بلکہ خود مفتی صاحب کو شاید یہ  گمان بھی ہو کہ انہیں ’محسن  مملکت‘ کے منصب پر سرفراز کیا  جائے گا۔ البتہ ایک ایسے واقعہ کے بارے میں جس  پر ہر مکتبہ فکر کی  طرف سے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا جارہا ہے، مفتی منیب کو بدستور ان عناصر کے مفادات کی فکر لاحق ہے جن کے طفیل وہ اب بھی قومی سیاست میں کسی نامعلوم کردار کی تلاش میں   ہیں۔

کسی بھی جگہ  کسی  مقصد اور  جواز کے بغیر ایک  بے قصور انسان کو تشدد سے ہلاک کرنے اور پھر لاش کو نذر آتش  کرنے کا واقعہ   رونما ہوگا تو وہاں کا میڈیا ان عوامل اور کرداروں کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گا جو اس قسم کے تشدد کا سبب بنے تھے۔ ایسے موقع پر پہلی نگاہ انہی عناصر کی طرف جائے گی جو  اس سے پہلے بھی اسی قسم کے نعرے لگاتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے اور ریاست و حکومت کو چیلنج کرنے کا سبب بنے تھے۔ تحریک لبیک کا آغاز ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف  احتجاج سے ہؤا تھا حالانکہ  سلمان تاثیر کے قاتل کو  سپریم کورٹ کے حکم  سے پھانسی دی گئی تھی لیکن مفتی منیب الرحمان سمیت اس ملک کے متعدد مذہبی لیڈر نہ صرف اس سزا کو غلط سمجھتے ہیں بلکہ ممتاز قادری کی نیک نیتی  کے بارے میں  عذر خواہی  ان کی سیاست کی بنیاد ہے۔ تحریک لبیک کے مرحوم بانی قائد علامہ خادم رضوی نے اس معاملہ پر جذباتی تقریریں کرکے شہرت اور قبولیت حاصل کی تھی اور پھر  نامعلوم عناصر کی شہ پر حکومت وقت کے خلاف دھرنا دے کر  خود کو طاقت ور اور سیاسی لحاظ سے  مؤثر قوت میں تبدیل کیا تھا۔

مفتی منیب الرحمان اگر تہ دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ  ان کی ثالثی  کے بعد وہ سعد رضوی اور ٹی ایل پی کے دیگر رہنماؤں کو عملی طور سے قانون کا پابند رہنے اور سیاسی طور سے اپنے جائز مطالبات کے لئے پر امن جد و جہد کرنے  پر قائل کرچکے ہیں تو سیالکوٹ سانحہ کے بعد میڈیا کی کمی بیشی کا جائزہ لینے کی بجائے انہیں تحریک لبیک کی قیادت سے رابطہ کرکے یہ یقین دہانی حاصل کرنی چاہئے تھی کہ  نہ تو وہ اس واقعہ کی کھل کر یا درپردہ حمایت کریں گے اور اور اگر ٹی ایل پی کا کوئی کارکن یا ہمدرد اس شرمناک انسانیت سوز واقعہ میں ملوث ہے تو  اس سے مکمل طور سے قطع تعلق کیا جائے گا تاکہ قانونی نظام اس کے جرم کی سزا دے سکے۔ کجا مفتی منیب الرحمان خود ہی  مشکوک عناصر کے وکیل بن کر میڈیا کو مورد الزام  ٹھہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

پولیس نے سیالکوٹ فیکٹری میں سانحہ کے بارے میں جو ابتدائی معلومات فراہم کی ہیں ان کے مطابق یہ سارا جھگڑا  تحریک لبیک کے اسٹیکرز سے ہی شروع  ہؤا تھا۔ فیکٹری کے کچھ کارکنوں نے  مشینوں پر ٹی ایل پی کے اسٹیکر لگائے ہوئے تھے جن پر حرمت رسولﷺ کے حوالے سے نعرے درج تھے۔   ایک غیر ملکی وفد کے ممکنہ دورہ کے پیش نظر فیکٹری کے منیجر پرینتھا کمارا نے کارکنوں کو ہدایت کی کہ مشینوں سے اسٹیکرز  اتار  ے جائیں۔  فیکٹری کارکن پہلے سے سری لنکن منیجر کے ڈسپلن اور  سخت انتظامی طریقہ کار سے ناراض تھے اور کسی بھی  طرح اسے عاجز کرنے کے موقع  کی تلاش میں تھے۔ اسٹیکر  اتارنے کی ہدایت کو توہین رسالت کا نعرہ بناکر درجن بھر کارکنوں  نے نعرے لگانے شروع کردیے اور جلد ہی  قرب و جوار سے مزید لوگ اس مظاہرے میں شامل ہوگئے اور انہوں نے مل کر پرینتھا کمارا کو پکڑا اور  تشدد سے ہلاک کردیا۔

   ابھی یہ معلومات سامنے نہیں آئیں کہ اس  غیر قانونی احتجاج اور مظاہرے کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی یا اچانک گڑ بڑ ہونے پر موقع پرست عناصر نے اسے بڑے سانحہ میں تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا۔ تاہم اب یہ تصویر واضح ہورہی ہے کہ  یہ توہین مذہب یا  حرمت رسول ﷺ کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ ایک  منیجر کے انتظامی معاملات سے اختلاف کے باعث اس سے انتقام لینے کا معاملہ تھا۔ ملک میں  توہین مذہب کے بیشتر واقعات میں ہمیشہ ایسا ہی کوئی  ذاتی یا گروہی مفاد چھپا ہوتا ہے لیکن  ملک کے ملاّ   اور سیاسی گروہ ہمیشہ بلاسفیمی قوانین کو جائز قرار  دے کر  ایسے کسی فساد کو  درست یا قابل قبول بنانے کی کوشش  کرتے ہیں۔

اب ملک کے وزیر اعظم سمیت پورا ملک سیالکوٹ  سانحہ میں ملوث چند درجن افراد کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے کر  قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ حکومت اور ملکی سیاسی قیادت جس شرمساری کا اظہار کررہی ہے ، اس  سے بھی یہی  تاثر قوی کیا جارہا ہے کہ یہ جرم چند لوگوں کی اشتعال انگیزی اور قانون شکنی کی وجہ سے سرزد ہؤا تھا ورنہ  ملک و قوم تو  ایسے اقدام کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتی۔ حالانکہ  معاملہ اس سے برعکس ہے۔ ملک کی مذہبی و سیاسی جماعتوں اور حکومتوں نے مل کر ایک ایسا شدت پسندانہ ماحول پیدا کردیا ہے کہ سیالکوٹ  سانحہ کو اتفاقی حادثہ نہیں  کہا جاسکتا ۔یہ سانحہ   اس مزاج کا منطقی انجام ہے جو  ملک میں  مذہب  کے نام پر خونریزی کو جائز قرار دینے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔  

وزیر اعظم  نے سری لنکا کے لیڈروں کو یقین دلایا ہے کہ قصور واروں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں گی۔ پرینتھا کمارا کی  بیوہ اور بچے تو شاید چند لوگوں  کو سزا ملنے کے بعد صبر کا دامن تھامنے کی کوشش کریں گے لیکن وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر   بیک وقت جس قومی شرمساری کا اظہار کررہے ہیں، کیا سیالکوٹ واقعہ میں ملوث چند افراد کو قید کرنے  کے بعد  اس  سے بچا جاسکے گا؟ کیا چند افراد کو سزا ملنے کے بعد پاکستان مذہبی شدت  پسندی سے محفوظ ہوجائے گا اور قوم ایک بار پھر سر اونچا کرکے اقوام عالم میں سرخرو  ہو سکے گی؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے عمران خان اور شہباز شریف سمیت اس قوم کے ہر فرد کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہوگی۔

loading...