نظریاتی ملبے تلے دبا معاشرہ
- تحریر مسعود مُنّور
- سوموار 27 / دسمبر / 2021
- 17200
ہمیں پچھلے چوہتر برس سے یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ دو قومی نظریہ برِ صغیر کے تمام مسلمانوں کے مشترکہ قومی تناظر میں وضع ہوا تھا لیکن جب پاکستان بن گیا تو نظریہ پس منظر میں چلا گیا اور پیش منظر میں پاکستان آ گیا جو مارشل لا کے کوڑے کھا کر دو لخت ہوگیا ۔
16 دسمبر 1971 اُس نظریے کی بالفعل وفات کا دن تھا جس کی بنا پر پاکستان معرضِ وجود میں لایا گیا تھا۔ اس سانحے سے برِ صغیر کے مسلمان دو کے بجائے تین قوموں میں بٹ گئے اور اب تک ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ برِ صغیر کے مسلمانوں کا باہمی دینی رشتہ اُن کے ایک قوم ہونے کا جواز نہیں بن سکا۔ اب وہ تین قومیں ہیں: 1۔ پاکستانی مسلمان 2۔ بنگلہ دیشی مسلمان 3۔ بھارتی مسلمان اور آہ بے چارے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان جو پون صدی میں نہ ادھر کے ہیں اور نہ اُدھر کے ہوئے۔
مسلمان ہونا ایک کوالیفکیشن ہے۔ کوالیفائیڈ مسلمان اپنے طرزِ عمل اور کردار سے پہچانا جاتا ہے، خطبوں، اشتہاروں اور پراپیگنڈے سے نہیں۔ دوسرے الفاظ میں مسلمان ہونا وہ کستوری ہے جو خُود خوشبو دیتی ہے نہ کہ مسجد میں منبر پر بیٹھا عطار اُس کے کستوری ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔ مگر یہاں مسلمانی کی کستوری خود تو خوشبو نہیں دیتی بلکہ عطار کہتا ہے کہ یہ ہے کستوری۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اسی تناظر میں کہا تھا کہ:
اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی یہ تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ گفتار کے غازیوں کا معاشرہ ہے جو اقرار باللسان کی چیخ و پکار کا ماحصل ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں عمل کو نظریے سے الگ کردیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے نام پر جو دویٰ پیش کرتے ہیں اُس کا ہمارے روز مرہ طرزِ عمل اور معاشرتی رویوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ ہم اللہ کے احکامات کو اپنے عمل کے گھر میں بسنے نہیں دیتے۔ اس طرح ہم قرآنِ حکیم کے اُس حکم کی خلاف ورزی اور اہانت کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ:
لما تقولون ما لا تفعلون۔ کہ جس بات پر تم عمل پیرا نہیں وہ بات زبان پر نہ لاؤ۔ مگر ہم اللہ کی مسلسل حکم عدولی کرتے ہیں ۔ پچھلے چوہتر سال سے ہم رسول اللہ ﷺ کے عملی گستاخ ہیں کیونکہ ہم قرآن کے وضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور پھر بڑی ڈھٹائی سے خود کو دنیا کی بہترین اُمت قرار دیتے ہیں۔ ہم جو اپنے مونہہ میاں مٹھو بنے پھرتے ہیں، یہ سمجھ نہیں پاتے کہ ہم نبی ﷺ کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے ایسے سنگین جرم کے مرتکب ہورہے ہیں، جس کی تلافی ممکن نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ درود و سجود ہماری بد اعمالی پر پرادہ دال سکتے ہیں۔ غالب نے اس صورتِ حال کو مکروہ قرار دیا اور کہا:
زنہار ازاں قوم نباشی کہ فریبند
حق را بسجودے و نبی را بدرودے
ترجمہ (ایس قوم میں سے ہر گز نہ ہونا جو درود کے ذریعے نبی ﷺ اور سجدوں سے اللہ تعالیٰ کو فریب دینے کی مکاری کرتی ہے۔)
ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈروں، دانشوروں اور اہلِ علم کی گفتگو سے بد تمیزی کی بو آتی ہے۔ ہم اخلاقی طور پر اتنے غریب ہیں کہ دوطرفہ گفتگو میں ایک دوسرے شائسگی، حلیمی اور نرمی سے مخاطب بھی نہیں کرسکتے۔ اور ہم یہ نہیں جانتے کہ نبی ﷺ کے احکامات کی صرئح خلاف ورزی حضورِ رسالت مآب میں بد ترین گستاخی ہے۔ ہمارے سرکاری ا اہل کار اور افسر رشوت لیتے اور دیتے ہیں جس سے معاشرہ جہنم میں تبدیل ہوجاتا ہے اور ہمارے ہاں کے جہنمی خود کو اُمتِ خیر کہتے نہیں تھکتے۔ ہم جب اشیا ء، مشروبات اور ادویات میں ملاوٹ کرتے ہیں تو نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق نبی ﷺ کی اُمت سے خارج ہوجاتے ہیں اور ہم اسے بھی گستاخی نہیں سمجھتے۔ ہم نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کو اپنے معاشی نظام کی ریڑھ کی ہڈی بنا رکھا ہے اور اپنے ان معاشی جرائم کی پردہ پوشی کے لیے باقاعدہ ادارے بنا رکھے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور ان پر لگے کرپشن کے الزامات سیاسی انتقام سے زیادہ کچھ نہیں۔
مگر خدا تعالیٰ کے نمائندے اور فرستادگان کچھ اور ہی کہتے ہیں ۔ مثال کے طور پر صاحبِ نہجہ البلاغہ علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ جہاں وافر دولت دیکھو، جان لو کہ کسی کا حق غصب ہوا ہے ۔ اور جب حکمرانوں اور اشرافیہ کے اللے تللے دیکھو ، اُن کے ہزاروں کنالوں میں پھیلے محلات دیکھو تو جان لو کہ نہجہ البلاغہ میں جو لکھا ہے وہ دو فی صد سچ ہے۔ یہ غریب عوام کا پیسہ ہے جو اس حکمران طبقے کے لیے شیرِ مادر ہے ۔ یہی بات قرآن کی سورہ الہمزہ سے واضح ہے ، جس میں کہا گیا ہے:
خرابی ہے اُس کے لیے جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا اور ہمارے معاشرے میں مال جمع کرنے اور گن گن کر رکھنے کو اسلامی شعار قرار دیا جاتا ہے ۔ لا حول ولاوۃ۔ یہ سیاسی درندے جو عوام کی ہڈیاں چچوڑتے ہیں اس درندگی کو اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ نبی ﷺ کے احکامات کی علی الاعلان خلاف ورزی کرتے ہیں جو نبی ﷺ کے عملی گستاخ ہیں جن کی سزا اُن سے بھی کڑی ہے جو زبانی گستاخی کرنے والوں کے لیے مقرر ہے ۔ ہم شاید من حیث القوم کُند ذہن ہو چکے ہیں اور اس نکتے کو نہیں سمجھتے کہ نبی ﷺ کے احکامات پر عمل نہ کرنا اور مونہہ زبانی نعتوں، سلام کی محفلوں اور درودِ پاک پر اکتفا کرنا صریح منافقت ہے۔ دنیا جانتی ہے بلکہ اب تو روسی صدر پوٹین نے بھی کہ دیا ہے کہ نبی ﷺ کی حرمت پر دانستہ لفظی وار کرنا کمینگی، جہالت اور بد تہذیبی ہے مگر اس سے بڑی بد تمیزی اور گستاخی رشوت کا لین دین، ملاوٹ، گالی گلوچ، جھوٹ اور دوسروں کا حق غصب کرنا ہے جسے ہم نے جائز قرار دے رکھا ہے۔
حال ہی میں روسی صدر نے جو زبانی گستاخی کو گناہ قرار دیا ہے، اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے نبی ﷺ کی کم عدولی بھی خباثت، گستاخی، غداری اور گناہ ہے تو اید اس اُمت کا کان پر غیرت کی جوں رینگ جاتی۔ لیکن نہیں۔ ہم جو پون صدی میں نہیں سُدھرے، اب کیا سدھریں گے:
اب کیا سنور سکیں گے ہم آوارگانِ عشق
صدیوں کے جبر نے تو سنوارا نہیں ہمیں
اب میں سورہ ء محمد ﷺ کی اس آیت پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
اے منافقو ۱ تم سے عجب نہیں کہ اگر تم ملک میں ھاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو۔سورہ محمد۔ ۲۲
اور میں ان ٹوٹے ہوئے رشتوں کے درمیان کھڑا نظریاتی ملبے پر آنسو بہا رہا ہوں۔ یہ ہے میرا نصیب۔