تبدیلی کا کوڈ ورڈ
- تحریر مسعود مُنّور
- سوموار 03 / جنوری / 2022
- 11870
تبدیلی فطرت کا بنیادی قانون ہے اور یہ تبدیلی فطرت کی کارگاہ میں کئی سطحوں پر تمام شعبوں میں رونما ہوتی ہے اور مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ اس تبدیلی کے بندھے ٹُکے اصول اور مراحل ہیں جن میں کبھی تبدیلی نہیں آتی ۔
تبدیلی کا یہ سفر ہمیشہ نشیب سے فراز کی طرف جاری رہتا ہے۔ ہم اپنی انسانی زندگی کو ہی دیکھیں تو ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ہم جنم کے بعد شیر خوارگی، بچپن، لڑکپن ، جوانی ادھیڑ عمری سے عمر رسیدگی تک مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ اسی لیے اقبال نے ہمیں یہ فارمولا یاد دلایا کہ:
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں،
یہ تبدیلی ہمارا کوڈ ورڈ ہے جو ہماری زندگی کا بنیادی قانون ہے۔ یہ تبدیلی ہمیشہ ارتقائی ہوتی ہے، جو بہتر سے بہترین کا سفر ہے۔ پاکستان کے وجود میں لانے کے تناظر میں بھی یہی فکر کارفرما تھی کہ ہم اپنے نظریاتی ورثے کو اپنے عمل سے بہتر بنائیں جس سے ہمارا مُلک، ہمارا ماحول اور ہمارا معیارِ زندگی بہتر ہو جائے۔ تبدیلی ہمیشہ نچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے کا تحرک ہے۔ اوپر سے نیچے زوال کہلاتا ہے اور نیچے سے اوپر کمال کا استعارہ ہے۔ کمال زندگی کا تققاضہ ہے۔ ایک پرانی فارسی کہاوت کمال کے اعجاز کو یوں بیان کیا گیا ہے:
کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی
اس کمال کا تعلق انسانی محنت، ریاضت اور جدوجہد سے ہے۔ اقوامِ عالم میں سے جس قوم نے اپنی محنت، جدوجہد اور ریاضت کا راستہ اختیار کیا، اُس نے کمال حاصل کیا اور دنیا میں سربلند اور ممتاز ہوئیں ۔ کمال یہ ہوتا ہے کہ ایک معاشرہ اپنی نظریاتی قدروں کے مطابق اپنے لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرے اور تمام لوگوں کو بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کی ضمانت ملے۔ جو معاشرے اپنے لوگوں کو انصاف اور برابری کی سطح پر بنیادی ضوریاتِ زندگی کی فراہمی کی ضمانت نہیں دے سکتے، وہ معاشرے انسانی معیار کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ایسے معاشروں میں زندگی قوانین، اصولوں اور ضابطوں کی پابند نہیں ہوتی بلکہ یہ طاقت ور افراد کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے ۔ ایسے معاشروں میں قانون کے بجائے چھینا جھپٹی ہوتی ہے اور جہاں طاقت ور کا زور چلتا ہے اور کمزور بے بسی اور مجبوری کے زندان میں سسکتا رہتا ہے۔
ایسے معاشروں میں کمزور لوگ تبدیلی کے لیے غیبی طاقتوں کی مدد کے منتظر رہتے ہیں اور مفادات کے بندے، جو اقلیت میں ہوتے ہیں، سب کچھ سمیٹ کر اکثریت کو کنگال کردیتے ہیں ۔ اُن کے ہاں قانون دھوکہ دہی کا فارمولا ہوتا ہے جس کو وہ لکھ کر رکھ تو لیتے ہیں مگراُس کو معاشرے میں رائج نہیں کرتے ، مگر اس وہم میں مبتلا رہتے ہیں کہ آنے والا کل آج سے بہتر ہوگا اور اُن کی قسمت بدل جائے گی۔ ااسمان کی گردش سے خوش حالی کا سورج نکلے گا، تبدیلی کی جنت کا دروازہ کھلے گا اور وہ دولتِ دنیا سے مالا مال ہو جائیں گے۔
ایسے معاشروں کی باگ ڈور بالعموم مفادات پرستوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے معاشرے کو اپنے مفادات اور مرضی کے مطابق چلاتے ہیں۔ وہ بے انصافوں کو عدل کی کرسی پر بٹھاتے ہیں، چوروں کو پولیس میں بھرتی کرتے ہیں، شعبدہ بازوں ، چالاکوں اور چرب زبانوں کو منبر و محراب کا پاسبان بناتے ہیں اور جھوٹوں کو دانشوری کا منصب دے کر انہیں چاپلوسی، کاسہ لیسی اور خوشامد کے قلمدان سونپ دیتے ہیں۔ ایسی عیارانہ حکمتِ عملی معاشرے میں مثبت نہیں منفی تبدیلی لاتی ہے اور معاشرہ شیطانی قوتوں کے سِحر میں گرفتار ہو کر تخریب اور زوال کی راہ پر چل نکلتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کی معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی کوئی خواہش کارگر نہیں ہوتی بلکہ معاملہ اُن کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور یہی ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
بدقسمتی سے ہم وہ فرد تعمیر ہی نہیں کر سکے جو ادارے بناسکتا۔ ہمارے ادارے وہ تخریبی ڈھانچے ہیں جو معاشرے کو مسلسل تباہی سے دو چار کر رہے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کا خاندانی نظام دنیا کا ناقص ترین نظام ہے جس میں فرد کی تربیت ممکن ہی نہیں۔ فرد کی تربیت کے لیے ایک ایسے گھر اور خاندانی نظام کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کوالیفائیڈ والدین اپنی اولاد کی ہر پہلو سے تربیت کر سکیں۔ اپنے بچوں کو اپنی اعلیٰ مذہبی، نظریاتی اور انسانی اقدار سے جوڑ کر رکھ سکیں اور اُن کا کردار تعمیر کر سکیں۔ اور فرد کی تعمیر معاشرے کی خاندانی اکائی کا بنیادی فرض ہے۔اور جب تک فرد نہیں بدلتا تب تک معاشرہ نہیں بدل سکتا۔
مگر ہم فرد کو نہیں بدل سکتے۔ ہم اپنے گھروں میں قانون نافذ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہمارے بچے ان کوالیفائیڈ والدین کے ہاتھ نہیں آتے۔ وہ قانون کی پابندی نہیں سیکھ پاتے۔ قانون کی پابندی کی تربیت ایک گھر کا لازمی نصاب ہوتا ہے جس میں اٹھنے بیٹھے، سونے جاگے، کھانے پینے اور گفتگو کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہم اپنے معاشرے کے ذمہ دار لوگوں کی بات سنیں تو لگتا ہے کہ وہ کسی ایسے گھر میں نہیں پلے جہاں انہیں انسانی قدریں سکھائی گئی ہو۔ لگتا ہے اُن کے جسموں میں سانپ نیولوں، ریچھ کتوں اور جنگلی جانوروں کی روحیں مقیم ہیں جو اسلام کو امن کے نہیں بد امنی کے دین میں تبدیل کر چکے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا روز مرہ قانون شکنی، کرپشن، دھینگا مشتی اور انسانی قدروں کی تنسیخ سے عبارت ہے۔ ہم من حیث القوم آج جو کچھ ہیں وہ ہمارے پون صدی کے سفر کا حاصل ہے۔ اور ہمارا آج جو ہمارے کل کی تعمیر کرے گا، ہمیں کوئی خوشحال اور اور اعلیٰ اقدار کا حامل معاشرہ نہیں بنا سکے گا۔ ہمارے ہاں رونما ہونے والے روز مرہ واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے امن و امان سے رہنا سیکھا ہی نہیں۔ غریب لوگوں کا تو مذکور ہی کیا ہمارے یہاں اشرافیہ کا کام ایک دوسرے کی بے عزتی کرنا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنا ہے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ نفرت کا علاج نفرت نہیں۔ ہم یہ نعتیہ اشعار تو گاتے ہیں کہ:
سلام اُس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
یہ بات صرف نعت خوانی کی حد تک ہی رہتی ہے۔ جب نعت خوانی ختم ہو تو یہ تعلیم بھی مفقود ہوجاتی ہے۔ مگر ہم اُس طرزِ عمل کو اختیار نہیں کرتے جو ہمارے نظریاتی اثاثے کا لبِ لباب ہے اور ہمیں اشرف المخلوقات بناتا ہے۔ ہم مدینے کا استعارہ سیاست میں استعمال کر کے لوگوں کو فریب دیتے ہیں کیونکہ ہم سُنّتِ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت اور استعداد سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے تبدیلی کا کوڈ ورڈ ہم سے کھو گیا ہے اور ہم گمراہ ہوگئے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ اپنی گمراہی کو راستبازی قرار دیتے ہیں اور اپنی بے راہروی کو دینداری شمار کرتے ہیں اور ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ہم کس راستے میں کس کس طرح رُسوا اور ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔
ہماری قومی زندگی کا یہ پچھترواں برس کہہ رہا ہے کہ ہم وہ گم کردہ راہ کارواں ہیں جس کی کوئی منزل نہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے پاس اپنے آپ کو دھوکہ اور فریب دینے کے سو حیلے بہانے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو یہ تسلی دے کر کہ ہم نبی یئ آخرالزماں ﷺ کی اُمت ہیں، بالآخر ہم نہ صرف ایک خوش حال، ترقی یافتہ اور جدید پاکستان تعمیر کر لیں گے بلکہ اقوامِ عالم میں سر بلد ہوں گے۔ مگر اس کے لیے جس محنت، ریاضت اور جدوجہد کی ضرورت ہے وہ ہم سے ہوتی نہیں اور قرض لے کر پچھتر سال تک اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے والے یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے اپنے ساتھ، عوام کے ساتھ اور اپنے دین کے ساتھ کیا کیا ہے؟ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا، کاروں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔