عمران خان کا آئی ایس آئی چیف پر جھوٹ بولنے اور نیم سچ بتانے کا الزام
- تحریر بی بی سی اردو
- ہفتہ 29 / اکتوبر / 2022
پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کو ’احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’سچ کے نام پر کی جانے والی اس پریس کانفرنس میں جھوٹ اور آدھے سچ بولے گئے‘ جو سیاق و سباق سے ہٹ کر تھے۔
لانگ مارچ کے آغاز کے بعد بی بی سی سے خصوصی انٹرویو میں گفتگو کی جس میں انہوں نے متعدد امور پر اظہاررائے کیا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے حالیہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے رواں برس مارچ میں فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کو غیر معینہ مدت کےلئے توسیع کی پیشکش کی تھی، جسے قبول نہیں کیا گیا۔
بی بی سی کے سوال پر عمران خان نے کہا کہ ’یہ جو انہوں نے سچ کے نام پر پریس کانفرنس کی، اس میں اتنے جھوٹ ہیں اور آدھے سچ ہیں۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر چیزیں لی ہوئی ہیں کہ ہم نے ایکسٹینشن کی آفر کی۔ یہ بتایا کہ کس سائیڈ سے آفر تھی؟ کس کنٹیکسٹ (تناظر) میں بات ہو رہی تھی؟ اگر پوری بات بتائیں تو بڑا شرمناک ہو گا ان کے لیے سب‘۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ بڑا افسوسناک ہے کیونکہ کبھی آئی ایس آئی چیف اس طرح کی پریس کانفرنس نہیں کرتا۔ میں پوائنٹ بائی پوائنٹ اس کا جواب دے سکتا ہوں جو بڑا شرمندہ کر سکتا ہے فوج کو۔ یکن ہم نہیں چاہتے ہمارے فوج کے ادارے کو نقصان پہنچے کیونکہ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ فوج کمزور ہو اور پاکستان کمزور ہو جائے گا‘۔
جب عمران خان کو ڈی جی آئی ایس آئی کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ ’اگر آپ کا چیف غدار ہے تو پھر آپ ان کی تعریفیں کیوں کرتے تھے اور رات کی تاریکی میں ملتے کیوں ہیں‘ تو اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ’جہاں یہ اچھی چیزیں کریں گے، ہم تعریف کریں گے۔ یہ تو بچوں والی بات ہے کہ ہم نے آپ کی تعریف کی تو آپ ہمیشہ ہی اچھے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کی بھی تعریف کرتے ہیں لیکن جب برا کام کرتے ہیں تو آپ تنقید کرتے ہیں۔ یہ دراصل بہت احمقانہ پریس کانفرنس تھی‘۔
اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اور مستقبل کے حوالے سے سوال پر تحریک انصاف چیئرمین نے کہا کہ ’میں اسٹیبلشمنٹ کی منظوری کی وجہ سے حکومت میں نہیں آنا چاہتا۔ 2018 کا الیکشن ہمیں کسی نے نہیں جتایا تھا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد ملک میں شفاف الیکشن ہے۔ ’ہم تو اسی لیے ای وی ایم مشین لانا چاہتے تھے کہ اس سے دھاندلی کے 160 میں سے 130 طریقے ختم ہو جاتے ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے وہ آنے نہیں دی اور نہ ہی الیکشن کمشنر نے، جو کہیں اور سے حکم لیتا ہے، جس کی وجہ سے ہمارا الیکشن ہمیشہ متنازع ہوگا اور اس میں مداخلت کے مواقع موجود رہیں گے‘۔
سینیٹر اعظم سواتی پر تشدد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہم جنرل باجوہ کو کہہ رہے ہیں کہ آپ نے بلاول کے کہنے پر ایک سیکٹر انچارج بدلا تھا کراچی میں، تو اب جو اعظم سواتی نے کہا ہے ان پر ایکشن لیں‘۔ خیال رہے کہ عمران خان نے اعظم سواتی کی پریس کانفرنس کے بعد آئی ایس آئی کے دو افسران میجر جنرل فیصل نصیر اور بریگیڈیئر فہیم کے نام لے کر انہیں اعظم سواتی پر تشدد کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
تاہم وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناللہ نے گزشتہ روز اعظم سواتی اور عمران خان کے الزامات کی تردید کی اور ایف آئی کے اہلکاروں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی کو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں نے اپنی حراست میں لیا تھا اور انہیں کسی اور ادارے کے حوالے نہیں کیا گیا۔
عمران خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ اس کے اوپر ایکشن لیا جائے۔ جنرل باجوہ کو ایکشن لینا چاہیے اگر وہ امیج پروٹیکٹ کرنا چاہتے ہیں آرمی کے ادارے کا‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک ہی مقصد ہے۔ صاف اور شفاف الیکشن۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں وہ حکومت ہو، جس کو پاکستان کی عوام منتخب کرے، الیکشن سے آئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’اسلام آباد میں عوام جس طرح جمع ہوں گے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا، یہ میری پیشگوئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ عوام کی نبض کیا ہے‘۔ کیا الیکشن کے علاوہ بھی ان کی تحریک کا کوئی مقصد ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مارچ کا مقصد صرف الیکشن ہیں لیکن حقیقی آزادی کی تحریک کا مقصد ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہوں۔
کوئی باہر سے ہمیں ڈکٹیٹ نہ کرے کہ آج انہوں نے فیصلہ کیا اور ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ ادھر جا کر لڑیں اور اپنے 80 ہزار لوگ قربان کر دیں۔ ہمیں اگر روس سے سستا تیل مل رہا ہے تو ہندوستان لے رہا ہو لیکن پاکستان کو اجازت نہ ہو۔ میں ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتا ہوں‘۔
’دوسرا، میں قانون کی حکمرانی چاہتا ہوں۔ یہاں جنگل کا قانون ہے۔ ہمارے لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے، جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔ جیل میں تشدد کیا جاتا ہے اور لوگ ڈرتے ہیں نام لینے سے جو یہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں کے ساتھ جو کیا گیا، اے آر وائی کو بند کیا گیا۔ جو ہمارے حق میں لکھتا ہے اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو اٹھا کر مارا، ان کو دھمکیاں دی ہیں اور پھر یہ جو ارشد شریف کا واقعہ ہوا۔ یہ اس ملک میں ہوتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی‘۔