جی 20 سربراہی اجلاس: بھارت کی کامیابی میں پاکستان کی ناکامی کیسے؟
- تحریر سید مجاہد علی
- اتوار 10 / ستمبر / 2023
نئی دہلی میں دنیا کے معاشی لحاظ سے طاقت ور ممالک جی 20 کا سربراہی اجلاس یوکرین کے خلاف جارحیت کے سوال پر روس کی مذمت کیے بغیر ختم ہوگیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جی 20 کے سربراہ کے طور پر عالمی منظر نامہ پر اپنا قد اونچا کرنے اور آئیندہ سال ملک میں ہونے والے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے سخت محنت کی تھی۔ وہ کسی حد تک اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ روس کی مذمت کے امریکی منصوبہ کو روک کر بھارت نے عالمی سفارت کاری میں اپنا لوہا منوایا ہے۔
دوسری طرف بھارتی کامیابی کو اس حوالے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ممالک کے پاس یوکرین کے سوال پر کسی مفاہمت کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ امریکہ اگر روس کی مذمت پر اصرار کرتا تو روس بھی ایسی کسی کوشش کو ناکام بنانے کا اعلان کرچکا تھا۔ روس اور چین کی اس گروپ میں موجودگی کی وجہ سے کوئی ایسا اعلامیہ منظور کرنا غیر فطری ہوتا جس میں ایک رکن ملک کی مذمت کی جاتی۔ دریں حالات مغربی ممالک یا تو یوکرین جنگ پر سخت مؤقف اختیار کرکے جی 20 جیسے اہم پلیٹ فارم کو کمزور کرنے اور عالمی میڈیا میں اس کا مذاق بنوانے کا خطرہ مول لیتے یا اس مفاہمتی فارمولے پر اتفاق کیاجاتا جو بھارت کے علاوہ برازیل اور دیگر ممالک کی کاوشوں سے تیار کیا گیا تھا۔
اجلاس سے پہلے طویل مذاکراتی عمل میں ایک متوازن قرار داد پر اتفاق کرلیا گیا تھا جس کے بارے میں میزبان وزیر اعظم نریندر مودی نے اجلاس کے افتتاحی اجلاس میں اعلان بھی کردیا تھا۔ جی 20 ممالک کے سربراہان کی منظور کردہ قرار داد میں براہ راست روس یا یوکرین کا ذکر نہیں ہے لیکن یہ کہا گیا ہے کہ دوسرے ممالک کے علاقوں پر قبضہ کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ اجلاس میں صدر پوتن کی جگہ روس کی نمائیندگی کرنے والے وزیر خارجہ سرگی لاروف نے بھارت کو اس قرارداد کا کریڈٹ دیا اور کہا کہ بھارتی قیادت نے حقیقی معنوں میں اس کانفرنس کو گلوبل ساؤتھ کانمائیندہ بنا دیا ہے۔ یہ اصطلاح دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے۔
روسی نمائیندوں کے خیال میں امریکی کوششوں کے باوجود جی 20 سربراہی اجلاس میں یوکرین جنگ کی مذمت نہیں کی گئی ۔ روس اسے اپنی سفارتی کامیابی سمجھتا ہے۔ البتہ فرانس کے صدر مینوئیل میکرون کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے اعلامیہ سے واضح ہوگیا ہے کہ روس عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔ اجلاس میں اگرچہ یوکرین جنگ کی مذمت نہیں کی گئی لیکن اسے اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ فورم عالمی اقتصادی معاملات طے کرنے کے لئے قائم ہؤا تھا۔ اس میں یوکرین جیسے سفارتی امور طے نہیں ہوسکتے۔ اس لئے اجلاس کی قرار داد کسی طور سے روس کی کامیابی نہیں ہے۔ اسے اس پر فخر نہیں ہونا چاہئے۔
جی 20 سربراہی اجلاس اگرچہ اہم عالمی معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے اور ترقی پذیر معیشتوں کے ساتھ تعاون و اشتراک عمل بہتر بنانے کے مقصد سے منعقد ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ اجلاس میں یوکرین جنگ پر روس کی مذمت اہم ترین موضوع تھا جس پر اجلاس سے کئی ماہ پہلے سے کام شروع کردیا گیا تھا۔ امریکہ کسی بھی طرح جی 20 اجلاس میں روس کی مذمت کرواکے روس کی سفارتی تنہائی اور عالمی سطح پر اس کی ہزیمت میں اضافہ کرنا چاہتا تھا جبکہ روس بہر صورت اس ناخوشگوار صورت سے بچنا چاہتا ہے۔ اسی لئے اجلاس کے جاری کردہ اعلامیہ سے دونوں مطمئن ہیں اور اسے اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ہفتہ کو جاری ہونے والے جی 20لیڈروں کے اعلامیہ میں روس کی مذمت سے گریز کیا گیا ہے البتہ تمام ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر دوسرے ممالک کے علاقے پر قبضہ نہ کریں۔ اعلامیہ میں جنگ سے عام شہریوں پر مرتب ہونے والے اثرات و مصائب کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
روس و یوکرین کے حوالے سے تنازعہ کے علاوہ اس کانفرنس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سیاسی و سفارتی کامیابی کے لئے استعمال کیا۔ نئی دہلی کو اس مقصد کے لئے خاص طور سے سجایا گیا تھا اور کثیر وسائل صرف کرکے عالمی رہنماؤں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان کوششوں میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پیش کرنے کا طریقہ بھی شامل تھا۔ مودی کسی حد تک اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ میزبان ملک کے طور پر اگر یوکرین جنگ کے سوال پر کوئی اتفاق رائے نہ ہوتا تو اسے بلاشبہ بھارت اور مودی کی ناکامی سے تعبیر کیا جاتا۔ نریندر مودی اس شرمندگی سے بچ گئے اور اب روس وامریکہ سے یکساں طور پر اپنی سفارتی چابکدستی کی داد وصول کررہے ہیں۔ یہ کامیابی بلاشبہ آئیندہ سال بھارتی انتخابات میں نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے معاون ہوگی کیوں کہ اس بار انہیں 26 اپوزیشن پارٹیوں کے الائنس ’انڈیا‘ سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی ایک بار پھر ہندوستان کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن اس کا امکان ہے کہ لوک سبھا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی نمائیندگی کم ہوجائے اور مودی کو آئیندہ مدت کے دوران میں جارحانہ کی بجائے مفاہمانہ رویہ اختیار کرنا پڑے۔
جی 20 سربراہی کانفرنس میں سرکاری نام انڈیا کی بجائے بھارت کو ہندوستان کے نام کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اجلاس کے دوران وزیر اعظم کی سربراہی میں بھارتی وفد کی میز پر ’بھارت‘ کی نیم پلیٹ رکھی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھارتی صدر دروپادی مورمو کی طرف سے کانفرنس کے رہنماؤں کو ضیافت کی جو دعوت دی گئی تھی اس میں بھی انڈیا کی بجائے بھارت ہی کا نام استعمال کیا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی انڈیا نام کو نوآبادیاتی ورثہ سمجھ کر مسترد کرتی ہے اور بھارت کو ملک کا سرکاری نام قرار دینے کے اشارے دیتی رہی ہے۔ جی 20 اجلاس میں غیر سرکاری طور سے بھارت کو ملک کے نام کے طور پر استعمال کرنے کے بعد امید کی جارہی ہے کہ حکومت جلد ہی لوک سبھا میں انڈیا نام کو تبدیل کرکے بھارت قرار دینے کا فیصلہ کروالے گی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی طرف سے خاص طور سے اس وقت ملک کا نام تبدیل کرکے بھارت رکھنے کو یوں بھی اہمیت حاصل ہے کیوں کہ دو درجن سے زائد اپوزیشن پارٹیوں نے جو انتخابی اتحاد قائم کیا ہے، اس کا نام ’انڈیا‘ رکھا گیا ہے۔ بھارت کو ملک کا سرکاری نام قرار دے کر مودی انتخابی مہم کے دوران میں اپوزیشن اتحاد کے نام ’انڈیا‘ کو غلامانہ ذہنیت قرار دینے کی کوشش کریں گے۔
بھارت کی داخلی سیاست کے علاوہ عالمی سطح پر اس سفارتی کامیابی سے نریندر مودی نے خود کو قومی ہی نہیں اہم عالمی لیڈر منوانے کی کوشش کی ہے اوروہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ دوسری طرف جی 20 سربراہی اجلاس میں چین اور روس کے صدور نے شرکت نہیں کی جس سے اس اجلاس کی اہمیت بھی کم ہوئی ہے اور علاقائی اور عالمی سطح پر ممالک کی صف بندی اور تنازعات کی صورت حال بھی نمایاں ہوئی ہے۔ یہ درحقیقت بھارت ہی نہیں بلکہ جی 20 ممالک کے سب سربراہان کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ جی 20 جیسے فورم اہم مسائل پر عالمی طاقتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے قائم کیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر بعض ممالک ایسے فورمز کو اپنی برتری اور مخصوص ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسے اجلاس ہی نہیں بلکہ اس قسم کے فورم کی اہمیت و افادیت کے بارے میں سوال ضرور سامنے آتے ہیں۔
دنیا کی اہم معیشتوں کے سربراہی اجلاس کے دوران یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ امریکہ نے بھارت ، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان معاشی ترقی کے لئے چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ جیسے منصوبے کے مقابلے میں ’ بھارت، مشرق وسطی، یورپ معاشی راہداری‘ شروع کرنے کے منصوبے پر اتفاق رائے حاصل کیا ہے۔ متعدد ممالک نے اس حوالے سے ایک میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ (ایم او اے) پر دستخط بھی کیے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس منصوبے کے تحت بھارت ، مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک ، اسرائیل اور یورپی ملکوں کے درمیان مواصلاتی نظام استوار کیا جائے تاکہ تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔ اگرچہ اس منصوبہ کی سوچ بنیادی طور پر چین سے مقابلہ پر استوار ہے لیکن معاشی کامیابی کے لئے کوئی بھی منصوبہ باہمی تعاون و ہم آہنگی کے ذریعے ہی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ کسی معاشی مقصد کو سیاسی استعماری مقاصد حاصل کرنے کے لیےاستعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اس پس منظر میں اگر امریکہ، بھارت اور دیگر حلیف ملکوں کے ساتھ مل کریورپ تک ایک نئی معاشی راہداری تعمیر کرنا چاہتا ہے تو اسے کسی نہ کسی مرحلے پر چین کے ’ون روڈ ون بیلٹ ‘ منصوبہ کے ساتھ اشتراک کرنا پڑے گا۔ یوں یہ دونوں منصوبے ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی بجائے معاشی احیا کا وسیع مقصد حاصل کر سکیں گے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ نیا منصوبہ درحقیقت چینی صدر ژی جن پنگ کی بصیرت و ویژن کو تسلیم کرتا ہے۔
بھارت میں منعقد ہونے والی جی 20 سربراہی کانفرنس کے حوالے سے پاکستان میں پریشانی کا اظہار سامنے آیا ہے۔ خاص طور سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس وقوعہ اور خاص طور سے نئے مواصلاتی منصوبہ کو ایسے پیش کیا جارہا ہے جیسے بھارت اور دیگر عالمی سربراہان نے پاکستان کو بالواسطہ طور سے ’فتح‘ کرلینے اور ناکام بنادینے کا اقدام کیا ہو۔ اہل پاکستان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی دوسرے ملک کی کامیابی کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوسکتا کہ یہ پاکستان کی ناکامی ہے۔ بھارت کے ساتھ ذہنی عداوت کا یہ طرز عمل منفی اور ہمارے راستے کی رکاوٹ ہے۔ بھارت ایک ارب چالیس کروڑ لوگوں پر مشتمل آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارتی معیشت اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے ۔ اس لئے جی 20 میں اس کی شمولیت اتنی ہی فطری ہے جتنی باری آنے پر بھارت کو اس کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کا موقع ملنا ہے۔ اب گروپ کی صدارت برازیل کے حوالے ہوگئی ہے اور آئیندہ سربراہی اجلاس کا انعقاد اس کی ذمہ داری ہوگی۔
اسی طرح امریکہ کی سربراہی میں نئے مواصلاتی منصوبہ کو سی پیک کو دفن کرنے کے مماثل قرار دینے والے نہ عالمی سیاست و سفارت کو سمجھتے ہیں اور نہ وہ معاشیات کی حرکیات سے آگاہ ہیں۔ یہ منصوبہ ابھی تو محض بات چیت ہی کی حد تک ہے لیکن اگر تیس چالیس سال میں اس کی کوئی شکل سامنے آتی ہے تو یہ سی پیک یا ون بیلٹ ون روڈ کا مدمقابل نہیں بلکہ معاون ثابت ہوگا۔ البتہ اس حوالے سے سامنے آنے والی یہ پریشانی جائز و درست ہے کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت ترقی کے سفر میں ہم سے کوسوں آگے ہے اور ہم عالمی اداروں اور دوست ممالک سے قرض لے کر قومی اخراجات پورے کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں، وہ ہماری داخلی ناکامیوں کا ثمر ہیں۔ ان سے نجات پانے کے لیے ہمیں قومی سطح کر مل جل کر کام کرنا ہوگا۔