2023 کا نوبل انعام برائے ادب ناروے کے معروف ادیب جون فوسے کو ملا
ناروے سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب اور ڈرامہ نگار جون فوسے کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ وہ ان ڈراما نگاروں میں شامل ہیں جن کے ڈرامے دنیا میں سب سے زیادہ پیش کیے گئے ہیں۔
جون فوسے کا موازنہ ایک اور نوبل انعام یافتہ ڈراما نگار سیموئیل بیکٹ سے کیا جاتا ہے کیونکہ ان کا کام مختصر اور سلیس زبان پر مبنی ہے جو منفرد انداز میں خاموشی سے اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی سویڈش اکیڈمی نے کہا ہے کہ 64 سالہ جون فوسے کو ان کے منفرد ڈراموں اور نثر کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ ان کے ڈرامے اور نثر سے بے آوازوں کو آواز ملتی ہے کیونکہ ان کی تحریر کا جائزہ مواد کے بجائے طرزکے طور پر لیا جاتا ہے، جس میں جو موجود ہے اس کے بجائے وہ بیان کیا جاتا ہے جو نہ کہا گیا ہو۔
جون فوسے نے نوبل انعام ملنے کی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’میں پرجوش اور مشکور ہوں۔ میں اس کو ادب کے لیے انعام سمجھتا ہوں جس کا اولین اور بنیادی مقصد بھی ادب ہے‘۔ ناروے کے نشریاتی ادارے ’این آر کے‘ سے بات کرتے ہوئے جون فوسے نے کہا کہ وہ حیران بھی ہیں اور نہیں بھی۔ کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے ان کا نام نوبل انعام کی فہرست میں شامل کیا جاتا رہا تھا۔
جون فوسے کے سب سے زیادہ مشہور ڈراموں میں 1989 میں لکھا گیا ’باتھ ہاؤس‘ اور 1995 میں لکھا گیا ڈراما ’میلان چولی‘ (ون اینڈ ٹو) شامل ہیں۔ نوبل پرائیز کمیٹی نے کہا کہ آج جہاں وہ دنیا میں سب سے زیادہ پرفارم کرنے والے ڈرامہ نگاروں میں شامل ہیں، وہیں وہ اپنی نثر کے لیے بھی مقبول ہیں۔
جون فوسے ایک ایسے خاندان میں بڑے ہوئے جو لوتھرانزم کی سخت شکل کی پیروی کرتا تھا لیکن انہوں نے ایک بینڈ میں کام کرکے خود کو ملحد قرار دیا۔ پھر 2013 میں کیتھولک مذہب اختیار کیا۔
ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے 1983 میں پہلا ناول ’ریڈ، بلیک‘ لکھ کر ادبی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ نیم سوانح پر مبنی ان کی حالیہ کتاب ’سیپٹالوجی‘ بغیر کسی فل اسٹاپ کے ایک ہزار 250 صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کی اس کتاب کی تیسری جلد 2022 میں ہونے والے انٹرنیشنل بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ ہوئی تھی۔
1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک مصنف کی حیثیت سے کامیابی کے لیے کوشش کے دوران جون فوسے سے ایک ڈرامے کا ابتدائیہ لکھنے کو کہا گیا تھا۔ ایک بار فرینچ تھیٹر ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے جون فوسے نے کہا تھا کہ ’مجھے پتا تھا، میں نے محسوس کیا کہ اس طرح کی رائٹنگ میرے لیے بنی ہے‘۔
جون فوسے کے ایک ڈرامے ’اینڈ وی ول نیور بی پارٹڈ‘ کو 1994 میں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی تھی۔ ناروے میں ان کے پبلشر کے مطابق ان کا ایک ڈرامہ ’سملاگیٹ‘ دنیا بھر میں ایک ہزار سے زائد مرتبہ پیش کیا جا چکا ہے اور ان کے ادبی کام کو 50 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
جون فوسے نے 2003 میں فرانسیسی اخبار کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں کرداروں کو روایتی الفاظ میں میں نہیں لکھتا، میں انسانیت کے بارے میں لکھتا ہوں‘۔
خیال رہے کہ سویڈش اکیڈمی مغرب کے لکھاریوں کو زیادہ اہمیت دینے پر تنقید کی زد میں رہی ہے۔ تاہم 2018 میں عالمی سطح پر ’می ٹو‘ مہم سامنے آنے کے بعد عالمی ادارے نے چند اصلاحات کرتے ہوئے صنفی برابری کی بنیاد پر نوبل انعام برائے ادب دینے کا عزم کیا تھا۔
اس مہم کے بعد اکیڈمی نے تین خواتین بشمول فرانس کی اینی ایرناکس، امریکی شاعرہ لوئیس گلک اور پولینڈ کی اولگا ٹوکارزوک جبکہ تین مردوں بشمول آسٹریا کے مصنف پیٹر ہینڈکے، تنزانیا کے مصنف عبدالرازق گورنا اور جون فوسے کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا ہے۔