طارق محمد کی کتاب ’جمہوریت کیوں اور کیسے‘ کی تعارفی تقریب

ادبی تنظیم دریچہ اور سماجی تنظیم انٹرنیشنل سوشل ہیلتھ نیٹ ورک کے زیر انتظام کالم نگار، سیاسی مبصر و سیاسی کارکن محمد طارق کی دوسری نئی کتاب  ’جمہوریت کیوں اور کیسے  کی تقریب رونمائی 29 اکتوبر 2023 بروز اتوار اوسلو ناروے میں منعقد ہوئی۔

تقریب کے آغاز میں فلسطین کے شہدا کی یاد میں شمع روشن کی گئی اور فاتحہ پڑھی گئی۔ اس کے بعد محمد ادریس نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ دریچہ اوسلو کی تاریخ بیان کی اور دریچہ کی انتظامیہ کا تعارف کروایا۔ تقریب کے پہلے حصے میں کتاب کی رونمائی اور کتاب پر ادبی ، سیاسی و سماجی شخصیات نے گفتگو کی۔ آخر میں مصنف محمد طارق نے کتاب کا مختصر تعارف پیش کیا۔

مقررین نے محمد طارق کو اتنے مُختصر عرصے میں دوسری کتاب شائع کرنے پہ مُبارکباد پیش کی اور کتاب پہ سیر حاصل گفتگو کی۔ مقررین کے مطابق کتاب میں جمہوری نظام کے خدوخال، شمالی یورپ کی جمہوریت اور پاکستانی جمہوریت سے تقابل نہایت احسن طریقے سے کیا گیا ہے۔ تمام مقررین نے جموریت کے بارے میں جانکاری کے لیے کتاب پڑھنے کی ترغیب دی۔ دریچہ اوسلو اور انٹرنیشنل سوشل ہیلتھ نیٹ ورک نے طارق صاحب کو تحائف پیش کیے۔

اس حصے کی صدارت این آر کے کے صحافی عطا انصاری نے کی- نظامت کے فرائض دریچہ کے جنرل سیکرٹری محمد ادریس لاہوری نے ادا کیے - پورے پروگرام کی صدارت دریچہ کے صدر سید ندیم حسین نے کی - تقریب کی ویڈیو، آڈیو کوریج ارشد وحید چوہدری اردو کمیونٹی سروس، شاہد جمیل پاک ناروے نیوز اور عامر لطیف بٹ نور پاک میڈیا نے کی۔

انجنئیر بشارت خان نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں جمہوریت، جمہوری نظام کو سمجھنے اور نچلی سطح پر سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کس طرح اپنے حقوق کا تحفظ کرکے کسی معاشرے کو پرامن اور خوشحال بنا سکتے ہیں، کو موضوع بنایاگیا ہے۔ ساتھ ہی نارڈک ممالک کے فلاحی ریاستی نظام کا احاطہ کیا گیا ہے – انہوں نے نے کتاب کے مختلف ابواب کا مختصر تعارف پیش کیا۔

شاعرہ و ادبی شخصیت میناجی نے کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’جمہوریت کیوں اورکیسے‘ میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کوئی بھی معاشرہ جمہوریت، جمہوری اقدار کو اپنائے بغیر نہ خوشحال ہوسکتا ہے  اور نہ ہی  ترقی کرسکتا ہے۔ متحرک سیاسی و سماجی شخصیت صاعقہ تبسم نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کتاب  ’جمہوریت کیوں اور کیسے ‘ کے مصنف نے عوام لناس کو آسان زبان میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سیاسی، انتظامی امور پر سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کی جانکاری معاشرے کے اجتماعی معاملات کو بہتری کی طرف لا سکتے ہیں- صاعقہ تبسم نے مصنف کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ نہ صرف ان کی کتاب سے بلکہ ان سے مکالمہ کرتے ہوئے مجھے سیاست، جمہوریت، گورننس کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے، سیکھنے کا موقع ملا۔ جس کے لیے میں ان کی شکر گزار ہوں۔ انہوں نے شرکا کو ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ میں نے پوری کتاب پڑھی ہے، آپ بھی اس کتاب کو ضرور پڑھیں، جس سے آپ کو گورننس، نظام حکومت کے بارے میں کافی کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

ممتاز سماجی شخصیت، ریڈ پارٹی کے سابق ممبر قومی اسمبلی، کونسلر سیاست دان اطہر علی نے ’ جمہوریت کیوں اور کیسے ‘ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ محمد طارق کی جمہوریت پر لکھی گئی کتاب ایک اچھی کوشش ہے۔ میرے نزدیک پاکستان میں حقیقی جمہوری اقدار کو پنپنے میں ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے پاکستان کے طاقتور ادارے اپنے ادارہ جاتی مفادات کی خاطر سیاسی پارٹیوں میں مداخلت سے گریز کریں اور سیاسی عمل کو فطری طور پر آگے بڑھنے دیں۔ اطہر علی نے سیکنڈی نیون ممالک کے نظام حکومت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری نے ان ممالک میں انصاف، کڑے احتساب کے نظام کو پنپنے کا موقع دیا ہے۔

سیاسی و سماجی شخصیت، سابق سرگرم سیاست دان ارشد بٹ نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں نارڈک ماڈل اور سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت کو احسن طریقے سے سمجھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی کتاب میں موجود پروفیسر ستائین رنگن کی تھیوری پر ناقدانہ رائے دیتے ہوئے ارشد بٹ نے کہا کہ ستائین رنگن پروامریکی سوچ کو پروموٹ کرتے ہیں۔ ستائین رنگن چینی نظام حکومت کو شدید تنقید بناتے ہیں۔ وہ خود رنگن کے اس نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔

تقریب کے صدر عطا انصاری نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں جمہوری اقدار کو بہتر کرنے کے لیے ہر وقت کوششیں جاری رکھنی چاہیے۔ جمہوریت صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ جمہوریت کا بڑا مقصد سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے تاکہ فیصلہ ساز فورمز پر معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی اور شمولیت یقینی نظر آئے۔ محمد طارق کو یہ کتاب لکھنے پر ہم ان کومبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ لکھنے کا کام مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔

اس کے بعد پروگرام میں وقفہ کیا گیا۔ اس دوران میں کتاب کو ہاتھوں ہاتھ خریدا گیا۔ وقفے کے دوران ہی حاضرین کی پیزے سے تواضع کی گئی۔

وقفے کے بعد تقریب کا دوسرا حصہ شروع ہوا جو مشاعرے پہ مشتمل تھا۔ اس حصے کی صدارت صدارتی ایوارڈ یافتہ اردو اور پنجابی کے نامور شاعر جمشید مسرور نے کی۔ مشاعرے کی نظامت بھی دریچہ کے جنرل سیکرٹری محمد ادریس کے سپُرد تھی۔ مشاعرے کی روایت کے مطابق انہوں نے سب سے پہلے اپنا کلام سُنایا۔ دوسرے شعرا میں اسلم میر، بشارت خان ، طلعت بٹ، ڈاکٹر سید ندیم حُسین، ڈاکٹر سیف الرحمان ، مینا جی، آفتاب وڑائچ، سونیا خان اور صدر مشاعرہ جمشید مسرور شامل تھے۔

 تقریب کے اختتام پہ دریچہ کے جنرل سیکرٹری محمد ادریس نے تمام مہمانوں کی تشریف آوری اور دونوں حصوں میں تقاریر اور شاعری اتنے انہماک ، توجہ اور تحمل سے سُننے پہ شُکریہ ادا کیا۔ میڈیا سے وابستہ احباب ارشد وحید چودھری، عامر بٹ اور شاھد جمیل صاحب کی تشریف آوری اور ابلاغی سہولیات فراھم کرنے پہ شُکریہ ادا کیا۔ اور حاضرین کو یقین دلایا کہ دریچہ اوسلو اور انٹرنیشنل سوشل ہیلتھ نیٹ ورک مستقبل میں بھی ایسی پُروقار تقاریب کے ذریعے ادب و ثقافت کی خدمت کا مشن جاری رکھیں گے۔ یوں یہ پُروقار اور پُررونق تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

کتاب کی تقریب رونمائی میں کافی تعداد میں نارویجن پاکستانی سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی ۔