سیاستدانوں اور سیاستدان بنانے والوں کے لیے سوچنے کا وقت

پی ٹی آئی والو اپنی سوچ بدلو، پی ٹی آئی کی مخالف قوتو ہوش کے ناخن لو۔ یاد کرو اس وقت کو جب شیخ مجیب الرحمن اپنے 6 نکات پر اڑ گیا تھا اور ہماری فوجی قیادت اپنی انا پر اڑ گئی تھی۔

مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کو اقتدار کے لالچ نے اندھا کر دیا تھا۔ پھر یاد کرو اس صورتحال کے نتیجے کو۔ وقت اپنی رفتار کبھی نہیں بدلتا۔ تاریخ کو کبھی جھٹلانا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ آج ہمارے وطن پر جتنی افتاد آن پڑی ہے، اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔ دنیا ہمیں سمجھا سکتی ہے یا پھر ہمارے اوپر ہنس سکتی ہے۔ جب کسی طرح بھی ہمارے اوپر اثر نہ ہو تو پھر دنیا منہ پھیر لیتی ہے یا اپنے مطلب کی حد تک ہمارے ساتھ راہ و رسم رکھتی ہے۔

دنیا کے ہر ملک کی پالیسیاں اپنے ہی مفاد میں بنتی ہیں۔ کوئی دوسرے کو خود پر کبھی ترجیح نہیں دیتا ہے۔ ہمارے ملک کے آج کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اب ملک میں استحکام پیدا کیا جائے۔ اور استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ذاتی انا اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر نہ سوچیں اور قومی مفادات میں فیصلے نہ لیے جائیں۔ پچھلے دو برس سے پاکستان میں جو تماشا لگایا گیا ہے، اب ااسے ختم ہونا چاہیے۔ اس ملک کی سب سے بڑی خرابی یہ رہی ہے کہ عوام کو کبھی اختیار نہیں ملا، جسے ہم عرف عام میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں اس کا اصل نام پاکستان فوج کے جرنیل ہیں۔ (یاد رہے کہ پاک فوج بہترین ادارہ اور ملکی تحفظ کی ضامن ہے۔ فوج اور عوام ایک ہیں )۔

مجھے اس کا علم نہیں کہ ان جرنیلوں کو کس نے تربیت دی اور کون سا سبق سکھایا کہ آپ اس ملک پر اپنا تسلط رکھنا اور اپنے عوام سے فاصلے رکھنا۔ ان جرنیلوں کے زیر کمان کام کرنے والی فوج 90 فیصد عوام ہی ہیں۔ لیکن ان کی تربیت صرف وطن کی حفاظت کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ سیاست کر سکتے ہیں نہ ان کو ملکی نظام چلانے کا کوئی تجربہ ہوتا ہے۔ یہ صرف اپنے افسران کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ لیکن جرنیلوں کے پاس تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں کی پالیسیاں بنانے، اسٹریٹیجک کی تربیت ہوتی ہے اور یہ دنیا کے حالات سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ تو پھر یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ملک چلانا، ملک کا نظام بنانا سیاستدانوں کا کام ہے۔ اور سیاستدانوں کو بنانا عوام کا کام ہے۔

جو سیاستدان عوام میں سے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ابھر کر سامنے آئے گا، وہی بہتر کام کرے گا اور وہی ملک کے لیے درست نظام بھی بنائے گا۔ اگر وہ کچھ غلط کرے گا تو اسے علم ہوگا کہ اس نے پھر عوام کے سامنے جانا ہے۔ یہاں ایک بات جان لینا چاہیے کہ دنیا کا کوئی بھی انسان کسی بھی شعبے کے لیے ناگزیر نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سوچ بدلتی ہے، ضروریات بدلتی ہیں۔ جو لوگ خود کو اپنے ملک یا قوم کے لیے ناگزیر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے بلکہ وقت گزرا جا رہا ہے کہ ہمارے جرنیل، سیاستدان اور دوسرے تمام اسٹیک ہولڈرز پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ آنکھ اور ہاتھ ملائیں۔ اور اپنے وطن کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اپنی انا کو قربان کریں اور اپنی اداؤں کو بدلیں۔ گزشتہ روز کے عام انتخابات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر عمران خان ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان سے زیادہ کوئی عقل مند نہیں یا اس کے بغیر نظام نہیں چل سکتا۔ البتہ یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہمارے ملک کی اکثریت اسے اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے۔ بےشک یہ اکثریت دو صوبوں تک محدود ہے۔ لیکن جمہوری اصولوں کے مطابق اسی کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

عمران خان کو بھی اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے اور مقبولیت کے زعم سے نکل کر ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے سب کے ساتھ مکالمہ کرنے پر رضا مند ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز کو بھی اپنی سوچ اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔ اپنے مخالفین کو نظریاتی حد تک مخالفین سمجھیں۔ ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ سب ایک وطن کے باسی ہیں اور سب کے حقوق برابر ہیں۔ اگر سندھی پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو ہمیں ان کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر بلوچیوں کو شکایات ہیں تو ہمیں ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی شکایات سننا ہوں گی اور دور بھی کرنا ہوں گی۔ عمران خان کے مخالف سیاستدانوں کو بھی اقتدار کا لالچ چھوڑ کر اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ اور اپنے سپہ سالار پر واضح کر دینا چاہیے کہ ہم عمران خان کے بغیر سیاست نہیں کرنا چاہتے، ہم اس سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اگر عوام میں خان صاحب کی اکثریت ہے تو ہم اسے حکومت دیتے ہیں اور اگلے 5 سال اس کی کارکردگی دیکھتے ہیں۔ پھر فیصلہ عوام پر ہوگا۔

ہمارے جرنیلوں کو بھی اب سب سے زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے اور اپنی ضد چھوڑ کر تمام سیاسی قیادت سے بات کریں اور مستقبل کے حوالے سے کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں کہ فوج کو سیاست سے بالکل الگ کر دیا جائے۔ البتہ آئین میں کسی ترمیم کے تحت فوجی قیادت کا کوئی کردار متعین کیا جا سکتا ہے۔ ملکی دفاع کے حوالے سے فوجی قیادت کے ساتھ قریبی رابطے اور ان کے مشوروں کو پالیسی سازی میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ملک کا نظام بنانا اور اندرونی پالیسیاں بنانا صرف سیاستدانوں کا کام ہے۔ وہ غلط کریں گے تو عوام خود ہی انہیں مسترد کر دیں گے۔ مجھ ناچیز کی یہ اپیل ہے کہ سب مل کر ملک کو مشکلات سے نکالیں، اپنی معیشت درست کریں۔ عوام کو سچ بتائیں اور عوام کو اعتماد میں لے کر مشکل فیصلے کریں۔ ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے ایک فول پروف نظام بنائیں اور اس پر عمل کریں۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے سیاستدان اپنے لالچ پر قابو رکھیں تو ان کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ان کے پاس بہت دولت ہے۔ جرنیلوں کو بھی کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ سب اپنے حصے کا کام کریں اور آئین میں متعین کردہ اپنے اختیارات کا استعمال کریں۔ عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اب آپ سب کی باری ہے۔

loading...