قرض کی پیتے تھے مے؟
- تحریر بیرسٹر حمید بھاشانی خان
- اتوار 10 / مارچ / 2024
نو منتخب یا ازسرنو منتخب حکمران اشرافیہ کو بڑے سخت قسم کے چلینجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج معاشی ہو گا۔ خود اسی حکومت کے کچھ رہنماؤں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر تشکیل پانے والی حکومت کے دور کے اختتام پر ملک کے معاشی بحران پر قابو پانے کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعظم کا بیانیہ یہ تھا کہ انہوں نے معاشی مسائل کی گمبھیرتا کے پیش نظر اس محاذ پر بہت مشکل فیصلے کیے ہیں۔ اور یہ اتنے مشکل فیصلے تھے کہ ان کی وجہ سے انہوں نے اپنی سیاست قربان کر دی ہے مگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ سیاست قربان کر کہ ملک بچانے کا دعوی شاید کسی حد عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کا باعث بنتا اور اس میں مزید ہمدردیاں سمیٹنے کا پوٹینشل بھی موجود تھا، اگر ان کی سیاست واقعی قربان ہو جاتی۔ اور اقتدار کسی اور کو منتقل ہو جاتا۔ مگر وزیر اعظم کی قیادت میں اقتدار کا ہما دوبارہ انہی قوتوں کے سر پر بیٹھ گیا۔ اب اقتدار کا تاج سر پر سجا کر نہ اپنی سیاست قربان کرنے کا کریڈیٹ مانگا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس دعوے پر قائم رہا جا سکتا ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکال دیا گیا ہے۔
ایسا اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی اعشاریے اور انڈیکیٹرز، خواہ ان کو کسی بھی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی جائے، یہی بتاتے ہیں کہ معاشی بحران قابو میں آنے کے بجائے مزید گہرا ہوا ہے، اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگلے چار سالوں تک ترقی کی موجودہ شرح کی رفتار میں اضافے کی کوئی ٹھوس وجوہات نظر نہیں آتیں۔ بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف کے منصوبوں کے بارے میں جو نیک خیالات یہ حکومت رکھتی ہے اور جس طرح اس اتحاد میں شامل کچھ رہنما ان شرائط کو ماننا محب وطنی کی علامت قرار دے رہے ہیں، ان حالات میں آئی ایم ایف کی مزید شرائط کو من و عن تسلیم کیے جانے کے امکانات موجود ہیں۔
مگر ایسا کرنے سے زندگی کی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں جو لاکھوں کے حساب سے نوجوان تلاش معاش میں ترک وطن کر چکے، اور بے روزگاری کی شرح دیکھتے ہوئے اس تعداد میں اضافہ ہونے کے بھی واضح امکانات موجود ہیں۔ ظاہر ہے ان حالات میں حکومت یہ دعوی تو نہیں کر سکتی کہ ملک میں کوئی معاشی بحران نہیں ہے۔ یا مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پا لیا جائے گا۔ گزشتہ اتحادی حکومت کے ماہرین معاشیات سولہ ماہ کی حکومت کے دوران کوئی قابل ذکر معاشی منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
اب بھی حکومت کی فیصلہ سازی میں زیادہ تر وہی لوگ شامل ہیں۔ ان کی معاشی پالیسی اور معاشی سوچ میں کسی تبدیلی کے کوئی آثار سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سولہ ماہ کی ناکام حکومت کے تجربے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مگر سولہ ماہ جیسے مختصر وقت کا کیا رونا؟ یہاں تو سات دہائیوں کی غلطیوں اور ناکامیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ ہمارے ہاں تاریخ سے سبق سیکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی اور معاشی واقعہ انیس سو سترہ کا بالشویک انقلاب تھا، جس کے بطن سے یونین آف سوشلسٹ سویٹ ریپبلک جیسی سپر پاور نے جنم لیا تھا، اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اسی طرح اس صدی کا دوسرا بڑا واقعہ بھی سویت یونین کا خاتمہ تھا۔ ہم نے دونوں واقعات کو نظر انداز کر دیا۔ یا پھر اپنی سہولت اور نظریات کے تحت اس سے غلط نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سب ہمارے ہیرو ازم کی وجہ سے ہوا ہے۔ سویت یونین کی تشکیل پانے کی وجہ معاشی تھی، اس کے خاتمے کی وجہ بھی معاشی ہی تھی۔ ہم نے اس کہانی سے معیشت کو تو نکال دیا اور اس کو ایک روحانی واردات بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ اور ساتھ میں یہ دعوی بھی کیا کہ اس روحانی واردات کے اصل محرک ہم ہیں۔ اور سویت یونین کی شکست کے اصل کریڈٹ کے حقدار بھی ہم ہی ہیں۔
سویت یونین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج اور سب سے زیادہ نیوکلیئر ہتھیار تھے۔ اس وقت کی دوسری سپر پاور امریکہ نے آمنے سامنے سویت یونین کے خلاف کوئی لڑائی نہیں لڑی۔ ان کے دانشوروں اور فوجی ماہرین کو اس ناقابل تصور تباہی اور بربادی کا اندازہ تھا جو اس طرح کی کسی مہم جوئی کے نتیجے میں ناگزیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس میدان میں آمنے سامنے آنے کے بجائے پراکسی جنگوں کا راستہ اختیار کیا۔ اس مقصد کے لیے ویت نام سے لے کر افغانستان تک دوسرے ملک، دوسری قومیں اور ان کی سر زمین استعمال ہوئی۔
جیتا کوئی اور فتح کے جشن کئی اور منائے جاتے رہے۔ بات کئی اور نکل گئی، بات یہ ہو رہی تھی تاریخ سے سبق سیکھنے کی کہ دنیا میں اصل اور بڑا مسئلہ معاشی ہے۔ اور یہ بنیادی مسئلہ حل کیے بغیر کوئی اور مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ اب بات یہ ہے کہ سولہ ماہ کی حکومت میں جس بحران پر قابو پا لیا گیا تھا، وہ دوبارہ پہلے سے زیادہ شدت سے سر اٹھاتا ہو نظر آ رہا ہے۔ ملک کا سارا انتطام و انصرام قرض پر چل رہا ہے۔ اور اس انتظام کو چلاتے رہنے کے لیے مزید قرض کی ضرورت ہے۔
کسی ہنگامی ضرورت کے لیے گاہے قرض لے لینا اور بات ہے، اور روزمرہ کی زندگی کو چلانے کے لیے قرض پر ہی انحصار کرنا، اور قرض کو ہی بطور ذریعہ آمدن استعمال کرنا دوسری بات ہے۔ دنیا کا مشترکہ تجربہ یہی ہے کہ جب قرض ایک ہنگامی ضرورت نہیں بلکہ ایک مستقل ذریعہ آمدن بن جائے، وہاں صورت حال تشویشناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس طرح معیشت کو چلانے کے لیے، جس کا انحصار بنیادی طور پر بیرونی قرضوں پر ہے حکومت کے لیے سب سے بڑا چلینج معاشی اور سیاسی طور پر طاقت ور ممالک کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات قائم کرنا ہے۔
اس میدان میں موجودہ حکومت کے لیے روایتی مشکلات کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا چیلنج اپوزیشن بھی ہے۔ اپوزیشن اس میدان میں حکومت کے لیے جو مشکلات پیدا کر سکتی ہے، اس کی ایک جھلک امریکی کانگریس کے ممبران کی ایک گروپ کی حالیہ سرگرمیوں میں نظر آتی ہے۔ حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے اکتیس ممبران نے گزشتہ دنوں اس سلسلے میں امریکی صدر جو بائیڈن اور سیکٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن کو ایک خط لکھا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے ان رہنماؤں نے صدر کے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کرے جب تک ان انتخابات میں لگائے جانے والے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے نتائج سامنے نہیں آ جاتے۔
ان ممبران نے کہا کہ ان الزامات کے تحت پاکستان کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات سنانے آئے ہیں، اور ان الزامات کی تحقیق و تفتیش کے بغیر نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے جمہوریت اور آزادانہ انتخابات جیسی اقدار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان ممبران نے ماضی میں لاطینی امریکہ میں امریکہ کی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک میں جمہوریت اور آزادانہ انتخابات کے حوالے سے امریکی پالیسی درست نہیں تھی، جس سے ناصرف لاطینی امریکہ کے عوام کو نقصان پہنچا بلکہ اس کی وجہ سے خود امریکی مفادات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔
اگرچہ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کے کچھ اہل کار حزب مخالف کے اس اقدام کو ”غیر محب وطنی“ قرار دے چکے ہیں لیکن مغرب میں سرگرم حزب مخالف کے ہمدرد اپنی اس مہم کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کر چکے ہیں۔ اس طرح نئی حکومت کو معیشت بحال کرنے اور بیرونی قرضوں کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(بشکریہ: ہم سب لاہور)