تب اور اب

بہت سے لوگ بہت سی باتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ لوگ اڑتی چڑیا کے پرگن لیتے ہیں۔ ایسا عمیق ہنر صرف نصیب والوں کے حصے میں آتا ہے۔ کچھ لوگ کچھ چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ لوگ جانتے ہیں کہ گھوڑے کی چار ٹانگیں کیوں ہوتی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ گھوڑے کی چار ٹانگیں اس لیے ہوتی ہیں کہ جو بگھی وہ کھینچتے ہیں، اس بگھی کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ اگلے وقتوں میں آئن اسٹائن

نے چار پہیوں والی بگھی ایجاد نہیں کی تھی، تب گھوڑے دوپہیوں والے ٹانگے کھینچا کرتے تھے۔اس وقت گھوڑوں کی دوٹانگیں ہوا کرتی تھیں۔ چار پہیوں والی بگھی ایجاد ہونے کے بعد گھوڑوں کی دو اور ٹانگیں نکل آئیں اور چار ٹانگوں والے گھوڑے چار پہیوں والی بگھی میں جڑنے لگے۔ ایسی انوکھی آگاہی مجھے سیانوں نے دی ہے جو بہت سی چیزوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ سیانوں نے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں نہیں ہوتی۔ ایجاد ضرورت کی ماں ہوتی ہے۔

سنی سنائی باتیں دہراتے ہوئے عرض کرچکا ہوں کہ بہت سے لوگ بہت کچھ جانتے ہیں۔ کچھ لوگ کچھ کچھ جانتےہیں ۔ معاشرے کے سکھ دکھ کی کھوج لگانے والوں کا فرمانا ہے کہ ایسے لوگ جو کچھ نہیں جانتے ، وہ خوش رہتے ہیں۔ کھل کھلا کر ہنس سکتے ہیں۔ ان کی بلا سے ملک کا شہنشاہ کون لگنے والا ہے اور کون نہیں لگنے والا ہے۔ اس نوعیت کے فضول بحث مباحثوں سے دور بھاگتے ہیں۔ اطمینان سے سو سکتے ہیں۔ اچھے اچھے خواب دیکھتے ہیں۔ خوابوں میں پریوں سے اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔ جنوں کو ٹھینگا دکھاتے ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہے، کسی کو انگوٹھا دکھانے کو بہت برا سمجھا جاتا تھا۔ لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے تھے۔ اب دنیا سمجھدار ہوگئی ہے۔ جب آپ جذباتی ہوجاتے ہیں اور آپ کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں، تب سامعین آپ کو ٹھینگا دکھاتے ہیں اور مقرر ارشاد کے نعرے لگاتے ہیں۔

انگریز جب آپ کو ٹھینگا دکھاتا ہے تب وہ اشاروں میں کہہ رہاہوتا ہے، ویل ڈن۔اور دیسی آدمی جب آپ کو انگوٹھا دکھاتا ہےتب وہ اشاروں میں کہہ رہا ہوتا ہے ’’ کیا بات ہے‘‘۔ واہ بھئی واہ ۔’’ سبحان اللہ‘‘۔

ٹھینگا یا انگوٹھا دکھانا ہمارے کلچر کا اب اٹوٹ انگ ہوچکا ہے۔ کسی کو داد دینے کیلئے ہم اسے انگوٹھا دکھاتے ہیں۔ کسی کو برا نہیں لگتا۔ البتہ گاؤں اور دیہات میں بسنے والوں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ ان کو شہروں کی آلودہ ہوا لگ چکی ہے۔ ماضی قریب میں، میں نے نہیں سنا کہ کسی نے کسی کو ٹھینگا دکھایا ہو اور وہ ماراگیا ہو۔ ویسے بھی پینڈو سے شہری بابو بننے کیلئے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔ انگریز نے ہندوستان کے بٹوارے کیلئے ہم مسلمانوں سے بڑی قربانی مانگی تھی۔ انگریز نے واضح کردیا تھا کہ جب تک پانچ دس لاکھ مسلمان ہمارے سامنے اپنی گردن نہیں کٹوائیں گے، انگریز تب تک ہندوستان کا بٹوارہ نہیں کر یں گے۔ ہمارے پانچ سے دس لاکھ آباؤاجداد نے اپنا سر قربان کردیا۔ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دیا اور انگریز کو ہندوستان کے بٹوارے پر مجبور کردیا۔

ہم جو کچھ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے، آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قائد اعظم نے کیوں کہا تھا کہ میں نے بغیر گولی چلائے اور خون کا ایک قطرہ بہائے مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ ملک پاکستان حاصل کرلیا؟ ہمارے آباؤاجداد کی بات درست ہے یا کہ قائد اعظم کی بات درست ہے، اس بات کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ ہاں، بٹوارے کے فیصلے کے بعد برصغیر میں خوفناک فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان ہیبت ناک فسادات کی جھلک ہم نے کراچی میں بھی دیکھی تھی جب بندر روڈ، برنس روڈ، فرئیر روڈ، سولجربازار میں صدیوں سے آباد فیملیز کو تخت وتاراج کردیا گیاتھا۔ ان عالیشان فلیٹس میں زیادہ تر ہندو اور کچھ کچھ سکھوں کی فیملیز رہتی تھیں۔ کراچی میں خون کی ندیاں نہیں بہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار ہندوؤں نے میونسپل کارپوریشن کے سامنے سوامی نارائن مندر میں آکر پناہ لی تھی۔ اندرون سندھ سے مقروض سرداروں، جاگیرداروں، وڈیروں، انکے کارندوں نے ہندوؤں کو سندھ چھوڑ کرجانے پر مجبور کیا۔ ان کو یقین تھا کہ ہندو ساہوکاروں کے چلے جانے کے بعد ان کی ہندوؤں کے پاس گروی پڑی ہوئی زمینیں ان کو واپس مل جائیں گی اور قرض بھی چکتا کرنا نہیں پڑے گا۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔

متروکہ جائیدادوں کے بارے میں بنے ہوئے قوانین کے مطابق ہندوؤں کی اپنی املاک معہ زرعی زمینوں کے آنے والے مہاجرین میں تقسیم کی جائیں گی۔ اس قانون کے مطابق ہندوؤں کے پاس گروی پڑی ہوئی زمین سرداروں، زمینداروں، وڈیروں کو واپس نہیں کی جائیں گی۔ گروی زمینیں بھی مہاجروں میں بانٹ دی جائیں گی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مہاجر زمینداری سے نابلد تھے۔ انہوں نے کلیم میں ملی ہوئی زرعی زمین اونے پونے بھاؤ میں انہی سرداروں، زمینداروں اور وڈیروں کو بیچ دی اور کراچی کا رخ کیا۔ ہندوؤں کی اپنی زمین اور وڈیروں کی ان کے پاس گروی پڑی ہوئی زمین الاٹمنٹ میں مہاجروں کو دی گئی تھیں۔ مگر آج آپ کو ایک بھی مہاجر سردار یا زمیندار سندھ میں دکھائی نہیں دے گا۔

اس نوعیت کے ان گنت قصے کہانیاں دشمنوں نے ہمیں سنائے ہیں۔ اور سنی سنائی باتیں آج میں آپ کو سنارہا ہوں۔ ہماری اپنی سمجھ بوجھ تو صفر ہے۔ ہمیں کیا پتہ کہ انیس سوسینتالیس میں کیا ہوا تھا۔

(بشکریہ: روزنامہ جنگ)