پاکستان کے لیے بعض نعرے ترک کرنے کا وقت
- تحریر سید مجاہد علی
- ہفتہ 20 / اپریل / 2024
پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو میزائل کی تیاری میں آلات فراہم کرنے والی چار کمپنیوں پر پابندیوں کو مسترد کیا ہے۔ پاکستان نے ان پابندیوں کو برآمدی کنٹرول کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امریکہ اس حوالے سے دوہرا معیار اختیار کرتا ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
امریکہ نے پاکستان کو بلاسٹک میزائل تیار کرنے والی جن کمپنیوں پر پابندیاں لگانے اور ان کے اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے، ان میں سے تین کا تعلق چین اور ایک کا بیلا روس سے ہے۔ امریکہ ان ممالک کے ساتھ براہ راست تجارتی اور سفارتی جنگ میں فریق ہے اور ان ممالک پر پابندیاں لگانے کا کوئی نہ کوئی عذر تراشتا رہتا ہے۔ ماہرین و مبصرین بھی اسے جیو پولیٹیکل تناظر میں کیے گئے فیصلے سمجھتے ہیں جن سے امریکہ اسٹریٹیجک فوائد حاصل کرتا ہے۔ تمام عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غزہ میں جنگ جوئی میں مصروف اسرائیل کو امریکہ تواتر سے مہلک ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ اسی طرح برصغیر میں ایک طرف پاکستان کی مدد کرنے والی چینی یا بیلا روس کی کمپنیوں کی سرزنش ہورہی ہے تو دوسری طرف امریکہ خود بھارت کو جوہری صلاحیت بہتر بنانے کے لیے تعاون فراہم کرتا ہے۔ حالانکہ برصغیر میں قیام امن کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان متوازن طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
کسی حد تک اس تازہ امریکی اقدام کو پاکستان کی بجائے چین اور بیلا روس کے خلاف کارروائی سمجھا جاسکتا ہے۔ تجارتی شعبہ کے علاوہ بحر چین میں بالادستی کے معاملہ پر امریکہ براہ راست چین سے مد مقابل ہے اور کسی بھی طرح اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے امریکہ چین کے خالصتاً معاشی منصوبے ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ کے خلاف سرگرم رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر مسلسل پاک چین معاشی راہداری (سی پیک) کو محدود کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ گزشتہ سال بھارت میں جی 20 اجلاس کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مقابلے پر بھارت، مشرق وسطی اور یورپ کے درمیان معاشی راہداری (آئی ایم ای سی) کے نام سے متبادل منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ اگر تجارتی وسعت اور ممالک کے درمیان مواصلت ہی نئی گلوبلائز دنیا کا اہم مقصد ہے تو امریکہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ میں بھی شراکت داری کرسکتا ہے۔ البتہ دیکھا جاسکتا ہے کہ معاشی معاملات کو سفارتی و سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ محض اپنی سلامتی، معاشی فراوانی اور دنیا کے ممالک کے ساتھ دوستانہ مراسم کی حدود میں نہیں رہتا بلکہ اپنی معاشی و عسکری طاقت کو دنیا بھر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے چین نے معاشی ترقی کرتے ہوئے امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کیا ہے، امریکہ کسی بھی طرح چین کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کا نام لے کر بیلا روس کی ایک کمپنی پر پابندی لگائی گئی ہے۔ بیلا روس ایک چھوٹا ملک ہے جس سے امریکہ کو کسی قسم کا کوئی اندیشہ نہیں ہوسکتا لیکن اس ملک کی حکومت نے روس یوکرین جنگ میں روس کا ساتھ دیا ہے جبکہ امریکہ یوکرین کا پشت پناہ بنا ہؤا ہے۔ امریکہ یوکرین جنگ کو کسی بھی طرح روس کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ روس کی معاشی و عسکری طاقت کو وسیع البنیاد اور دوررس نقصان پہنچایا جائے۔ اسی مقصد کے لیے نیٹو کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے روس کے خلاف محاذ آرائی بڑھائی جارہی ہے اور تنازعہ میں روس کا ساتھ دینے والے ممالک کو بالواسطہ طور سے امریکی مفادات کا دشمن مان لیا گیا ہے۔ روس یوکرین جنگ میں طوالت کی بنیادی وجہ امریکہ کا گھمنڈ اور اس کی روس مخالف پالیسی ہے۔ اور اس کی بھاری قیمت یورپی ممالک اور ان کے عوام کو ادا کرنا پڑرہی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ فی الوقت روس کو نیچا دکھانے کے مقصد سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہانے بیلا روس کی کمپنی پر پابندیاں لگانے کے معاملہ کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کا یہ مؤقف ناجائز یا غلط نہیں ہے کہ امریکہ پابندیوں اور تجارتی سہولتوں کے ہتھکنڈوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس حوالے سے وہ خود دوہرے معیار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کا مظاہرہ خاص طور سے اسرائیل اور بھارت کے بارے میں پالیسی میں سامنے آتا رہتا ہے۔ حال ہی میں ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست میزائل و ڈرون پھینکنے کے مقابلہ کے بعد امریکہ نے ایران کے خلاف مزید پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ایران کے میزائل و ڈرون پروگرام کو نقصان پہنچایا جائے اور پابندیوں کے ذریعے انہیں روکنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے برعکس اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل تک کی قرار داد منظور کرنے سے انکار کیا ہے اور غزہ پر وحشیانہ عسکری جارحیت کے نتیجہ میں 34 ہزار انسانوں کو ہلاک کرچکا ہے۔ ان میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اسرائیل جنگ بندی یا غزہ میں انسانی امداد بحال کرنے کے لیے امریکی اپیلوں کو بھی نظر انداز کرتا رہا ہے۔ پھر بھی امریکہ مسلسل اسرائیل کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کررہا ہے ۔ صدر بائیڈن کانگرس سے اسرائیل کی مدد کے لیے مزید وسائل منظور کرانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی دنیا بھر کی تنظیمیں اسرائلی جارحیت کا اعتراف کرتی ہیں اور کسی بھی قیمت پر اس جنگ جوئی کو ختم کرانے پر زور دےرہی ہیں۔ امریکہ کے علاوہ یورپی ممالک میں اسرائیل کے خلاف پرجوش مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس پس منظر میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی امداد ہمہ قسم جمہوری و انسانی اصولوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن امریکہ مشرق وسطی میں اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اسرائیل کو اہم حلیف سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ میں طاقت ور یہودی و سیاسی لابی امریکی حکومت و سیاست دانوں کو اسرائیلی جارحیت کے باوصف اس کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کا یہ نام نہاد علمبردار ملک مسلسل اسرائیلی جارحیت، انسان دشمنی اور شدت پسندی کا ساتھ دے رہاہے۔ غزہ کے پچیس لاکھ باشندے چھے ماہ سے خوراک اور بنیادی انسانی سہولتوں سے محروم ہیں لیکن امریکہ جنگ رکوانے کی بجائے اس میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔
بھارت کے معاملہ میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ نریندر مودی کے دور حکومت میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہؤا ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے میڈیا پر پابندیو ں اور شدت پسند ہندو گروہوں کی پشت پناہی کے ذریعے اقلیتوں کا جینا حرام کیا ہے۔ مودی حکومت گزشتہ روز شروع ہونے والے عام انتخابات میں بھاری بھر اکثریت حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے ۔ اسی لیے ’اس بار، چار سو پار‘ کا نعرہ لگایا جارہا ہے جس کا مطلب لوک سبھا میں 400 سے زیادہ نشستیں لینے کا ہدف ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی اگر یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مودی سرکار بھارت کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے ملک کا سیکولر چہرہ تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے بعد ملک میں اقلیتوں کے لیے زندگی مزید دشوار ہوجائے گی۔ اس سے پہلے 2019 میں مقبوضہ کشمیر کو یک طرفہ طور سے بھارتی یونین کا حصہ بنا کر وہاں آباد شہریوں کے حق رائے دہی کا خون کیا جاچکا ہے۔ اس ایک فیصلہ کی وجہ سے ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں وسیع خلیج ڈال دی گئی اور برصغیر کے تنازعہ کو پیچیدہ اور مشکل بنا دیا گیا۔ لیکن امریکہ بدستور بھارتی حکومت کی پشت پناہی کرتا ہے۔ ڈیڑھ ارب لوگوں کی وسیع منڈی اور چین کے مقابلے میں بھارت کے اسٹریٹیجک تعاون کے لیے امریکی حکومت اطمینان سے اس وسیع ملک میں انسانی حقوق اور جمہوری روایات کا خون ہوتے دیکھ رہی ہے لیکن اس کے ماتھے پر کوئی بل نہیں پڑتا۔
ہمارے خطے اور دنیا میں موجود حالات کے اس وسیع تر پس منظر کو جاننے کے باوجود پاکستان اسے تبدیل کرنے کی صلاحیت و طاقت نہیں رکھتا۔ وزارت خارجہ کا ایک بیان امریکی پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہوگا کیوں کہ داخلی انتشار، بدنظمی، معاشی بدحالی اور سیاسی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے پاکستان کسی دوسرے ملک پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پاکستان کی کمزور پوزیشن کا اندازہ اس حقیقت سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ کابل میں طالبان کی موجودہ حکومت کو اس مقام تک پہنچانے کے لیے پاکستان ، امریکہ کی مخالفت کے باوجود سہولت و مراعات فراہم کرتا رہا۔ حتی کہ امریکہ کے ساتھ دوحہ معاہدہ کرانے میں بھی کردار ادا کیا ۔اور جب طالبان نے کابل پر قبضہ کا قصد کیا تو پاکستانی عسکری حلقے اس کی پشت پرتھے۔ لیکن اس سرپرستی، معاونت و دوستی کے باوجود اس وقت کابل حکومت پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کی پشت پناہ بنی ہوئی ہے اور اسلام آباد کی کوئی تجویز یا دباؤ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
اسلام آباد کو سوچنا ہوگا کہ جب ایک ایسا ملک اور اس کی ایسی حکومت جسے دنیا کا کوئی ملک تسلیم نہیں کرتا، پاکستان کے ساتھ احترام کا تعلق برقرار رکھنے سے انکار کررہی ہے تو وہ دباؤ اور ضد کی سیاست کے ذریعے بھارت جیسے بڑے اور طاقت ور ملک کو کیسے اپنی شرائط پر صلح کے لیےآمادہ کرسکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان معاشی لحاظ سے زندہ رہنے کے لیے امریکہ کی سفارتی اعانت اور حمایت کا محتاج ہے۔ حکومت بار بار کہہ چکی ہے کہ آئی ایم ایف سے طویل المدت بڑا معاشی معاہدہ کیے بغیر ملکی معیشت بحال کرنا ممکن نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے فیصلوں میں امریکی اثر و رسوخ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی زبوں حال برآمدات کی سب سے بڑی منڈی اب بھی امریکہ ہے۔ امریکہ قواعد و ضوابط میں معمولی رد و بدل کے ذریعے پہلے سے دگرگوں پاکستانی برآمدات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پھر وزارت خارجہ چینی و بیلا روس کی کمپنیوں پر پابندیوں کے خلاف بیان بازی سے کیا مقصد حاصل کرسکتی ہے؟
پاکستان کو بعض اہداف تبدیل کرنے اور بعض نعرے ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ اب کمزور کے لیے جنگ کا زمانہ نہیں ہے۔ پاکستان ہر لحاظ سے ایک کمزور ملک ہے۔ جب تک ملکی معیشت کو کسی بہتر مقام پر نہیں پہنچا یا جاتا ، اس وقت تک میزائل و ایٹمی ہتھیاروں کے زعم میں مبتلا ہونے کی بجائے امن سے رہنے اور فوجی طاقت کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوناچاہئے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی حکومت اور فوج تسلیم کرلیں کہ ہمارا بھارت کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ وہ ہم سے کئی گنا بڑا، جدید ٹیکنالوجی کا حامل اور وسیع تر وسائل رکھنے والا ملک ہے۔ ہم اسے چیلنج کرنے کی قدرت و صلاحیت نہیں رکھتے۔
پاکستان کے لیے موجودہ بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ جنگ سے گریز اور بھارت سے دوستی سے ہوکر گزرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی قیادت نہ جنگی حکمت عملی سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہے اور نہ ہی بھارت سے دشمنی کا نعرہ ترک کیا جارہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو دھوکے میں رکھنے کی بجائے سچ بتانے اور تسلیم کرنے پر آمادہ کیا جائے تاکہ عام شہری روشن مستقبل کی موہوم سی امید قائم کرسکیں۔