فوج کے بعد عدلیہ کے ججوں کو لڑانے کی کوشش
- تحریر سید مجاہد علی
- ہفتہ 04 / مئ / 2024
ڈان ٹی وی نے خبر دی ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پارٹی کے نامزد کردہ گورنر مقرر ہوجانے کےبعد وفاقی حکومت میں باقاعدہ طور سے شامل ہوجائے گی۔ ابتدائی طور پر اسے 6 وزارتیں ملیں گی تاہم اس تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔ اس دوران میں عمران خان نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کو ’اقتدار کی واپسی‘ سے مشروط کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل میں مقید پارٹی کے بانی چئیر مین کا بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے ایک بار پھر اصرار کیا ہے کہ مذاکرات صرف اسٹبلشمنٹ سے ہی ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ بات چیت مخالفین سے ہی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف بھی انہیں سے مذاکرات کرے گی جواس کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ البتہ اس بار انہوں نے مذاکرات کی پیش کش کو چند مطالبوں سے مشروط کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کہ وہ مذاکرات کے لیے ہمیشہ تیار ہیں لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ان کا چوری شدہ مینڈیٹ واپس کیا جائے اور بے گناہ قید کارکن رہا کیے جائیں۔
عمران خان کا یہ مطالبہ اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیےتین رکنی کمیٹی قائم کرنے کے اعلان کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے یہ کہہ کر کئی ہفتے سے جاری افواہوں کو ختم کردیا تھا کہ انہوں نے مذاکرات کے لیے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور، قومی اسمبلی و سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور شبلی فراز پر مشتمل تین رکنی کمیٹی فوج سے بات چیت کے لیے قائم کی ہے۔ کسی دوسرے کو اس حوالے سے بات کرنے یا بیان بازی کا اختیار نہیں ہوگا۔ اس بیان کو عمران خان کے مؤقف میں نرمی قرار دیتے ہوئے قیاس کیا جارہا تھا کہ اس کے بعد شاید اسٹبلشمنٹ کی طرف سے زیتون کی کوئی شاخ دکھائی جائے۔ بعض عناصر نے عمران خان کے بیان کو کسی ممکنہ ڈیل کا اشارہ سمجھتے ہوئےیہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ ایسا کوئی اقدام تحریک انصاف کی سیاست کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ریک
تاہم آج جاری ہونے والے بیان میں عمران خان نے نہ صرف اسٹبلشمنٹ سے اپنا ’چوری شدہ مینڈیٹ‘ واپس دینے کا مطالبہ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کے تمام قیدیوں کو رہاکیا جائے۔ ان کا بیان تندی و تیزی میں صرف اسٹبلشمنٹ پر نکتہ چینی ہی تک حدود نہیں رہا بلکہ انہوں بالواسطہ طور سے فوج کو تحریک انصاف کا سب سے بڑا مخالف قرر دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’مذاکرات صرف مخالفین سے ہوتے ہیں۔ اس لیے بات چیت بھی ان سے ہونی چاہیے جو اس وقت پی ٹی آئی کے سب سے بڑے مخالف ہیں‘۔ اس بیان میں عمران خان نے عدلیہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور خاص طور سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے فسادات سے متعلق پی ٹی آئی کی پٹیشن 25 مئی 2023 سے زیر التوا ہے، اور اس کی سماعت ابھی تک طے نہیں ہوئی۔
عمران خان نے کہا کہ 8 فروری کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دائر پی ٹی آئی کی درخواستیں بھی سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں اور پی ٹی آئی کی خواتین کی مخصوص نشستوں کا معاملہ بھی تاخیر کا شکار ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلوں نے نظریہ ضرورت کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے، فیصلے دباؤ اور دھمکی کے تحت کیے جا رہے ہیں جس سے ملک کا عدالتی نظام تباہ ہو رہا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیان دیا ہےکہ میرے اوپر کوئی دباؤ نہیں، دباؤ اس پر آتا ہے جو غلط کام کرنے سے انکار کرتا ہے۔ آپ تو تحریک انصاف کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں‘۔
عمران خان کے لب و لہجہ کی یہ تلخی کسی سیاسی یوٹرن کی بجائے، اس مایوسی کی علامت ہے کہ ان کے بار بار اصرار کے باوجود اسٹبلشمنٹ سے معاملات طے نہیں پارہے۔ اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے لیے ایک وزیر اعلیٰ اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں اپوزیشن لیڈروں کی سہ رکنی ٹیم کا اعلان کرنے کے بعد انہیں امید ہوگی کہ اب مصالحت کے لیے ان کی پیش کش کو سنجیدگی سے لیا جائے گا تاہم عسکری قیادت کی طرف سے مسلسل خاموشی کے بعد ان کی مایوسی میں اضافہ ہؤا ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی بظاہر شدید ناکامی کا شکار ہے۔ اگرچہ پارٹی کو انتخابات میں قابل ذکر کامیابی حاصل ہوئی ہے اور عام طور سے تصور کیا جاتا ہے کہ عمرا ن خان اس وقت اپنی سیاسی مقبولیت کے عروج پر ہیں لیکن اپنی اور اپنی اہلیہ کی مسلسل حراست اور رہائی کےبارے میں بے یقینی انہیں پریشان کررہی ہے۔ خیال تھا کہ تحریک انصاف ایسا عوامی احتجاج منظم کرسکے گی جس سے حکومت دفاعی پوزیشن پر آجائے گی اور اسٹبلشمنٹ کو سیاسی استحکام کے لیے تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت کرنا پڑے گی۔
پی ٹی آئی کے جو قائد اس وقت پارٹی کے معاملات دیکھ رہے ہیں، وہ ایک تو باہمی اختلافات کا شکار ہیں ، دوسرے وہ کسی قسم کا ایسا کوئی احتجاج منظم نہیں کرسکے جس سے وفاقی یا پنجاب حکومت خطرہ محسوس کرتیں۔ تحریک انصاف نے قیاس آرائیاں کی تھیں کہ موجودہ حکومت چند ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔ عمران خان نے اندازہ کیا ہوگا کہ عدالتوں سے ریلیف میں ناکامی ، سوشل میڈیا پر مہم جوئی اور احتجاج کی صورت حال ان کے لیے سیاسی امکانات پیدا کرے گی۔ تحریک انصاف اگرچہ جن تین سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرتی ہے، ان میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے تاہم پی ٹی آئی میں کسی نہ کسی سطح پر یہ امید کی جارہی تھی کہ وقت آنے پر پیپلز پارٹی کی مدد سے شہبا زشریف حکومت کو فارغ کیا جاسکے گا۔ اس طرح سٹبلشمنٹ کو سبق سکھایا جاسکے گا جو معیشت کا نام لے کر ایک کمزور حکومت کی اعانت پر اصرار کررہی ہے۔ تاہم اب ان خبروں کے بعد کہ پیپلز پارٹی باقاعدہ حکومت میں شامل ہورہی ہے، تحریک انصاف کی یہ امید بھی کمزور پڑ جائے گی۔
پیپلز پارٹی نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان دو بدو ملاقات میں کیا ہے ۔ اسی ملاقات کے دوران پنجاب اور خیبرپختون خوا میں پیپلز پارٹی کے گورنر لگانے کا معاملہ بھی طے کیا گیا ہے جس کے بعد پیپلز پارٹی نے پنجاب کے لیے سلیم حیدر اور خیبر پختون خوا کے لیے فیصل کریم کنڈی کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے حکومت میں شامل ہونے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ یوں تو پیپلزپارٹی کا یہ فیصلہ اس کی غلط سیاسی حکمت عملی کا آئینہ دار ہے۔ اپریل 2022
تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو آصف زرادری کا برین چائلڈ کہا جاتا ہے۔ البتہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد انتخابات کا آپشن اختیار کرنےکی بجائے شہباز شریف کو نامکمل قومی اسمبلی سے وزیر اعظم منتخب کرانے اور معاشی استحکام کے نام پر اتحادی حکومت قائم کرکے ملکی سیاسی ماحول میں بے اطمینانی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا گیا ۔ مسلم لیگ (ن) خاص طور سے اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کررہی ہے اور بلاشبہ تحریک انصاف نے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی اس غلط سیاسی پالیسی کا فائدہ اٹھایا۔
اس کے باوجود اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی انتخابی اتحاد قائم کرلیتیں اور 8 فروری کے انتخابات میں مدمقابل نہ ہوتیں تو ایک تو انہیں بہتر انتخابی نتائج حاصل ہوسکتے تھے ، دوسرے عوام کو یہ یقین دلایا جاسکتا تھاکہ یہ پارٹیاں محض اقتدار میں بندربانٹ کے لیے متحد نہیں ہوئیں بلکہ وہ حقیقی طور سے سیاسی اختلافات بھلا کر ملکی معیشت کی بحالی کا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری کی ساری انتخابی مہم اسی شخص اور پارٹی کے خلاف تھی جس کے ساتھ حکومت میں وہ وزیر خارجہ کے عہدے پر کام کرتے رہے تھے۔ لوگوں کے لیے یہ سمجھنا دشوار تھا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے درست تھی یا اس کی مخالفت کرتے ہوئے صحیح سیاسی راستہ اختیار کیا گیا تھا۔
تاہم انتخابات کے بعد سامنے آن ےوالے گٹھ جوڑ سے واضح ہوگیا کہ پیپلز پارٹی بھی اسی قدر اسٹبلشنٹ کی خوشنودی کی خواہاں ہے جس قدر شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) عسکری قیادت کو خوش کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ اس کا مظاہرہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے لیے ووٹ دینے کے فیصلہ کے وقت ہی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد یہی سمجھا جارہا تھا کہ پیپلز پارٹی کسی بھی وقت حکومت کا حصہ بن سکتی ہے۔
تاہم عمران خان کی طرف سے اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش اور اس کے پورا نہ ہونے پر ’جلالی‘ بیان بازی کے ماحول میں پیپلز پارٹی کے حکومت میں شامل ہونے کا اعلان ، اس قیاس کی تصدیق کرے گا کہ پارٹی قیادت درحقیقت اسٹبلشمنٹ کو راضی رکھنے کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس سے پیپلزپارٹی کے سیاسی اعتبار کو نقصان پہنچے گا۔ اس اعلان کو اسٹبلشمنٹ کی طرف سے عمران خان کی سیاسی مہم جوئی کا جواب بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی شمولیت کے بعد وفاقی حکومت ٹوٹنے یا تھوڑی مدت میں ہی نیا حکومتی بحران پیدا ہونے کی قیاس آرائیاں دم توڑ جائیں گی۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف پر واضح ہوجانا چاہئے کہ سیاسی مصالحت کی بات چیت صرف سیاسی پارٹیوں ہی کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ اور اس مقصد کے لیے پارٹی قیادت کو کچھ لچک دکھانا ہوگی ۔ کسی احتجاج کے ذریعے حکومت کی تبدیلی فی الوقت ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
تحریک انصاف میں فیصلہ سازی کا فقدان ہے اور پارٹی میں دوسرے درجے کی ساری قیادت عمران خان کی خوشنودی کے لیے ہی کام کرتی ہے جس کا لامحالہ پارٹی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی سیاسی غلطیاں تسلیم کیے بغیر پارٹیوں کے علاوہ ملک کے ہر ادارے پر بداعتمادی سے عمران خان کے سیاسی عزائم پورے ہونا محال ہے۔ انہیں سانحہ9 مئی کے حوالے سے حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنا چاہئے اور اس روز پارٹی لیڈروں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کا ادراک کرنا چاہئے۔ ایسی خود احتسابی کے بغیر عمران خان کی کوئی سیاسی چال کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔
تحریک انصاف نے پہلے 9 مئی کے واقعات کے ذریعے بعض عسکری عناصر کی مدد سے ملکی فوج کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور وہ اس میں ناکام رہی۔ اب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے بیان کی آڑ میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔ حالانکہ سیاسی پارٹی کے طور پر تحریک انصاف کو سیاسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے اور اداروں کو لڑانے کی پالیسی ترک کرنا ہوگی۔