آئی ایس پی آر کا چیلنج: نشانے پر کون؟
- تحریر سید مجاہد علی
- منگل 07 / مئ / 2024
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ پارٹی اسی وقت قومی سیاست میں کردار ادا کرسکتی ہے جب یہ سانحہ9 مئی پر قوم سے معافی مانگے گی۔ انہوں نے گزشتہ سال اس روز عسکری تنصیبات پر حملوں میں ملوث لوگوں کو سزائیں دینے کا مطالبہ کرتے ہوئےکہا کہ ’بصورت دیگر کسی بھی ملک میں ایسا ہو وہاں کے نظام انصاف پر سوال اٹھتا ہے‘۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ نے یہ پریس کانفرنس ملک میں دہشت گردی کی صورت حال اور بشام حملہ میں افغانستان کے کردار کو واضح کرنے کے لیے کی تھی لیکن اس دوران میں تحریک انصاف کے متعلق سوالات پر انہوں نے کھل کربات کی اور کسی قسم کی بات چیت کے امکان کومسترد کیا۔ انہوں نے نو مئی کے واقعات میں ملوث پارٹی اور لوگوں کو انتشار پھیلانے والا ٹولہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملکی فوج اور عسکری تنصیبات پر حملے کرنے والے انتشاری ٹولے سے کوئی فوج بات نہیں کرے گی۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ا س روز فوج پر حملوں میں ملوث عناصر اسی صورت میں کسی تعمیری سیاسی کردار کی توقع کرسکتے ہیں جب وہ اس روز سرزد ہونے والے جرائم پر صدق دل سے پوری قوم سے معافی مانگیں اور نفرت پھیلانے کی بجائے تعمیری سیاست کرنے کا وعدہ کریں۔ میجر جنرل احمد شریف نے واضح کیا کہ فوج یا ریاستی ادارے سیاسی مذاکرات نہیں کرتے اور نہ ہی یہ انہیں زیب دیتا ہے البتہ سیاسی جماعتوں میں بات چیت ہوتی ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ’ نو مئی صرف افواجِ پاکستان کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مقدمہ ہے۔ جزا و سزا کے نظام پر یقین رکھنا ہے تو نو مئی کے ملزمان کو آئین و قانون کے مطابق سزا دینا پڑے گی۔ گزشتہ برس نو مئی کے روز جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس واقعے کے شواہد عوام اور افواج کے پاس موجود ہیں۔ بعض سیاسی رہنماؤں نے چن چن کر اپنے کارکنوں کو اہداف دیے کہ انہیں کہاں حملہ کرنا ہے جب کہ کچھ شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملے کرائے گئے‘۔ سانحہ 9 میں ملوث لوگوں کوسزا دینے سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے نظام انصاف پر یقین قائم رکھنا ہے اور جزاو سزا کا وہ نظام جس پر اللہ تعالیٰ کی یہ کائنات، یہ قدرت اور یہ نظام چلتا ہے، اگر اس پر یقین قائم رکھنا ہے تو 9 مئی کے ملزمان، اس کو کرنے والے اور اس کو کرانے والے، سب لوگوں کو آئین و قانون کے مطابق انہیں سزا دینا پڑے گی۔
سانحہ نو مئی سے محض دو روز قبل منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے بارے میں میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی دوٹوک باتوں اور درشت لب و لہجہ سے واضح ہوتا ہے کہ پاک فوج نے تحریک انصاف کے ساتھ درپردہ بات چیت کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رکھا۔ اب بھی اس کا وہی مؤقف ہے جو اس نے ایک سال پہلے اختیار کیا تھا کہ ’تحریک انصاف کو سیاسی طور سے بااعتبار پارٹی بننے کے لیے نہ صرف 9 مئی کو رونما ہونےوالے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی بلکہ اس کی قیادت کو اس سانحہ پر قوم سے معافی بھی مانگنا ہوگی اور نفرت سے پاک تعمیری سیاست میں حصہ لینا ہوگا‘۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ کا یہ بیان دو لحاظ سے اہم ہے۔ ایک تو اس میں تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کی نرمی کا مظاہر کرنے کے ہر تاثر کو مسترد کیا گیا ہے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو مشورہ دیا گیاہے کہ اگر وہ عوام کی نمائیندگی کا ’حق‘ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے سیاسی رویے اور طرز عمل میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ایک پریس کانفرنس میں سانحہ 9 مئی کا ایک سال مکمل ہونے سے دو روز قبل ایک بڑی سیاسی پارٹی کے حق سیاست کے بارے ایسی گفتگو چونکا دینے والی ہے کیوں کہ پاک فوج کے ترجمان نے اپنی گفتگو میں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ فوج سیاسی مذاکرات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ یعنی وہ اصولی طور سے اپنا مؤقف بیان کرکے آگے بڑھ سکتے تھے لیکن میجر جنرل احمد شریف کا جواب اس اصولی مؤقف سے ہٹ کر ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کو مخاطب کرکے واضح کیا ہے کہ کسی ایسے ٹولے کو سیاست کا حق نہیں مل سکتا جو اپنے اداروں پر حملہ آور ہوئی ہو۔ اپنے اس مؤقف کی دلیل لانے کے لیے انہوں نے انتخابات میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو کم تر کرکے پیش کیا اور کہا کہ یہ بیانیہ غلط ہے کہ 8 فروری نے 9 مئی کو ختم کردیا۔ 8 فروری کو ٹرن آؤٹ 47 فیصد تھا۔ تقریباً ساڑھے 6 کروڑ لوگوں نے ووٹ دیا ۔ مخصوص سیاسی پارٹی، اس کے لیڈروں کا دعویٰ کہ اس پارٹی کو 1.8 کروڑ ووٹ پڑے، مکمل تصویر پیش نہیں کرتا۔ یہ کل ووٹوں کا 31 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 70 فیصد ووٹ اس بیانیے کے خلاف پڑا۔ اسے آبادی کے تناسب سے دیکھیں تو یہ کل آبادی کا ساڑھے 7 فیصد بنتا ہے۔
پارلیمانی جمہوریت میں رائے دہی کے نظام کی ایسی مسخ شدہ تصویر پیش کرکے ایک پارٹی کو نشانہ بنانے کا طریقہ کسی پروفیشنل فوج کے ترجمان کو زیب نہیں دیتا۔ فوج اگر سانحہ نو مئی کے حوالے سے حساس ہے تو اسے ملک میں سیاسی آزادی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کے لیے آئینی تقاضوں کے بارے میں بھی محتاط طرز گفتگو اختیار کرنا چاہئے تھا۔ اس اصول کو مانا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف یا کسی بھی دوسری پارٹی کو فوج سے سیاسی بات چیت کی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔ البتہ جس انداز میں یہ مؤقف بیان کیا گیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ فوجی قیادت کو سیاسی لیڈروں سے مواصلت و مشاورت پر تو کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے لیکن 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے وہ تحریک انصاف کو اس قابل نہیں سمجھتی۔
یہاں یہ یاددلانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ سیاسی معاملات میں مداخلت کی روایت فوجی قیادت نے ہی ڈالی ہے اور بار بار اعلانات کے باوجود ملک میں اس تاثر کو زائل نہیں کیا جاسکا کہ اس وقت تمام سیاسی و حکومتی امور فوج کی مرضی و منشا کے مطابق طے پارہے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان اس تاثر کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اس قیاس کو یقین میں تبدیل کیاہے کہ تحریک انصاف فوج کی ناراضی کی وجہ سے سیاسی مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔ یہ سیاسی طرز عمل فوج کی بیان کردہ حکمت عملی سے متصادم ہے۔
اسی طرح سانحہ 9 مئی کی عدالتی تحقیقات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اسے 2014 میں ہونے والے دھرنے اور پارلیمنٹ کے علاوہ پی ٹی وی پر حملوں کی تحقیقات سے مشروط کیا ہے۔ میجر جنرل احمد شریف کو یاد رکھنا چاہئے تھا کہ ایک تو 2014 کے دھرنے اور اس دوران میں رونما ہونے والے واقعات کی تمام تر ذمہ داری پاک فوج کی قیادت پر عائد کی جاتی ہے۔ اگر فوج اس دھرنے میں اپنے اداروں یا سابقہ جرنیلوں کے ملوث ہونے کا اعتراف کرنا چاہتی ہے تو اسے خود احتسابی کے طریقہ کو بروئے کار لاتے ہوئے ماضی قریب کے اس بدنما وقوعہ کی حقیقت خود بیان کرنی چاہئے اور کسی طور اسے 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشل تحقیقات کے ساتھ ملا کر بیان نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس ہتھکنڈے سے فوج کا ترجمان ایک منظم ادارے کا مؤقف بیان کرنے کی بجائے کسی سیاسی تحریک کا ایجنڈا پیش کرتا دکھائی دے رہا تھا۔
اس حوالے سے یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ تحریک انصاف کے بیشتر لیڈروں کو عدالتیں 2014 کے دھرنے کے دوران میں ہونے والی ہنگامہ آرئی، پارلیمنٹ و پی ٹی وی پر حملوں سے بری کرچکی ہیں۔ یعنی ان لوگوں کی بے گناہی پر عدالتوں نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اب پاک فوج ان وقوعات کی ذمہ داری سے متعلق اگر عدالتی فیصلوں کو درست نہیں سمجھتی اور اس کے پاس عدالتی حکم ناموں کے برعکس معلومات موجود ہیں تو انہیں کسی دوسرے سانحہ سے مشروط کیے بغیر سامنے لانا فوجی اداروں کی قومی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ جہاں تک سانحہ 9 مئی کی عدالتی تحقیقات کا تعلق ہے تو فوج کو اس کی مخالفت کرنے کی بجائے ،اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے بلکہ مطالبہ کرنا چاہئے تاکہ اس حوالے سے تحریک انصاف کے قائد فوج پر ملوث ہونے کے جو الزام عائد کرتے ہیں ، ان کی حقیقت سامنے آئے اور اس افسوسناک قومی سانحہ میں ملوث اصل چہرے پہنچانے جاسکیں۔ البتہ اگر فوج تحقیقات سے گریز کا راستہ اختیار کرے گی لیکن ملوث لوگوں کو سزائیں دینے کا مطالبہ کرتی رہی گی تو اس کے طرز عمل کو سیاسی طور سے متعصبانہ سمجھا جائے گا۔
پاک فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ نو مئی کے واقعات میں کسی بھی طرح ملوث لوگوں کو سزائیں دینا ملکی عدالتی نظام کا امتحان ہے۔ اس بیان کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ اگر عدالتیں فوج کی مرضی ومنشا کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں مبینہ طور سے ملوث لوگوں کو سزائیں نہیں دیتیں تو ملکی نظام عدل ناکام ہوگا۔ یہ عدلیہ کو باالواسطہ انتباہ ہے۔ حالانکہ عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی براہ راست ذمہ داری صرف ججوں یا عدالتی نظام پر عائدنہیں کی جاسکتی بلکہ استغاثہ اور وکیلوں کی حکمت عملی بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاک فوج کا یہ سخت مؤقف اس خواہش کا اظہار لگتا ہے کہ ملکی عدالتی نظام اس کی مرضی و منشا کے مطابق نتائج فراہم کرے۔ اگر ملکی سیاسی پارٹیاں اور عدالتیں فوج کی خواہش و مرضی کے مطابق کام کرنے لگیں گی تو آئینی عمل داری کا اصول سب سے پہلے قربان ہوگا۔