کیا پاکستان 9 مئی سے آگے بڑھ سکے گا؟

9 مئی کو شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ  میں  کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔  گزشتہ  سال اس دن رونما ہونے والے واقعات افسوسناک تھے ۔سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے  ایک سیاسی پارٹی  نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اس پر پاک فوج کا رد  عمل اتنا ہی شدید تھا۔    یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی تقدیر 9  مئی کے ساتھ منسلک ہوچکی ہے اور ملک کو اس سے آگے بڑھنے کا راستہ  سجھائی نہیں دے رہا۔

سیاسی احتجاج میں غلطیوں کا امکان موجود رہتا ہے اور عام طور سے سیاسی قیادت اپنی غلطی کا ادراک کرکے، اصلاح احوال کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم  سانحہ  9 مئی کے حوالے سے  تحریک انصاف نے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ واقعہ درحقیقت اسے پھنسانے کے لئے رچایا جانے والا ڈرامہ تھا۔ عمران خان اسے فالس فلیگ آپریشن کہتے رہے  ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف نے گزشتہ روز  پریس کانفرنس میں اس دعوے کو  تحریک انصاف کی طرف سے پروپیگنڈے کا ایک نیاطریقہ قرار دیا ۔ انہوں نے اس وقت تک تحریک انصاف کو معاف کرنے سے انکار کردیا جب تک پی ٹی آئی کے لیڈر گزشتہ سال 9 مئی کو رونما ہونے والے واقعات پر تہ دل سے معافی مانگ کر نفرت کی سیاست ترک کرنے کا ارادہ ظاہر نہ کریں۔

آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل کا یہ مؤقف دو لحاظ سے  ملکی سیاسی ماحول میں خطرے کی گھنٹی کے طور پر  سامنے آیا ہے۔ ایک تو  تحریک انصاف کی طرف سے گزشتہ کچھ عرصہ سے  فوج کے ساتھ مذاکرات کرنے اور معاملات طے کرنے کی خواہش و ضرورت کا اظہار کیا جارہا تھا۔  فوج کے ترجمان نے اسے یکسر مسترد کیا ہے۔ بلکہ سانحہ  9 مئی کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے  اسے ملکی عدالتی نظام کا امتحان قرار دیا۔  یوں ایک اہم اور مقبول سیاسی گروہ کو انگیج کرنے اور اسے بدستور قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنانے کا راستہ مسدود کیا۔ دوسرے   یہ صورت حال اس حوالے سے بھی تکلیف دہ ہے کہ فوج  مفاہمت کی بجائے ’ڈکٹیشن‘ کی حکمت عملی پر عمل پیرا  دکھائی دی۔ یہ طرز عمل ملک میں سیاسی آزادی کے علاوہ اظہار رائے کے بنیادی حق کے حوالے سے بھی ناقابل قبول رویہ ہے۔

اگرچہ عمران خان نے  اپنے  طور پر فوج کے ساتھ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنے کا ہتھکنڈا ختیار کرنے  کی کوشش کی  ۔ فوج کے ساتھ بات چیت کے لیے سہ رکنی کمیٹی کا اعلان کرنے کے  چند روز  بعد ہی   یہ دلیل پیش کی کہ’ مذاکرات مخالفین کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس وقت جو لوگ تحریک انصاف کے سب سے بڑے مخالف ہیں،  بات چیت بھی انہی کے ساتھ ہوگی‘۔ مفاہمت کی خواہش پالتے ہوئے فوج کو  سب سے بڑا مخالف قرار دینے کا طریقہ درحقیقت فوج کو  یہ اشارہ دینا تھا کہ اگر آپ نے ہماری طرف سے بات چیت کی  خواہش کا  مثبت جواب نہ دیا تو  اس میں آپ ہی کا نقصان ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈر اس گمان میں مبتلا ہیں کہ انہیں عوامی تائید حاصل ہے ، اس لیے ان سے بات کرنا اور کسی بھی طرح موجودہ  سیاسی انتظام کا حصہ بنانا فوج کی مجبوری ہے۔

فوج نے تحریک انصاف کی سیاسی  طاقت یا عوامی مقبولیت کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا ہے۔ میجر جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کا پیغام  یہ تھا کہ فوج تحریک انصاف  کی طرف سے مقبولیت کے دعوؤں کو  نہیں مانتی کیوں  کہ عوامی تائید کا جو حسابی کلیہ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے پیش کیا ہے، اس کے مطابق تحریک انصاف انتخابات میں  ایک کروڑ اسی  لاکھ ووٹ لینے کے باوجود کل آبادی میں صرف 7 فیصد  لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔  اس دلیل کی مضحکہ خیزی سے قطع نظر  پاک فوج کے  ترجمان کے اس  اعلان  کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ  وہ تحریک انصاف کو نہ تو مقبول پارٹی  مانتے  ہیں، نہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عوام کا بہت بڑا طبقہ اس وقت عمران خان کی پشت پر  ہے۔ اور نہ ہی اسے یہ قبول ہے کہ تحریک انصاف کو سانحہ  9 مئی پر غیر مشروط معافی کے بغیر کسی بھی طرح کا کوئی سیاسی کردار  دیا جائے۔

9 مئی سے  دو روز پہلے آئی ایس پی آر  کے ذریعے سامنے آنے والے فوج کے مؤقف سے یہ واضح ہوگیا کہ اس روز رونما ہونے والے واقعات  کم از کم فوج کے نزدیک انتہائی سنگین تھے اور وہ اس پر  تحریک انصاف کو کسی صورت معاف کرنے پرآمادہ نہیں ہے۔ حالانکہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ  انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کا 31 فیصد لینے والی پارٹی کو کیوں کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اور جب 2018 میں فوج نے تحریک انصاف کو اقتدار دلوانے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی تب  بھی  پارٹی کو تقریباً اتنی ہی تعداد میں ووٹ ملے تھے اور  اس کے سیاسی مخالفین کی انتخابی حیثیت بھی تقریباً ایسی ہی تھی جسے اب بہت بھاری اکثریت کی نمائیندہ اکثریت سمجھا جارہا ہے۔ حالانکہ  پانچ سال قبل اسی  ’اکثریت‘ کی  نمائیندگی کرنے والے لیڈروں اور پارٹیوں کو ریاستی عتاب کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور اس  انتظام کی بالواسطہ نگران فوج ہی تھی۔

فوج اور تحریک انصاف کے درمیان   سانحہ 9 مئی  پر موجود یہ اختلاف قومی ترقی کے لیے رکاوٹ کا سبب بنا ہؤا ہے لیکن بظاہر نہ تحریک انصاف سیاسی پوزیشن تبدیل  کرنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی فوج کسی صورت ان تمام ملزموں کو سزا دلائے بغیر چین سے بیٹھنے پر تیار ہے جو اس کے خیال میں گزشتہ سال 9 مئی کو عسکری تنصیبات  پر حملوں میں ملوث تھے۔  اس کا ایک حل  یہ ہوسکتا تھا کہ  تحریک انصاف کے لیڈر   گزشتہ سال 9 مئی کے دن  ہونے والے واقعات کی مذمت کرتے اور اسے سیاسی غلطی کے طور پر تسلیم کرکے  سپاہ پاکستان کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا جاتا تاکہ تناؤ میں کمی آتی اور فوج کا یہ تاثر ختم کیا جاسکتا کہ ایک سیاسی پارٹی نے فوج کو آپس میں لڑانے اور فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کا ماحول تیار کرنےمیں کردار ادا کیا تھا۔ لیکن عمران خان نے  ان واقعات کو  تحریک انصاف کو پھنسانے کا ڈھونگ قرار دے کر سیاسی لحاظ سے ایک نامناسب حکمت عملی اختیار کی۔ اس سخت گیر رویہ کی وجہ سے بھی فوج نے کوئی لچک دکھانے سے گریز کیا ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کی مقبولیت سے خوفزدہ اور اس کی جگہ اقتدار پر قبضہ کرنے والی پارٹیاں پوری طرح  تحریک انصاف اور فوج کے درمیان پڑنے والی دراڑ کو گہرا کرنے میں مصروف ہیں۔ سانحہ 9 مئی   کی برسی کے موقع پر صدر آصف زرادری اور وزیر اعظم شہباز شریف کے بیانات اس سیاسی کوتاہ نظری کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس موقع پر صدر مملکت   آصف  علی زرداری نے کہا ہے کہ 9 مئی کو پاکستان کی تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ 9 مئی کو تشدد کے ذمہ داران کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔انہوں نے  9 مئی کے پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کو سیاسی طور پر مشتعل ہجوم نے ملک بھر میں کہرام مچایا اور سرکاری املاک  و فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔ 9 مئی کے واقعات سے ملک کا تاثر بری طرح متاثر ہوا اور پرتشدد واقعات سے صرف پاکستان کے دشمنوں کے مفادات پورے ہوئے۔یہ حملے ریاستی رٹ ، قانون کی حکمرانی اور اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش تھے۔ صدر آصف علی زرداری نے مسلح افواج اور اس کے اداروں پر فخر کا اظہار کیا۔

اسی طرح وزیراعظم شہباز  شریف نے  ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ ‏9 مئی محض تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن نہیں، یہ ریاست پر سیاست قربان کرنے اور سیاست کے لیے ریاست پر حملہ کردینے والی دو سوچوں کو الگ الگ کردینے والا دِن ہے۔ ایک طرف وطن پر لہو نچھاور کرنے والے قوم کے عظیم بیٹے، ان کے عظیم اہل خانہ، محب وطن عوام ہیں تو  دوسری طرف نفرت کی آگ میں سلگتے وہ کردار ہیں جن کے دِل میں ریاستی مفادات کا کوئی درد ہے، نہ آنکھ میں قومی یادگاروں، ریاستی اداروں، آئین و قانون کے لئے کوئی عزت وشرافت ہے۔قوم اپنے مجرموں کو نہیں  بھلائے گی۔

ان بیانات کی شدت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ  سانحہ 9 مئی صرف  تحریک انصاف اور فوج کے باہمی اختلاف کا معاملہ نہیں ہے بلکہ دیگر سیاسی قوتیں اس بحران کو اپنے سیاسی مقاصد  کے لیے استعمال کرنے میں  کوئی حجاب محسوس نہیں کرتیں۔ یہ صورت حال گو کہ افسوسناک اور ملک میں سیاسی جمہوری روایت کے فروغ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن  سیاسی عمل کو اقتدار کا راستہ سمجھنے والے  لیڈروں سے اس  سے مختلف کردار کی توقع بھی نہیں کی  جاسکتی۔

بداعتمادی کی یہ فضا پیدا کرنے میں تحریک انصاف  کا بھی حصہ ہے۔ انتخابات کے فوری بعد تمام تجزیہ نگار و مبصر سیاسی مفاہمت و مصالحت کی  ضرورت پر زور دےرہے تھے لیکن عمران خان تین سیاسی پارٹیوں کو چور اچکا قرار دے کر ان سے کسی بھی قسم کے رابطے سے انکار کررہے تھے۔ اب ایک طرف   چند   چھوٹی مذہبی و سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر احترام آئین کی تحریک چلائی جارہی  ہے تو دوسری طرف اقتدار کے لیے فوج سے ہی مذاکرات پر اصرار کیا جارہا ہے۔ حالانکہ اگر ملک میں آئینی حقوق’ غصب ‘کرنے والی فوج سے بات چیت ہوسکتی ہے  تو  وسیع تر قومی مفاد اور  جمہوری روایت مستحکم کرنے کے لیے ان سیاسی  عناصر سے مذاکرات کیوں نہیں ہوسکتے جنہیں سیاسی ضروتوں کے تحت ’چور‘  قرار دیا جاتا ہے۔

فوج کے سخت گیر مؤقف، تحریک انصاف کی ہٹ دھرمی اور اقتدار پر قابض سیاست دانوں  کی مفاد پرستی کی موجودہ صورت حال میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ قوم 9 مئی  سے آگے بڑھ سکے گی۔ لگتا ہے  کہ ملکی سیاست  طویل مدت تک اس سانحہ کے سایے ہی میں  رہے گی۔ حالانکہ یہ صورت حال قومی اعتماد سازی کے بنیادی منصوبے کو شدید نقصان پہنچاتی رہے گی۔

loading...