برطانیہ کے مسلمانوں کا احتجاجی ووٹ
- تحریر فہیم اختر
- منگل 14 / مئ / 2024
جب سے اسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا ہے تب سے برطانوی مسلمانوں میں ایک بے چینی بلکہ یوں کہہ لیں کہ مایوسی پائی جا رہی ہے۔ برطانیہ میں بسے مسلمان جتنا اپنے ملک برطانیہ سے محبت کرتے ہیں اتنا ہی برطانیہ کی سیاسی، معاشی، ثقافتی اور ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
جس سے برطانیہ دنیا کو اپنی رواداری اور ہر قوم و مذہب کا ملک کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے۔تاہم وہیں بہت سارے مسلمان ایسے ہیں جنہیں برطانیہ کی دوغلی پالیسی پر ناراضی کے ساتھ مایوسی بھی ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ دنیا بھر میں جب مسلمانوں کے مسائل در پیش آتے ہیں تووہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتتا ہے۔ اور جس کے نتیجے میں برطانوی مسلمان ناراض اوربے بس ہو کر برطانوی حکومت، جمہوریت، پارلیمنٹ اور سوسائٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جس گاہے بگاہے مختلف سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے۔
چند مہینے قبل جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو برطانیہ کے زیادہ تر کونسل نے اشتہار لگا کر یہ پیغام دیا کہ" یوکرینین آر ویلکم"،یعنی ہم یوکرین کے لوگوں کا استقبال کرتے ہیں۔ اور وہیں لوگوں سے اپیل کی گئی کہ لوگ اپنے گھروں کے خالی کمروں میں یوکرینین کو رہنے کے لیے جگہ فراہم کریں۔اس کے علاوہ ان اشتہاروں میں انسانی ہمدردی کا بھی جذبہ استعمال کیا گیا جس سے برطانیہ کے لوگوں کا دل پگھل گیا اور انہوں نے بانہیں پھیلا کر یوکرینین کو برطانیہ میں پناہ دی۔اور بیشتر یوکرینین اب تو برطانیہ میں کام کاج بھی کر رہے اور اپنی گوری رنگت کے سبب یہاں گھل مل بھی گئے ہیں۔
لیکن پچھلے سال اکتوبر سے جب اسرائیل نے فلسطینیوں کو مارنا شروع کیا ہے، تو نہ تو برطانیہ نے انہیں پناہ دینے کی بات کی ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہے بلکہ اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی کئے جارہے ہیں۔ اب ان باتوں سے کیا مطلب نکالا جائے۔ کیا برطانیہ مسلمانوں کی جان ومال کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کا سلوک امتیازی ہوتا ہے؟ یہ سوال برطانیہ میں بسے مسلمانوں سے لے کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہن میں ایک سوال پیدا کر دیتا ہے۔ جس کا جواب عام طور پر منفی ہوتا ہے۔گزشتہ ہفتے کے بلدیاتی انتخابات نے ظاہر کیا کہ لیبر پارٹی کے خلاف مسلم کمیونٹی کااحتجاجی ووٹ کامیاب رہا۔اس کے امیدوار روایتی لیبر سیٹوں سے ہار گئے۔ لہذااس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ مسلم احتجاجی ووٹ کو لیبر اور کنزرویٹیو اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو سنجیدگی
سے لینا چاہیے۔ جسے انہوں نے انتخابی مہم میں نظر انداز کیا اور فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کی کھل کر حمایت بھی کی۔
لیکن کیا یہ نتائج برطانوی سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھول دیں گے؟ مجھے نہیں لگتا ایسا ہوگا۔ کیونکہ برطانیہ ہمیشہ سے ہی اسرائیل کا حمایتی رہاہے۔ حالیہ انتخابی نتائج سے یہ ظاہر ہوگیا کہ مسلمانوں کے پاس اخلاقی بلندی ہے۔ وہ غزہ میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے انسانی ہمدردی کے لیے کھڑے ہوئے اور مجھے امید ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی مظلوم لوگوں کے لیے دوبارہ یہ کام کریں گے۔جو کہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔برطانیہ میں مسلمانوں کا لیبر اور کنزرویٹیو پارٹی کو ووٹ نہ دینے پر ان سیاست دانوں اور سماجی مبصرین کی تنقید کے بر عکس میرا ماننا ہے کہ مسلمان برطانوی معاشرے میں اب بھی اچھی طرح سے شامل ہیں اور تمام معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ برطانوی مسلمانوں کی تیسری اور چوتھی نسل انگریزی بولتی ہے، مقامی فٹ بال ٹیموں کو سپورٹ کرتی ہے، برطانوی ڈیزائنر کپڑے پہنتی ہے اور لذیزفش اینڈ چپس سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
ایک صحت مند انضمام جو اچھے برطانوی شہری پیدا کرے گا، اس کا انحصار اس کمیونٹی پر ہے جو خود اعتمادی اور عزت نفس رکھتی ہے۔ہم انضمام کے اس ماڈل کو قبول نہیں کر سکتے جس کے تحت مسلمانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا مذہبی امتیاز کھو دیں، اور برطانوی طرز زندگی اختیار کریں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام نہ صرف مسلمانوں کے لیے اچھا ہے بلکہ برطانیہ کے لیے بھی اچھا ہے۔ ایک متحد جماعت کا تصور اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے،" اور اللہ کی رسی کو مل کر تھام لو، اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کا احسان یاد کرو، تم دشمن تھے، اس نے تمہارے دل جوڑے اور اس کے فضل سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ آپ جہنم کی آگ کے دہانے پر تھے، اور اس نے آپ کو بچا لیا۔ اللہ اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ"۔ (سورۃ آل عمران:(103)
اسلامی تعلیمات میں برادری، اتحاد اور مضبوط سماجی تعلقات کے موضوعات مشترک ہیں۔ نماز پنجگانہ اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کے علاوہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر نماز کی قدر و اجر ستائش، کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں کو مل کر کھانے اور دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ کھانا بانٹنے کی ترغیب دی۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے طور پر تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنی ثقافت اور بات کو لوگوں تک پہچانے کے لیے انہیں اپنی تقریب میں شامل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ مسلمان بھی اسی طرح سے اپنے اپنے علاقوں میں تقریبات کرتے ہیں اور وہ خوش بھی ہیں۔ مسلم کمیونٹی کوئی ایک لسانی، ایک رنگی، ایک ثقافتی یا ہم جنس برادری نہیں ہے۔ یہ ایک کثیر الثقافتی معاشرہ ہے۔
کسی بھی قوم کا سماجی سرمایہ لوگوں کے درمیان رابطوں کی مضبوطی، خاندانی اکائی کی ترقی، اعتماد، باہمی افہام و تفہیم، اور مشترکہ اقدار سے ماپا جاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کمیونٹی کے ارکان کو پابند کرتی ہے اور تعاون پر مبنی کاروائی کو ممکن بناتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ میرا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو داخلی تنوع کے ساتھ ایک مذہبی گروہ کے طور پر دیگر کمیونٹیز کے ساتھ مضبوط روابط استوار کرنا چاہیے۔ ہمیں دوسری کمیونیٹیز کے ساتھ رسمی اور غیر رسمی رابطے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے باہمی فاصلوں اور دشمنی میں کمی آئے گی۔ مسلمانوں کو وسیع تر معاشرے کے خوف کو کم کرنا چاہیے۔ جس کے لیے پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا چاہیے۔
مسلمان پر امن اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہیں جو ناقابل یقین حد تک محنت کرتے ہیں۔ لہذا ہم اپنے سیاستدانوں، رہنماؤں اور میڈیا کی طرف سے بہتر نمائندگی کے مستحق ہیں۔تاہم دیکھا جارہاہے کہ فی الحال میڈیا، سیاست دانوں اور عوامی ایجنسیوں کی طرف سے ہمارے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے۔مسلم ووٹروں نے لیبر یا کنزرویٹیو پارٹی کو ووٹ نہ دے کر اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا جو سیاسی پختگی کی واضح علامت ہے۔قومی سطح پر 45سے زیادہ پارلیمانی نشستیں ہیں جہاں مسلم ووٹ عام انتخاب کے نتائج کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
مسلمانوں کے احتجاجی ووٹ نے یہ بھی ظاہر کیا کہ مسلمان انسانی مسائل کا خیال رکھتے ہیں اور وہ غزہ میں جاری نسل کشی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ کہاں ہیں انسانی حقوق کے علمبردار انگریز؟ کیا لیبر پارٹی کے لیڈرکئیر اسٹارمر انسانی حقوق کے وکیل نہیں تھے؟ وہ فلسطینیوں کے قتل عام پر کیوں نہیں بول سکتے؟ ہاں یہ سچ ہے کہ دنیا اپنا ضمیر کھو چکی ہے اور بے حس ہوگئی ہے۔ لیکن مسلمان فخر کے ساتھ انصاف اور مہربانی کی اقدار کو تھامے ہوئے ہیں۔ جو کہ ایک قابل فخر لمحہ ہے۔