قومی اسمبلی میں فوج کے آئینی کردار پر بحث
- تحریر سید مجاہد علی
- منگل 14 / مئ / 2024
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان قومی اسمبلی میں سخت الفاظ کا تبادلہ ہؤا ہے اور آئینی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے فریقین نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے تند و تیز باتیں کی ہیں۔ گزشتہ دو دنوں کے دوران میں البتہ آئین کی پاسداری اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے لوگوں کو سزا دینے کے معاملے پر ہونے والی گفتگو اس لحاظ سے صحت مندانہ ہے کہ ایک تو یہ پارلیمنٹ میں ہوئی اور دوسرے الزامات عائد کرنے کے بعد دلیل کے ذریعے مؤقف بیان کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ ملک میں آئین کی بالادستی اسی وقت ممکن ہوگی جب تمام سیاسی پارٹیاں اس ایک نکتہ پر متفق ہوں گی اور اس کے بعد گروہی ایجنڈا کی تکمیل اور یا ذاتی ہوس اقتدار کے لیے فوج کا آلہ کار بن کر جمہوری طریقے کو برباد کرنے کی کسی کوشش کا حصہ بننے سے گریز کرنے کا وعدہ کیا جائے گا۔ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ سیاسی ہم آہنگی سے آئینی بالادستی یقینی بنانے اور فوی اداروں کو مقررہ حدود میں واپس لانے کا عمل محض ایک مشکل اور صبر آزما سفر کا آغاز ہوگا۔ ایسے کسی اتفاق رائے کو مکمل کامیابی سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔
اب تک ملک میں یہ صورت حال ملاحظہ کی جارہی ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق سب ہی اس کشتی کے سوار ہونا چاہتے ہیں جس کی پتوار فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے خلاف بات کرنے والوں کی پریشانی یہ ہوتی ہے کہ ’کشتی بان‘ انہیں سوار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ملکی سیاست کی اس ’کشتی‘ کا سب سے بڑا نقص یہی ہے کہ یہ بیک وقت سب کو خوش نہیں کرسکتی۔ سواری سے محروم ہونے والے ناکا م ہونے پر ہذیان بکنے لگتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے علاوہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر یں اپنے اپنے طور پر اسی رویہ کا اظہار ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر قانون نذیر تارڑ اور تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کی تقریروں میں بیک وقت شدت پسندانہ خیالات کے علاوہ مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرنے کی خواہش البتہ ملکی جمہوری نظام کے لیے امید کی کرن ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے کے ماضی کو کھنگالنے کی بجائے اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے اور مستقبل میں پیش قدمی کرتے ہوئے ان غلطیوں سے بچنے کا یقین دلانا چاہئے۔ ملکی سیاست میں نمایاں کوئی بھی فریق ابھی تک شعور کی اس سطح تک نہیں پہنچا ۔ اسی لیے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا منظر تو دیکھنے میں آرہا ہے لیکن بگاڑ کی اصلاح کا راستہ تلاش کرنے پر اتفاق رائے دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ اگر فریقین پارلیمنٹ میں مکالمہ پر راضی ہیں اور آئین کو مقدس دستاویز مان کر اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کی خواہش رکھتے ہیں تو کسی سطح پر عملی اقدامات بھی ممکن ہوسکتے ہیں۔ تاہم اس کے لیے ایک دوسرے کی کردار کشی کا طرز عمل ترک کرکے باہمی احترام کو شعار بنانا ضروری ہوگا۔
اس وقت ملکی سیاست میں سرگرم سب کردار ہی سیاسی معاملات میں عسکری اداروں کی مداخلت کے سہولت کار رہے ہیں۔ اگرچہ حجت کے لیے یہی کہا جاتا ہے کہ فوجی سربراہان نے مارشل لا لگائے اور عدالتوں نے ان کی توثیق کرکے ایسے غیر آئینی اقدامات پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ فوجی حکمرانی میں سیاسی مہروں کے کردار کا ذکر محض بیان بازی تک محدود رہتا ہے۔ حالانکہ فوجی لیڈروں نے جب بھی ملکی سیاست میں مداخلت کی ہے تو وہ سیاسی عناصر کی مدد و تعاون سے ہی کامیاب ہوسکے تھے۔ بصورت دیگر شاید ان کی حکمرانی کے ادوار مختصر ہوتے۔ سیاست دانوں کو ایک طرف فوجی حکمرانوں نے سزا دی اور انہیں سیاسی عمل سے باہر رکھنے کے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے تو دوسری طرف فوجی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والے سیاسی عناصر نے بھی اپنی اس حیثیت کو کسی جمہوری عمل کی بحالی کی بجائے مخالفین کی ’سرکوبی‘ کے لیے استعمال کیا۔ اس حوالے سے ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر خوشیاں منانے والوں اور نواز شریف کے خلاف پرویز مشرف کے مارشل لا پر مٹھائیاں بانٹنے والوں کے چہروں پر غور کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ چند چہرے نہیں ہیں بلکہ قومی سیاسی مزاج کی مستقل خصوصیت بن چکی ہے۔ موقع ملنے پر ہر سیاسی لیڈر عملیت پسندی کے نام پر یا جاہ اقتدار میں اس افسوسناک عمل کا حصہ رہا ہے۔
اس وقت بھی ملک میں نام نہاد جمہوری حکومت قائم ہے لیکن فوج کا کردار سب سے زیادہ زیر بحث رہتا ہے۔ تجزیہ نگار و مبصرین کے علاوہ تقریباً سب ہی سیاست دان فوج کو قومی سیاست کا ناگزیر اسٹیک ہولڈرمانتے ہیں۔ البتہ سیاسی ضرورتوں کے تحت کچھ اس کا ہاتھ تھامے اقتدار کا مزہ لوٹ رہے ہیں اور کچھ اس لمس کی چاہ میں آئین کی دہائی دے رہے ہیں۔ عمر ایوب نے گزشتہ روز آئینی حوالے دیتے ہوئے اسی طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔
عمر ایوب نے آئینی شقات کا حوالہ دیتے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرنے والے والوں کے خلاف آئینی شق 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی پریس کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکیورٹی ایجنسیاں ریاست نہیں ہیں بلکہ ریاست کی معاونت پر مامور ہیں۔ ریاست وفاقی حکومت، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور ٹیکس جمع کرنے والی اتھارٹی پر مشتمل ہوتی ہے۔ انٹیلی جنس و سکیورٹی ادارے ریاست کی معاونت کے لیے ہوتے ہیں، وہ ریاست نہیں ہیں۔ آئین کی شق 203 کے تحت فوجی افسروں کے حلف کا حوالہ دیتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل کی پریس کانفرنس سیاسی معاملات میں مداخلت کے مترادف تھی۔ یہ کام صرف سیاسی جماعتیں اور منتخب لیڈر کرسکتے ہیں۔ آئین کے مطابق سکیورٹی ادارے سیاست میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
عمر ایوب نے کہا کہ آئین کی شق 5 کے تحت فوجی افسروں سمیت تمام پاکستانی شہری ریاست کے وفادار ہوتے ہیں۔ لیکن فوجی افسروں نے وفاداری کا حلف بھی اٹھایا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی ریڈ لائن ہے جسے کوئی پاکستانی عبور نہیں کرسکتا۔ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے فرائض انجام دینے چائیں۔ جب سب ادارے آئین کے تحت کام کریں گے تب ہی ملک ترقی کرے گا۔ انہوں نے آزادی رائے کے بارے میں آئین کی شق 19 کا حوالہ بھی دیا۔ اور ایکس پر پندی کو اس شق کی خلف ورزی قرار دیا۔
یہ گفتگو کرتے ہوئے البتہ عمر ایوب کے پیش نظر موجودہ حکومت تھی جس کے بارے میں تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ وہ فارم 47 کی پیداوار ہے۔ یعنی وہ مختصر لفظوں میں موجودہ حکومت کو ناجائز اور اپنی پارٹی کے حق حکومت کو جائز قرار دے رہے تھے۔ یہاں تک ان کی بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ اس سوال کا جواب دینے پر آمادہ نہیں ہوں گے کہ اگر تحریک انصاف ملک میں آئین کی بالادستی چاہتی ہے۔ سیاسی معاملات میں مداخلت تو کجا کسی فوجی افسر کو سیاسی گفتگو کی اجازت دینے پر بھی آمادہ نہیں ہے تو ان کی پارٹی کے بانی چئیرمین عمران خان کس بنیاد پر فوج سے بات چیت کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں؟ جیسے آئین کی خلاف ورزی قابل تعزیر جرم ہے ، ویسے ہی کسی دوسرے کو خلاف آئین اقدام پر اکسانا بھی آئین کی خلاف ورزی سمجھی جانی چاہئے۔ عمران خان جب فوج سے بات چیت کے ذریعے اپنا ’چوری شدہ مینڈیٹ‘ واپس لینے کی بات کرتے ہیں تو کیا وہ اس ریڈ لائن کو عبور نہیں کرتے جس کا ذکرکرتے ہوئے عمر ایوب نے قومی اسمبلی میں دعویٰ کیا ہے کہ کوئی پاکستانی آئین پاکستان کی وفاداری سے انحراف نہیں کرسکتا۔ یہ ریڈ لائن ہے۔ عمر ایوب نے قومی اسمبلی میں آئینی حوالوں سے پر مغز زتقریر کی ہے، اس لیے انہیں یہ بھی بتا دینا چاہئے کہ کیا آئین میں کسی سیاسی پارٹی کے فوج کے ساتھ سیاسی امور پر بات چیت کی گنجائش موجود ہے۔ اگر یہ طریقہ آئینی نہیں ہے تو انہیں آئینی تفہیم کے مطابق اپنے لیڈر کو اس ریڈ لائن کا احترام کرنے پر آمادہ کرنا چاہئے یا ان کے مؤقف سے لاتعلقی کا اعلان کرکے تحریک انصاف سے الگ سیاسی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ قول و فعل میں تضاد کا یہی عالم رہے گا تو کیسے تمام اداروں کو آئین کا احترام کرنے پر آمادہ کیا جائے گا؟
عمر ایوب کی تقریر کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی شعلہ بیانی ہر لحاظ سے افسوس ناک تھی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ آئین کی خلاف ورزی پر شق 6 کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔ البتہ اس کا آغاز ملک میں پہلا مارشل لا لگانے والے جعلی فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہونا چاہئے۔ ان کی لاش کو قبر سے نکال کر پھانسی پر لٹکانا چاہئے۔ ایوب خان نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کے ذریعے ملک کا راستہ تبدیل کیا تھا۔ اس کے بعد سے ملک اب تک مستحکم نہیں ہوسکا۔ خواجہ آصف یہ اشتعال انگیز ’دلیل ‘ صرف اس لیے دے رہے تھے کیوں کہ اپوزیشن لیڈر مرحوم ایوب خان کے پوتے ہیں۔ حالانکہ جمہوری و قانونی بنیاد پر کسی دوسرے کو اپنے آبا و اجداد کی غلطیوں کا ذمہ دار نہیں سمجھا جاسکتا۔ اور نہ ہی اس بنیاد پر کسی شخص کے خلاف طعن و تشنیع ہونی چاہئے۔ اس قسم کی گفتگو کا ایک ہی مقصد تھا کہ حکمران جماعت کے پاس اپوزیشن لیڈر کی آئینی دلیل کا کوئی جواب موجود نہیں تھا لہذا اشتعال انگیز گفتگو کے ذریعے ایوان میں بدمزگی پیدا کی گئی تاکہ آئینی اصول پر اتفاق رائے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ اسی لیے آج جوابی تقریر میں عمر ایوب نے ضیا الحق کے دور میں خواجہ آصف کے والد کا ذکر چھیڑنے کی کوشش کی لیکن اسپیکر نے مزید ذاتی حملوں کی اجازت نہیں دی۔
آج کا اجلاس البتہ وزیر قانون نذیر تارڑ کے مثبت تبصرے سے شروع ہؤا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ گزشتہ روز بعض تاریخی پہلوؤں پر رد عمل دیتے ہوئے مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپوزیشن کو یاد دلایا کہ ’جمہوریت کا حسن ایک دوسرے کو دلیل سے قائل کرنے میں ہے، کتاب دکھانے یا سیٹیاں بجانے سے معاملات طے نہیں ہوتے‘۔ ہمیں اپنے کردار پر خود غور کرنا چاہئے کہ ہم پاکستان کے مفاد میں کام کررہے ہیں یا سیاسی ایجنڈا کی تکمیل چاہتے ہیں۔
عمر ایوب نے بھی ایوب خان کے بارے میں خواجہ آصف کے ریمارکس کو ’غیر ضروری‘ قرار دے کر بات کو سمیٹا اور تحریک انصاف کے لیڈر اسد قیصر نے کہا کہ خواجہ آصف 80 سال کے بزرگ اور سینئر پارلیمنٹیرین ہیں۔ انہیں برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ موجودہ سیاسی کشیدگی سے نکلنے کا راستہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ہی مضمر ہے۔ اس حوالے سے ایک دوسرے کو مشورے دینے کی بجائے ہر لیڈر کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ آئین کے معاملہ پر اپوزیشن و حکومتی نمائیندوں کے اس مکالمہ میں اگرچہ الزام تراشی سننے میں آئی اور اپوزیشن بنچوں کی طرف سے ہنگامہ آرائی بھی ہوئی لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ میں ایسے بامعنی مباحث ہی قومی سیاست میں ایک مثبت پیش رفت ہیں۔
تحریک انصاف اگر پارلیمنٹ کو سیاسی اصلاح کا پلیٹ فارم تسلیم کرکے حکمت عملی ترتیب دے سکے تو وہ فوج کی مدد کے بغیر بھی سیاسی مقاصد حاصل کرسکتی ہے۔ سب پارٹیوں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آئین اسی وقت حقیقی معنوں میں فعال اور مؤثر ہو سکے گا جب سیاسی عناصر چند بنیادی اصولوں پر ساتھ مل کر چلنے کا عہد کریں گے۔