ایران اسرائیل آویزش کا انجام (2)
- تحریر افضال ریحان
- منگل 14 / مئ / 2024
ایران کا اسرائیل پر حملہ کیا امریکا و اسرائیل کو اعتماد میں لے کر فیس سیونگ کیلیے ایران کا پری پلانڈ ڈرامہ تھا؟ ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے سے نہ تو یہود کا کوئی جانی نقصان ہوا ہے اور نہ ہی انفراسٹرکچر کو کوئی گزند پہنچی ہے۔
اس لیے موجودہ عالمی حالات اور اپنی رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے اسرائیل کو اس کا بدلہ نہیں لینا چاہیے۔ ایرانی نیوکلیئر پلانٹس کے قریب اصفہان کے غیر آباد و ویران علاقے میں اسرائیل کی طرف سے جو رسمی سی جتنی کارروائی ڈالی گئی ہے، وارننگ کے لیے اتنی کافی ہے۔ کیونکہ ایرانی حملے کو روکنے پر ہونے والے خرچ کے باوجود اسرائیل کو اس حملے کا یہ فائدہ بہرحال پہنچا ہے کہ غزہ میں وسیع تر انسانی ہلاکتوں کے باعث اسرائیل کا عالمی امیج جس بری طرح خراب ہوا تھا، بے ضرر ایرانی حملوں نے اسرائیل کی ختم ہوتی ہمدردی کو ازسرِ نو اگر پوری طرح بحال نہیں کیا تو بھی اس کا گراف کسی حدتک بہتر کردیا ہے۔ بالخصوص اسرائیل کے ہمدرد مغربی ممالک میں یہ تاثر مزید واضح ہوا ہے کہ اسرائیل اپنے وجود کے بدترین دشمنوں کے بیچ میں رہ رہا ہے جسے ہمہ وقت تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل ایران کے خلاف بڑا محاذ کسی صورت بھی کھولنا نہیں چاہے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسرائیل اپنے اوپر ہونے والے ایرانی حملے کو معاف کردے گا یا نظرانداز کرنے کا رویہ اپنائے گا۔ ہمارے اندازے میں بالآخر ایران اور اسرائیل کا گھمسان ہو گا لیکن فوری نہیں وقت آنے پر۔ ممکن ہے امریکی انتخابات کا مرحلہ گزرنے کے بعد۔ کیونکہ موجودہ حالات میں امریکی انتظامیہ بھی کسی بڑے امتحان میں پڑنے سے گریز کرے گی۔ ری پبلکن جیتیں یا ڈیموکریٹ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ درمیانی عرصے کو امریکا اور اس کے اتحادی دیگر حوالوں سے صورتحال کو اسرائیل کے حق میں ہموار کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ مغربی رائے عامہ کے ساتھ ساتھ سیاسی و عسکری حوالے سے بھی مرئی یا غیر مرئی کولیشن تشکیل پائے گی، یو این کے ذریعے ایران پر مزید پابندیاں لاگو کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
ایران پہلے ہی عالمی پابندیوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے ایرانی سماج میں معاشی بدحالی اور بھوک ننگ زوروں پر ہے، مذہبی شدت پسندی اپنی آخری حدود کو چھورہی ہے۔ ایرانی عوام میں اپنی ولایت فقیہہ کے خلاف ایک شدید نوعیت کا اضطراب ہے۔ بدترین آمریت بھی اپنے عوام پر وہ مظالم ڈھاتے ہوئے ایک مرتبہ سوچتی ہے جو مذہبی آمریت اپنا خدائی حق سمجھتے ہوئے بے دریغ اپنے عوام یا سیاسی مخالفین پر ڈھالتے ہوئے ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتی۔ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ ایرانی سوسائٹی مذہبی آہنی جبر کے شکنجے میں کسی ہوئی بلک رہی ہے۔
ایرانی قیادت نے اسرائیل اور یہود کے خلاف پروپیگنڈے کے زور سے جو منافرت پھیلا رکھی ہے اس کے باعث اسلامی انقلاب کے حمایتی بلاشبہ ایسے حملے پر جشن مناتے بھی دکھائی دیے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایران نے جو حملہ اپنے سات بندوں کے مرنے پر کیا ہے، ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کی اموات پر کیوں نہیں کیا؟ جس کا آغاز ایران نے اپنی پراکسی حماس کے ذریعے 7اکتوبر کو کروایا تھا؟ اسرائیل کے لیے اس وقت اصل ایشو ایران سے بڑھ کر وہ ایرانی پراکسیاں ہیں جو اردگرد اس کے وجود سے چمٹی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کیلیے وہ زیادہ پیچیدہ ایشو ہے۔
حماس کو کچلنے کے لیے وہاں اسرائیل کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل یا ٹارگٹ نہیں اور دہشت گرد جب عوام اور گنجان آبادیوں میں اس طرح گھسے بیٹھے ہوں کہ عام آدمی اور دہشت گرد میں تمیز کرنا ممکن نہ ہو تو یہ زیادہ خطرناک صورتحال ہوتی ہے ۔
دور کے دشمن سے قریب کا دشمن زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کھلے دشمن سے چھپا دشمن زیادہ مہیب ہوتا ہے جو سایوں کی طرح چلتا ہے اور گھات لگا کر یا چھپ کر زہریلا وار کرتا ہے۔ اس لیے یہ امر تو واضح ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملہ غزہ حملوں جیسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ حملہ پوری تیاری اور پلاننگ کے ساتھ بھرپور آخری معرکے جیسا ہوگا۔ یوں غیر آباد علاقوں میں رسمی راکٹس یا میزائل نہیں پھینکے جائیں گے۔ یہ حملہ واضح ٹارگٹس پر ہوگا جس میں اولین ہدف ایران کی جیسی تیسی نیوکلیئر صلاحیت کو دبوچنا یا کلی طور پر ختم کرنا ٹھہرے گا۔ بلاشبہ امریکی رہنمائی میں مغربی ممالک یو این ادارہ جاتی اہتمام کے تحت اسے پہلے ہی کسی حد تک قابو کیے ہوئے ہیں۔ لیکن ایرانی حملے نے اسرائیل کو ایک نوع کا جواز فراہم کردیا ہے کہ وہ اس پر اسی نوعیت کا شب خون مارے جو کبھی عراق پر روا رکھا گیا تھا۔ اسرائیل کا اگلا ٹارگٹ ایران کی ملٹری تنصیبات ٹھہریں گی۔ آئل ریفائنریوں کو نشانہ بنانے کی پلاننگ ہوگی۔ امکان ہے کہ القاعدہ یا حماس قیادت کی طرز پر ایران قیادت پر بھی ریڈ مارک لگے گا۔
جس طرح پاسدارانِ انقلاب یا ولایت فقیہہ کے ہمنوا اس امر کے حریص ہیں کہ جیسے تیسے اسرائیلی ریاست کا وجود ہی صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے، اسی طرح اسرائیلی بھی چاہیں گے کہ ایران جس طرح خمینی انقلاب سے پہلے شاہِ ایران کے دور میں تھا، اسی نوع کا لبرل و معتدل ایران پھر ظہور پذیر ہو۔ سیاسی مجبوریوں کے باوجود عرب ممالک میں شیعہ سنی کی تقسیم یا منافرت بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ایسے عرب دانشوران بھی ہیں جو شیعہ بھائیوں کے لیے یہود سے بھی بڑھ کر منافرت بھری سخت رائے رکھتے ہیں۔
سعودی ایران منافرت و مناقشت کی بھی ایک تاریخ ہے۔ اگرچہ موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں بوجوہ اس میں ایک نوع کا ٹھہراؤ آیا ہے لیکن اصل تلخ سچائی تو اپنی جگہ جوں کی توں موجود ہے۔ ایران کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر جس قدر خدشات و اعتراضات سعودی اور دیگر عرب ورلڈ میں پائے جاتے ہیں، وہ اسرائیلی خدشات سے کسی طرح کم نہ ہیں۔ اس لیے اسے ختم کرنے کی خاطر اسرائیل جب امریکی تعاون سے کوئی بڑا قدم اٹھائے گا تو ایسے میں عربوں کی ہمدردیاں قطعی ایران کے ساتھ نہیں ہوں گی۔ اسرائیل پر حالیہ ایرانی میزائل حملے میں سعودی عرب اور بالخصوص اردن نے جو کردار ادا کیا ہے اس پر بھی ایران اور اردن میں سفارتی سطح پر اچھی خاصی تلخی ہی نہیں ہوئی باہم دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔
درویش پورے اعتماد سے یہ امر واضح کیے دیتا ہے کہ جب تک تہران میں ولایت فقیہہ کی حکمرانی قائم ہے تب تک خطے میں نہ صرف یہ کہ بڑی جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے بلکہ اسرائیل اسے اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھ کر حملہ آور ہونے کا کوئی بھی مناسب موقع جانے نہیں دےگا۔ ہمارے لوگ ایرانی حملے پر جس نوع کی خوشیاں منارہے ہیں، ایسی ذہنیت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر ہم اصول پسند ہیں تو حملہ آور کوئی بھی ہو چاہے اسرائیل، چاہے ایران یا اس کی کوئی پراکسی، وہ قابلِ مذمت ہے۔ جیو اور جینے دو کا اصول سب پر لاگو ہونا چاہئے۔۔