کریم منزل اور میرا بچپن

2010 میں روزنامہ جنگ کے میگزین ایڈیٹر کی حیثیت سے میں نے ملتان کے طرز تعمیر اور ایسی عمارتوں پر فیچر لکھوائے جو قیام پاکستان سے پہلے تعمیر ہوئیں اور جن پر ہندو طرز تعمیر کے اثرات تھے۔

ایسی عمارتیں آج بھی ملتان کے مختلف مقامات پر موجود ہیں لیکن ان دنوں ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ فوری طور پر اس حوالے سے جو عمارتیں ذہن میں آئیں ان میں بوہڑ گیٹ، اندرون نواں شہر اور صدر بازار سے ملحقہ بابو محلے اور لال کرتی کی عمارتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے ایک گھر کو ہم ”شیراں والا مکان“ کہتے تھے۔ اس مکان کے باہر تین شیر پرنالے کے طور پر نصب تھے اور جب بارش آتی تھی تو پانی شیروں کے منہ سے نکلتا تھا۔ اسی عمارت پر ہر شیر کے ساتھ ایک مورتی بھی بنائی گئی تھی جس میں کوئی مغنیہ اپنے ہاتھ میں ستار لے کر کھڑی ہے۔ بعد ازاں اسلام پسندوں کے جذبات مجروح ہوئے تو یہ مورتیاں اتار دی گئیں۔

ان عمارتوں کی تصاویر میں نے عقیل چوہدری سے بنوائیں جو اس زمانے میں نوجوان فوٹو گرافر کے طور پر روزنامہ جنگ کے ساتھ منسلک تھے۔ جب وہ تصویریں بنانے گئے تو میں نے ان سے کہا کہ ایک تصویر بھٹی مرغ پلاؤ کے سامنے واقع میرے بچپن کے گھر کی بھی بنا لائیں۔ یہ گھر اب موجود نہیں اور اسی مقام پر اب نیشنل بینک تعمیر ہو چکا ہے۔ اس وقت یہ خیال ہی نہیں آیا کہ میں اس گھر کے اندرونی حصوں کی تصاویر بھی بنوا لیتا کہ یہ میرے بچپن کا گھر ہے۔ جب یہ تصویر بنائی گئی ان دنوں یہ گھر آباد تھا۔ اس کے بعد بھی کئی برس تک یہاں رونق رہی۔ پھر ایک ایک کر کے اس گھر کے مکین راہی ملک عدم ہو گئے۔ پھر ایک روز مجھے خبر ملی کہ اس گھر کی تقسیم پر جھگڑے شروع ہو گئے ہیں۔ ایک روز میں یہ سوچ کر اس گھر میں داخل ہوا کہ شاید اب مجھے دوبارہ یہاں قدم رکھنا نصیب نہ ہو اور ایسا ہی ہوا۔

یہ مکان بابو محلے کے اس چوراہے میں تھا جہاں سے ایک گلی نصرت روڈ کی جانب نکلتی ہے دوسری اس کے مخالف سمت بوہرہ سٹریٹ تک جاتی ہے۔ اس کے دائیں جانب فوڈ سٹریٹ بن چکی ہے جس کے عقب میں اسٹیشن سپلائی ڈپو (ایس ایس ڈی) موجود ہے۔ ہمارے بچپن کے دنوں میں یہاں جنگل کا سماں تھا اور ایس ایس ڈی سے گیدڑوں کی آوازیں بھی آتی تھیں۔ بائیں جانب یہ سڑک اوپل شہید روڈ کے نام سے سی ایم ایچ تک جاتی ہے۔ اس زمانے میں اسے اوپل سٹریٹ کہا جاتا تھا اور اوپل سٹریٹ اس لیے کہتے تھے کہ اسی گھر میں میرے تایا میجر ضیا الدین اوپل کی میت ستمبر 1965 میں آئی تھی۔ پھر اسی گھر کے صحن سے میرے والد ذکا الدین اوپل کا جنازہ اٹھایا گیا۔

صرف جنازے ہی نہیں اٹھائے گئے اس صحن سے ڈولیاں بھی اٹھائی گئیں۔ شادی کی تقریبات میں اسی صحن میں ڈھولک بجتا تھا۔ گیت گائے جاتے تھے اور قہقہے لگتے تھے۔ یہاں پہلی شادی میں نے اپنی پھوپھو کی دیکھی تھی۔ جب انکل ستار مرحوم سہرے لگا کر کریم منزل آئے تھے (اور مجھے اے پی پی میں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کا شہ بالا مقبول حسین تبسم تھا۔ مقبول صاحب اب ریٹائر ہو چکے لیکن صحافت سے ہی منسلک ہیں)۔ بعد ازاں چچا ظہیر کے بیٹے طاہر اور ان کی تمام بیٹیوں کی شادیاں بھی اسی گھر میں ہوئیں۔

 

بالکونی میں جس جگہ چکیں لگی ہیں اور اس کا ایک حصہ خالی ہے یہ وہ جگہ تھی جہاں سے میں بچپن میں ایڑیاں اونچی کر کے سڑک پر آنے جانے والوں کو دیکھتا تھا۔ اسی سڑک پر میں نے بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کا بہت بڑا جلوس دیکھا تھا۔ اسی جگہ سے میں اپنے گھر کے سامنے ہونے والا محرم کا گتکا دیکھتا تھا اور اسی کھڑکی سے میں گھر کے سامنے واقع پانی کے نل پر لوگوں کا ہجوم دیکھتا تھا۔

یہ پانی کا نل اس چوراہے پر تھا جس کا میں نے ابھی ذکر کیا اور نل کے قریب سبزیوں کی دکانیں تھیں۔ پانی مخصوص اوقات میں آتا تھا۔ دوپہر اور شام کو پانی بھرنے کے لیے لوگ اپنی بالٹیاں اور پتیلے لے کر گھروں سے آتے تھے اور ”کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا“ کی عملی تصویر بن جاتے تھے۔ میں ان لوگوں پر ترس کھاتا تھا کہ بے چاروں کو پانی بھرنے کے لیے کتنی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ پھر 2010 کے بعد جب میں بھی پانی بھرنے کے لیے چھاؤنی کے واٹر فلٹریشن پلانٹس پر دھکے کھانے لگا تو مجھے احساس ہوا کہ وقت مجھے آگے لے جانے کی بجائے پیچھے اسی زمانے میں لے گیا ہے اور انہی لوگوں کی سطح پر لے گیا ہے جن کی زندگیاں پیاس سے عبارت تھیں۔

ہمیں تو اس زمانے میں پانی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ گھر کے صحن میں دستی نلکا نصب تھا جس کا ایک پائپ پہلی منزل پر جاتا تھا جہاں ہم رہتے تھے۔ اسے عرف عام میں اب بھی ہینڈ پمپ کہا جاتا ہے۔

گھر کے بند دروازے کے اوپر نیلے رنگ سے کریم منزل لکھا ہے اور کریم منزل یہ میرے دادا شیخ عبدالکریم کی نسبت سے تھی۔ اسی دروازے پر ایک لیٹر بکس ہوتا تھا۔ دروازے کے دونوں طرف جو جالیاں لگی ہیں یہ بہت بعد میں لگائی گئی تھیں ورنہ تو یہ برآمدہ کھلا ہوتا تھا۔ برآمدہ اس لیے بند کرنا پڑا کہ اس گھر کے باہر قاسم بیلہ جانے والے تانگے آ کر رک جاتے تھے اور سواریاں برآمدے میں بیٹھ کر تانگوں کا انتظار کرتی تھیں۔ لیکن ایک اور وجہ بھی تھی گھر کے بائیں جانب جہاں نئی تصویر میں بینک کی اے ٹی ایم مشین نصب ہے یہاں بھنگ اور افیون کا ٹھیکہ ہوتا تھا۔ ٹھیکے میں بھنگ گھوٹی جاتی تھی اور افیون فروخت ہوتی تھی۔ کوچوان یہاں سے بھنگ کے پیالے لے کر ہمارے برآمدے میں بیٹھ کر نوش فرماتے تھے۔ بھنگ کا ٹھیکہ بھی آج کے لوگوں کے لیے اجنبی لفظ ہو گا۔ جنرل ضیا کے دور سے پہلے بھنگ اور افیون کے ٹھیکے سرکاری طور پر الاٹ کیے جاتے تھے اور ان ٹھیکوں پر ”بھنگ و افیون کا ٹھیکہ“ کا بورڈ لگا ہوتا تھا۔ ہمارے پڑوس میں یہ ٹھیکہ ایک شاہ صاحب نے لے رکھا تھا۔

یہ مکان قیام پاکستان سے پہلے تعمیر ہوا تھا اور اس کا طرز تعمیر ایسا خوبصورت تھا کہ آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ برآمدے میں دائیں اور بائیں جانب سے سیڑھیاں گھومتی ہوئی اوپر کی منزلوں تک جاتی تھیں۔ پہلی منزل پر ایک کمرہ تھا جس میں ہم تین بہن بھائی اپنی والدہ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس کے بالکل ساتھ والا کمرہ میرے دادا کے پاس تھا۔ وہ رات گئے تک عبادت کرتے تھے اور صبح فجر کے وقت بھی ان کے کمرے کا بلب روشن ہوجاتا تھا۔ یہ کمرہ ایک چھوٹی سی لائبریری بھی تھا۔ اس کی الماریوں میں 65 کی جنگ کے اخبارات اور بہت سی مذہبی رسائل تھے اور ان میں ایک فائل ”مولوی“ رسالے کی بھی تھی جو میرے دادا دہلی سے منگواتے تھے۔ بعد کے دنوں میں میں نے وہ فائل حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن معلوم ہوا کہ وہ اب موجود نہیں۔ تاہم 65  کی جنگ کے چند اخبار اور کوہستان کا وہ شمارہ جس میں میرے والد کے حادثے کی خبر تھی مجھے وہاں سے مل گیا۔

مکان میں ایک اور سیڑھی ”کریم منزل“ والے دروازے کے بالکل سامنے صحن کے اندر سے جاتی تھی۔ لکڑی اور اینٹوں کی بنی ہوئی ان سیڑھیوں کو لوہے کی شیٹوں سے ڈھانپا گیا تھا۔ ان شیٹوں کو ہم پترا کہتے تھے (ملتان میں پتراں والی گلی کا نام بھی انہی لوہے کی شیٹوں کی نسبت سے ہے کہ وہاں یہی کاروبار اب بھی جاری ہے) پتراں والی گلی میں میری والدہ کا بچپن گزرا اور وہ ہمیں اب بھی اس گلی کی کہانیاں سناتی ہیں۔ سیڑھیوں پر لگے ہوئے پتروں کے کونے یا باہر نکلے ہوئے کیل کبھی کبھی بے دھیانی میں ہمیں زخمی بھی کر دیتے تھے۔ صحن سے اوپر جانے والی سیڑھیوں کے وسط میں ایک لکڑی کی بالکونی بھی تھی۔

اسی مکان کی دوسری منزل پر جو چھت ہے، اس کی دیوار ہمارے بچپن میں نہیں تھی۔ یہاں بھی لکڑی کا جنگلا لگا ہوا تھا اور چھت کے اوپر بھی روشنیاں لگانے کے لیے لکڑی کے شہتیر نصب تھے۔ ہم چھت پر سوتے تھے۔ ابھی پیڈسٹل فین کا زمانہ نہیں آیا تھا۔ گرمی کی راتیں دستی پنکھوں کی مدد سے کاٹی جاتی تھی۔ چھت پر دونوں جانب برساتیاں تھیں جہاں ہم بارش کے دوران اپنی چارپائیاں لے جاتے تھے۔ بچپن میں یہ بالکل سمجھ نہیں آیا تھا کہ انہیں برساتی کیوں کہتے ہیں۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ یہ لفظ برسات کی نسبت سے ہے اور بارش سے بچنے کے لیے ہر گھر میں برساتیاں ہوتی تھیں۔ میری چارپائی اپنے دادا کے ساتھ بچھتی تھی۔ چھت کی دائیں جانب میری والدہ اور بہن بھائی سوتے تھے اور بائیں جانب چچا، چچی اور ان کے بچوں کی چارپائیاں ہوتی تھیں۔ صبح اٹھ کریہ چارپائیاں برساتیوں میں رکھ دی جاتی تھیں تاکہ بارش یا دھوپ سے خراب نہ ہوں۔

شام کو انہیں دوبارہ مقررہ جگہوں پر بچھانا بھی ایک کام ہوتا تھا اور اس کام پر ہمارا جھگڑا ہوتا تھا۔ میں چونکہ بڑا تھا اس لیے یہ چارپائیاں بچھانا میری ذمہ داری تھی۔ میں اکثریہ ذمہ داری پوری بھی کرتا تھا لیکن جھگڑا اس وقت ہوتا جب صبح سب بچے اپنی اپنی چارپائیاں یونہی بچھی ہوئی چھوڑ کر نیچے بھاگ جاتے تھے۔ اس چھت سے دور دور تک نظارے ہوتے تھے۔ امپریئل سنیما چوک (اب یہ سنیما بھی ختم ہو گیا ) پر جو پانی کی ٹینکی ہے وہ ہماری چھت سے صاف دکھائی دیتی تھی۔ اسی طرح سی ایم ایچ کے قریب ہی واقع گرجا گھر کے اوپر نصب مرغ باد نما (جس کی نسبت سے اسے ککڑ والا گرجا گھر کہتے ہیں ) بھی ہمارے گھر سے دکھائی دیتا تھا۔ اس گرجا گھر کے سامنے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کا گراؤنڈ ہے۔ یہ وہ سکول ہے جہاں سے ہمارے چچا سمیت صدر بازار اور بابو محلے کے بیشتر نوجوانوں نے میٹرک کیا تھا۔ اس ایک تصویر نے بہت سی کہانیاں یاد دلا دیں اور بچپن کے بے شمار واقعات ایک فلم کی صورت میں نظروں کے سامنے گھومنے لگے لیکن سردست ہم اس تصویر کہانی کو یہیں ختم کرتے ہیں باقی کہانیاں کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

(بشکریہ: ہم سب لاہور)

loading...