پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاج، ایک سماجی مطالعہ

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اٹھنے والی غیر معمولی تحریک کا سماجی مطالعہ بہت ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اچانک ایسی تحریک کیسے اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، پاکستان اور اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

یہ ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ کسی سیاسی شخصیت کی کال پر نہیں بلکہ لوگ خود اور اپنے لیے نکلے ہیں۔ یہ ایک نیا رجحان ہے جو وقت کے بدلتے موسموں کی خبر دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی دنیا بدل دی ہے۔ اب یہ وہ خطہ نہیں جو مرکزی دھارے سے کٹا ہو اور معلومات کے ذرائع چند مقامی اخبارات ہوں (جو شائع بھی مظفر آباد کی بجائے راولپنڈی اور اسلام آباد سے ہوتے ہوں)۔

سوشل میڈیا نے لوگوں کو قومی بلکہ بین الاقوامی دھارے سے جوڑ دیا ہے۔ کشمیر کے بہت سے لوگ بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کے پاس تعلیم بھلے بہت اعلی نہ ہو لیکن ان کا ایکسپوژر بہت زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے وہ یہ ایکسپوژر لمحہ لمحہ مقامی لوگوں سے شیئر کر رہے ہیں۔ لوگ جاننے لگے ہیں کہ دنیا میں شہری کیسے رہ رہے ہیں اور ہمیں کیسے رکھا جا رہا ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تحریک کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والا ابلاغ کا غیر معمولی تجربہ اور شعور ہے۔

یہ ہمہ وقت کا شعوری تقابل ہے جس سے سماج سلگ رہا ہے۔ یہ سیاسی کروٹ نہیں ہے۔ یہ سماجی کروٹ ہے۔ سیاست کا مقابلہ نو آبادیاتی دور کی انتظامی مشینری سے کیا جا سکتا ہے لیکن سماج کی کروٹ کو نو آبادیاتی رویووں سے نہیں دبایا جا سکتا، اس کے لیے عصری شعور چاہیے۔

اس ارتقائی عمل میں اہل اقتدار کا نو آبادیاتی مائنڈ سیٹ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نو آبادیاتی قوانین، نو آبادیاتی افسر شاہی، نو آبادیاتی مینجمنٹ، یہ سب رعایا کے لیے تھا، رعایا جب شہری بننے پر تل جائے تو نو آبادیاتی بندوبست کی افادیت محدود تر ہو جاتی ہے۔ ابھی دیکھ لیجیے، جب تحریک چل پڑی، جب آگ لگ گئی، تب جا کر اہل اقتدار نے صورت حال کا ’نوٹس لیا‘۔ ارشاد ہوا تمام جائز مطالبات مان لیے جائیں گے (بعد میں کچھ مان بھی لیے گئے)۔ سوال یہ ہے کہ ’جائز مطالبات‘ کو مان لینے میں پہلے کیا رکاوٹ تھی؟

وہ کون سے عوامل ہیں کہ شہریوں کو ’جائز مطالبات‘ منوانے کے لیے بھی اتنی بڑی تحریک چلانا پڑتی ہے۔ یہ جائز مطالبات معمول کی کارروائی کے طور پر کیوں نہیں مان لیے جاتے؟ جائز مطالبات کے جواب میں پولیس اور رینجرز کیوں بھجوائے جاتے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے بجلی اور  آٹے کی قیمت میں کمی کے مطالبات مان لینے کے باوجود تحریک ختم نہیں ہوئی اور تناؤ برقرار ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا تیسرا مطالبہ نہیں مانا گیا۔ اور یہ تیسرا مطالبہ کیا تھا؟

تیسرا مطالبہ اشرافیہ سے مراعات کی واپسی ہے۔ اہل اقتدار کو سمجھنا چاہیے کہ یہ مطالبہ صرف کشمیر کی آواز نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کی آواز ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ابھی یہ آواز صرف کشمیر سے اٹھی ہے۔ لیکن پورے ملک سے یہ آواز اٹھنے میں دیر ہی کتنی لگے گی؟ جو بندوبست ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی سرکار چھوڑ گئی، افسر شاہی اور اشرافیہ اور ان کی مراعات اس بندوبست کا بنیادی نکتہ تھی۔ ہم اپنے قانون میں کوئی اصلاح کر سکے نہ افسر شاہی اور اشرافیہ کے معاملات میں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کا شہری تسلیم کرنے میں یہ بندوبست بہت ساری نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔

عوام رعایا ہے اور رعایا پر حاکم اشرافیہ اور افسر شاہی قومی وسائل کا مال غنیمت سمجھتی ہے۔ لارڈ کلائیو کی طرح جو یہاں سے اتنا مال لوٹ کر لے گیا کہ برطانیہ واپس جا کر لارڈ بنا تو اس کی دولت کا کوئی اندازہ ہی نہ تھا۔ اس مائنڈ سیٹ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی تحریک بتا رہی کہ سماجی سطح پر کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور معاشرے میں سوچنے کے زاویے کیسے بدل رہے ہیں۔ معاشرہ آگے بڑھ گیا ہے اشرافیہ اور افسر شاہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس تبدیلی کو سمجھا جانا چاہیے۔

ہر معاملہ انتظامی قوت سے کیل ٹھونک دینے سے حل نہیں ہوتا۔ کچھ معاملات سماجی فہم اور بصیرت سے حل ہوتے ہیں۔ کشمیر کی تحریک کے مطالبات مان کر  بجلی اور روٹی سستی کیے ابھی چند گھنٹے نہیں ہوئے کہ  سوشل میڈیا پر پنجاب کے لوگ سوال اٹھانا شروع ہو گئے ہیں کہ اگر کشمیر کو بجلی اس لیے سستی مل سکتی ہے کہ منگلا ڈیم اس کی زمین پر ہے تو گندم تو پنجاب کی زمین پر اگتی ہے، وہ کشمیر میں خود پنجاب سے بھی سستی کیسے ہو سکتی ہے۔

سماج جب شہری آزادیوں کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ مطالبہ اطراف میں پھیلتا ہے۔ جو بات آج کشمیر کی وادیوں میں گونج رہی ہے کل یہی بات پنجاب کے کھیتوں میں بھی گونجے گی۔ کشمیر سے شہری حقوق اور آزادیوں کی ابھرتی ہوئی یہ حساسیت صرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر یا پاکستان تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ اس پورے خطے پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

لائن آف کنٹرول کے اس پار بھی یہ کسی نہ کسی شکل میں ظہور کرے گی کیوں؟

(بشکریہ: انڈی پنڈنٹ اردو)

loading...