توہین عدالت کے مقدموں سے عدلیہ آزاد نہیں ہوگی

اسلام آباد ہائی کورٹ  کے  جسٹس بابر ستار کا ایک خط سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر   بحث کی جارہی ہے کہ ملکی انٹیلی جنس و سکیورٹی ادارے کس حد تک  اعلیٰ عدلیہ  پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔  یہ خظ سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف نے اسے عدالتی امور میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کا ایک اور ثبوت قرار دیا ہے۔ البتہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے الزام تراشی سے پہلے معاملہ کی گہرائی تک پہنچنا سب کے لیے سود مند ہوگا۔

سب سے پہلے تو یہی بات نوٹ کرنی چاہئے کہ جسٹس بابر ستار کا  اپنے چیف جسٹس کو لکھا گیا خط بھی ’غیر سرکاری‘ طور پر سوشل میڈیا پر لیک ہؤا ہے۔ بعینہ مارچ کے آخر میں اسلام  آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا ہؤا خط بھی ایک  ’خفیہ دستاویز‘ تھی جسے نامعلوم لوگوں نے  سوشل میڈیا پر عام کیا ۔ واضح رہے کہ   مذکورہ  لکھنے والے ججوں میں جسٹس بابر ستار بھی شامل تھے۔  اس کے بعد  خط کے مندرجات پر بحث کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب ایک سوموٹو مقدمہ  میں سپریم کورٹ کا لارجر بنچ اس معاملہ پر کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کررہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں  کی  طرح جسٹس بابر ستار نے بھی سوشل میڈیا پر ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں لکھے ہوئے خط کے مندرجات کی تردید نہیں کی  ۔ اس لیے یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں  کہ  سابقہ خط کی طرح  اس خط کا متن بھی درست  رپورٹ  ہؤا ہے۔    چیف جسٹس عامر فاروق کے نام جسٹس بابر ستار کے خط پر البتہ اٹارنی جنرل اور حکومتی وزرا نے شدید رد عمل  ظاہر کیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جسٹس بابر ستار کے خط سے یہ بدگمانی پیدا ہوئی ہے جیسے  سکیورٹی ادارے ججوں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔   جسٹس بابر ستار نے آڈیو کیس میں سماعت کے  دوران یہ اعتراف کیا تھا کہ 6 ججوں کا خط ایک اندرونی معاملہ تھا اور یہ کھلا خط نہیں تھا۔ تاہم ان ریمارکس میں انہوں نے یہ استفسار کرنے سے گریز کیا تھا کہ   وہ خط کیسے منظر عام پر  آگیا۔ حالانکہ جسٹس بابر ستار اپنے اہل خاندان کی بعض ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر عام  کرنے کے وقوعہ پر شدید رد عمل دے چکے ہیں۔  ہائی  کورٹ کا ایک سہ رکنی بنچ اب اس حوالے سے توہین عدالت کے  معاملہ پر غور کررہا ہے۔

جسٹس بابر ستار   کے علاوہ  جسٹس محسن اختر کیانی نے بھی  چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ  ان کے خلاف’ مہم جوئی ‘ پر توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ جسٹس کیانی نے ایک وکیل  محمد وقاص ملک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست کی تھی کیوں کہ انہوں نے سپریم  جوڈیشل کونسل میں جسٹس کیانی کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا جو ان کے نزدیک  بطور جج ان  کی توہین کے مترادف ہے۔ ان دونوں معاملات پر  اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو علیحدہ علیحدہ بنچ غور کررہے ہیں اور آج کی سماعت میں  آئی ایس آئی، ایف آئی اے، انٹیلی جنس بیورا اور وزارت دفاع کو نوٹس بھی جاری کیے  گئےہیں۔

اس معاملہ کو عام شہری کے نقطہ نظر سے    دیکھا جائے تو بظاہر  یہ عدالتی کارروائی ججوں کے ’احساس عدم تحفظ‘ کو ختم کرنے کے  لیے کی گئی ہے جو شاید ملکی عدلیہ کے وقار اور آزادی کی حفاظت کے لیے ضروری بھی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے  فاضل جج   ، چیف جسٹس یا سپریم جوڈیشل کونسل کے نام لکھے گئے خطوط افشا ہونے پر برہم نہیں ہوئے۔ اس بارے میں 6 ججوں میں سے کسی ایک  نے بھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ    ایک حساس موضوع پرہائی کورٹ سے  جاری ہونے والے  خطوط کون سے عناصر سوشل میڈیا پر عام کررہے ہیں۔ ان خطوط  میں یکساں طور سے  ججوں پر اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک حساس اور سنگین معاملہ  ہے۔ ججوں کو ضرور عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا چاہئے لیکن اس کوشش میں دیگر ریاستی اداروں کے بارے میں شبہات  اور اور ملک میں سنسنی خیزی پیدا  کرنے کے عمل میں حصہ دار نہیں بننا چاہئے۔

ہر ذی شعور عدالتوں کو خود مختار دیکھنا چاہتا ہے  لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خواہش بھی موجود ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج  زیر سماعت لاکھوں مقدمات نمٹانے کے کام پر پوری توجہ مبذول کریں تاکہ عام شہریوں کو ریلیف مل سکے۔ البتہ کچھ عرصہ سے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ سیاسی معاملات پر فوکس کررہی ہے اور اس کا بیشتر وقت و صلاحیت ان امور سے نمٹنے پر صرف ہوجاتی ہے۔  اس طرح  ان ہزاروں سائیلین کے کرب میں اضافہ ہوتا ہے  جو سال ہا سال سے اپنے معاملات پر سماعت اور فیصلوں کے  منتظر ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کو اس حوالے سے مناسب توازن تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اگر ہائی کورٹ  یا سپریم کورٹ کے جج سیاسی  یا سیاست دانوں کے معاملات میں الجھے رہیں گے تو اس سے درحقیقت عام شہریوں کو انصاف ملنے میں تکلیف دہ تاخیر ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ججوں کے وقار اور عدلیہ پر اعتبار کو متاثر  کرے گی۔

جسٹس بابر ستار کو بجا طور سے اپنے اہل خاندان کی معلومات سامنے آنے پر اعتراض کرنا چاہئے لیکن اس حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی  درحقیقت عدلیہ کو متعدد  دیگر سرکاری اداروں کے مد مقابل لائے گی۔  اس طریقے سے شاید  اصلاح احوال  ممکن نہ ہو۔   یہ مسئلہ    محاذ آرائی کی بجائے اداروں کے درمیان مواصلت اور  مناسب قانون سازی کے ذریعے  بہتر  طور سے حل کیا جاسکتا ہے۔ عزت مآب ججوں کے پیش نظر یہ حقیقت بھی ہونی چاہئے کہ  دباؤ ڈالنے اور دباؤ قبول کرنے  میں معمولی فرق ہوتا ہے۔   صرف دباؤ ڈالنے کی بات  کرکے  اس علت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔  عدالتوں میں دباؤ سے مزاحمت  کا رویہ مضبوط  کیے بغیریہ کام مکمل نہیں ہوسکتا۔

 زیر  بحث دو خطوط کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے کہ ججوں نے ایسے کسی شخص کے خلاف ازخود کارروائی نہیں کی جس نے ان پر دباؤ ڈالنے  جی کوشش کی تھی۔  اور نہ ہی کسی جج کے گھر میں کیمرے لگانے والے  کے خلاف پولیس میں  شکایت درج کروائی گئی۔ بصد احترام اعلیٰ عدلیہ کے ججوں  سے یہ گزارش کی  جانی چاہئے کہ وہ خود اس منصب عالیہ  پر فائز ہونے کے علاوہ   پاکستان کے عام شہری ہیں۔ انہیں وہی حقوق حاصل ہیں اور ان پر وہی فرائض بھی عائد ہوتے ہیں جو قانون و آئین کے تحت شہریوں پر عائد  ہیں۔ اس رویہ کو مثال کی شکل میں سامنے آنا چاہئے تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ جج کسی دوسری دنیا کی مخلوق  ہیں اور حکمران اشرافیہ کی طرح ان کا ملک کے  باشندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جج کی رہائش میں کیمرے نصب کرنے پر پولیس شکایت درج کروانے کی بجائے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنا اور پھر اس خط کی بنیاد پر سنجیدہ سیاسی و عدالتی مباحثہ شروع ہونے سے تو یہی لگتا ہے کہ ملک میں ججوں اور شہریوں کے لیے دو  علیحدہ معیار   ہیں۔

کسی عام شہری کی طرح کسی جج کی ذاتی معلومات کو اس کی اجازت کے بغیر عام کرنا بنیادی طور سے غلط طریقہ ہے۔ ملکی قانون جج اور شہری کو ایسی خلاف ورزی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن اگر ہائی کورٹ  کے جج توہین عدالت قانون کو اس خلاف ورزی سے تحفظ کے لیے استعمال کریں گے تو عام شہری دادرسی کے لیے کون سے خصوصی قانون کا سہارا لے؟ دوسرے لفظوں میں  اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ہر شہری کو نجی معلومات عام ہونے کے خلاف ویسا ہی تحفظ حاصل ہے جس کی خواہش جج اپنے لیے کررہے ہیں؟ اور کیا خلاف ورزی کرنے والے کے  خلاف ویسی ہی شدید کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جیسا ایک جج کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔

جسٹس بابر ستار  اور ان کے اہل خاندان کی معلومات عام  ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک  بیان میں اسے   بے بنیاد الزام تراشی  قرار دیا تھا لیکن اس بیان میں تسلیم کیا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس امریکہ کا گرین کارڈ ہے اور  ان کے بیوی بچے امریکی شہری ہیں۔  وہ پاکستان کے علاوہ امریکہ میں بھی  جائیداد کے مالک ہیں۔  ان معلومات کو ناجائز طریقے سے عام کرنا ضرور  غلط ہے لیکن کیا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کی ایسی معلومات کسی خود کار نظام کے تحت عام نہیں ہونی چاہئیں تاکہ عوام، ججوں اور سرکاری افسروں کے ملک سے تعلق  کے بارے میں اپنی رائے قائم کرسکیں؟

چیف جسٹس عامر فاروق کے نام اپنے خط میں جسٹس بابر ستار نے ذاتی معلومات عام ہونے کو تو  انصاف پر اثر انداز ہونے کا ہتھکنڈا قرار دیا ہے لیکن یہ تاثر دینے کے باوجود کہ  ایک سکیورٹی ادارے کے اعلیٰ افسر نے انہیں آڈیو کیس سے پیچھے ہٹنے کا پیغام بھیجا تھا،  وہ اسے خود پر اثر انداز ہونے کا طریقہ نہیں سمجھتے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے اس معاملہ پر چیف جسٹس کے نام خط لکھنا  ضروری سمجھا اور جب یہ خط عام ہوگیا تو اس پر کوئی ردعمل دینا مناسب نہیں سمجھا؟ کیاجسٹس بابر ستارجیسا باعلم شخص  ایسے طریقوں کے سیاسی مضمرات سے آگاہ نہیں ہے اور کیا  اس طرح عدلیہ  کی آزادی کو ایک خاص سیاسی پارٹی  ایجنڈے کے طور پر استعمال نہیں کرے گی؟ اس صورت حال سے عوام کی پریشانی اور سراسیمگی میں ہونے والے اضافہ  کا ذمہ   دار کون ہوگا؟

جسٹس بابر ستار کا کہنا ہے کہ ’ سوال یہ ہے کہ کیا شہریوں کی نگرانی کا کوئی قانونی جواز موجود ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران میں ایک مرحلے پر مجھے ملکی سکیورٹی اسٹبلشمنٹ کے اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے پیغام پہنچایا گیا کہ میں اس معاملے کی گہرائی میں جانے سے پیچھے ہٹ جاؤں۔ میں نے دباؤ کے ان ہتھکنڈوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ مجھے یہ محسوس نہیں ہؤا کہ اس قسم کے پیغام سے انصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ آسکتی ہے‘۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے علاوہ وزیر قانون اور وزیر اطلاعات جج کے اس تاثر کو غلط قرار دے  رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے ایک ویڈیو پیغام میں واضح کیا ہے کہ جسٹس بابر ستار  تک یہ پیغام  اٹارنی جنرل کے دفتر نے پہنچایا تھا کہ ’اداروں کی   نگرانی کی صلاحیت اور  قومی  سلامتی کے  دیگر معاملات  کی   سماعت  بند کمرے میں کی جائے‘۔   اٹارنی جنرل کی اطلاعات کے مطابق ’کسی سکیورٹی ادارے کے کسی  افسر نے  براہ راست کسی جج سے رابطہ نہیں کیا۔  اٹارنی جنرل کے دفتر نے  یہ  درخواست جج تک پہنچائی تھی‘۔

ایک ہی معاملہ پر ہائی کورٹ کے ایک جج اور ملک کے اٹارنی جنرل کے دو متضاد بیانات سے کیا عدلیہ کے وقار و اعتبار میں اضافہ ہوگا؟ بہتر ہوگا ہمارے ذی وقار جج حضرات سوچ سمجھ کر کوئی بات منہ سے نکالیں۔ بصورت دیگر ملکی  حکومت کے ترجمان ان کے ساتھ کسی    مدمقابل سیاسی لیڈر جیسا سلوک ہی کریں گے۔ جیسا کہ وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے اس معاملہ میں اعلان کیا ہے کہ ’سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک خط لکھ دیا جاتا ہے کہ مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں‘۔ یہ حقیقت پر مبنی بات نہیں ہے۔ ان کیمرا بریفنگ کی درخواست قومی سلامتی کی وجہ سے کی گئی تھی اور میں واضح کردوں کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

loading...