الف کا اعترافی بیان

الف کا اپنے بارے میں گمان تھاکہ وہ ایک نیک آدمی ہے اور یہ گمان کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا ۔ جس قسم کی زندگی اُس نے گزاری تھی اُس میں بدی کی گنجائش ویسے ہی کم تھی ۔

لیکن انسان جس حال میں بھی ہو ، بدی کے راستے اور طریقے بہرحال نکال ہی لیتا ہے ۔الف کے پاس بھی برائی کا آپشن موجود تھا ، وہ چاہتا تو اِس چار دن کی زندگی میں اپنے لیےگناہ کا موقع تلاش کر سکتا تھا اورکچھ چھوٹے موٹے گناہ تو اُس سے سرزد بھی ہوئے تھے۔ مگر یہ ایسے ہی تھے کہ جن کی پکڑ مشکل تھی ۔ قابل ذکر گناہ یا جُرم کرنے کی الف میں ہمت ہی نہیں تھی۔ اور یہی بات اُس کے حق میں جاتی تھی ۔

اُس کی زندگی میں ایسا وقت بھی آیا جب اُس نے سوچا کہ برائی کا راستہ اختیار کرنے میں کوئی برائی نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے ۔ اُس کے ارد گرد موجود لوگ اِس فلسفے کی جیتی جاگتی تصویر تھے ، وہ اُس کی آنکھوں کے سامنے ہر قسم کا ناجائز کام کرتے اور ساتھ ہی نہایت چالاکی سے خود کو دنیا کے سامنے یوں پیش کرتے جیسے وہ مہاتما بدھ اورآنند ہوں ۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ الف اُنہیں دیکھ کر رشک کرتاتھا مگر الف کے دل میں یہ خیال ضرور آتا تھا کہ اگر دنیاوی خوشحالی اور کامیابی کی یہی کُنجی ہے تو اِس کُنجی سے آسودگی کا قُفل کھولنے میں کیا حرج ہے ۔ تاہم الف نے کبھی اُس راستے پر چلنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ ویسے یہ کم ہمتی اُس کی نیکی میں شمار کی جا سکتی ہے۔

تاہم ایک آدھ بار الف نے ہمت بھی کی اور ادھر ادھر ہاتھ پیر بھی مارےمگر بات کچھ بنی نہیں۔ شاید کم ہمتی اور بزدلی کے ساتھ ساتھ الف میں وہ ہوشیاری بھی نہیں تھی جو ایسے کامو ں کیلئے درکار ہوتی ہے ۔ لیکن اِن تمام باتوں سے آپ ہرگز یہ مطلب نہ لیجیے گا کہ الف کوئی فرشتہ صفت انسان تھا ، اُ س کی ذات میں بہرحال وہ خامیاں توموجود تھیں جو انسانوں میں بالعموم پائی جاتی ہیں۔ لیکن الف کویہ زعم تھا کہ وہ اپنے ہمعصروں اور جاننے والوں کے مقابلے میں قدرے بہتر انسان ہے۔ اُس کے پاس جادو کی چھڑی یا کوئی ایسا پیمانہ تو نہیں تھا جس سے وہ باقی لوگوں کے ظاہر و باطن کا تقابل کرکے حقیقت جان سکتا مگر اُن کے ظاہری اعمال کا مشاہدہ کرکے اُس نے یہ رائے قائم کی تھی اور اُس کا خیال تھا کہ جس روز اُس سے سوال و جواب ہوں گے تو یہ سب سے مضبوط دلیل ہوگی جو اُس کی زنبیل میں ہوگی ۔

اور پھر وہ دن بھی آن پہنچا۔ایک ایسی عدالت میں اُس کی پیشی تھی جہاں اسے یہ ثابت کرنا تھا کہ اُس نے زندگی میں کوئی غلط کام نہیں کیا، کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا اور جانتے بوجھتے ہوئے کسی ذی روح کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اُس کی توقع کے برخلاف کمرہ عدالت میں اُس کے علاوہ کوئی بھی موجود نہیں تھا ، کمرے میں ملگجی سی روشنی تھی جس میں اسے کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا ، صرف یہ پتا چل رہا تھا کہ کمرے کے آخری کونے میں کوئی شخص ایک بڑی سی میزکے پیچھے بیٹھا ہے ۔ اُسے بتایا گیا تھا کہ روایت کے بر خلاف تم  نے کسی عدالتی اہلکار کی دعوت کا انتظار کیے بغیر اپنا مقدمہ خود بیان کرنا ہے ، ورنہ بعد میں شاید تمہیں موقع نہ ملے ۔ اسے اِن معاملات کا زیادہ تجربہ تو نہیں تھا البتہ یہ بات اُس نے خوب پلے سے باندھ رکھی تھی ۔ اُس نے اپنا گلا کھنکار کر صاف کیا اور اپنے دفاع میں بولنا شروع کیا ۔ اُس نے بتایا کہ وہ کہاں پیدا ہوا، کس خاندان میں اُس کی پرورش ہوئی ، کہاں سے تعلیم حاصل کی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کے حصول میں کس قسم کی رکاوٹیں پیش آئیں ۔

اِس بیان میں ایک جگہ وہ ذرا سا ڈگمگا بھی گیا کیونکہ ایک مرتبہ اُس نے امتحان میں نقل بھی کی تھی مگر یہ بات وہ گول کر گیا ۔ اُس نے دیکھنا چاہا کہ اِس بارے میں منصف کے کیا جذبات ہیں ، مگر اُسے منصف کا چہرہ ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا ، تاہم جب منصف کی جانب سے یہ اہم بات نہ بتانے پر ٹوکا نہیں گیا تو اُس کا حوصلہ بڑھ گیا ۔ اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے الف نے بتایا کہ نوکری کی راہ میں آنے والی مشکلات کا اُس نے بڑی ہمت سے مقابلہ کیا اور ہمت نہیں ہاری ۔ اِس مرحلے پر وہ دوبارہ ٹھِٹھَک گیا، اُس نے دل میں سوچا کہ کیاوہ یہاں اِس بات کااعتراف بھی کرے کہ اُس نے کمپنی میں ملازمت حاصل کرنے کیلئے وہاں کے جنرل منیجر کو سفارش کروائی تھی۔ گو کہ یہ کوئی ایسی قابل گرفت بات نہیں تھی کیونکہ جس معاشرے میں وہ پیدا ہوا تھا وہاں یہ چلن عام تھا ۔ ایک لمحےکیلئے الف نے سوچا کہ اپنے بیان میں یہ بات تسلیم کر لے مگر اب اُس کا حوصلہ بڑھ چکا تھا ، سو اُس نے یہ بات بھی اپنے بیان سے حذف کردی۔ یہاں اُس نے توقف کرکے دوبار منصف کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی تاکہ اندازہ لگا سکے کہ منصف نے اِس غلط بیانی کا اثر لیا یا نہیں مگر اِس مرتبہ بھی اسے ناکامی ہوئی ۔ منصف اسی طرح سپاٹ بیٹھا تھا ۔ الف نے گہری سانس لی اور اپنا بیان جاری رکھا۔

اُس نے بتایا کہ نوکری ملنے کے بعد اُس کے ماں باپ نے اُس کی شادی ایک اچھے گھرانے کی لڑکی سے طے کر دی، لڑکی والوں کے گھر وہ لوگ مانگے کی گاڑی میں گئے لیکن انہیں یہ نہیں بتایاکہ یہ گاڑی اُن کی نہیں ، الف اور اُس کے باپ نے ایسا تاثر دیا جیسے یہ گاڑی الف کو کمپنی کی طرف سے ملی ہے ۔ لڑکی والے شریف لوگ تھے، رشتہ ہونے کے بعد جب انہیں اِس بات کاعلم ہوا تو وہ بس خاموش ہوگئے۔ الف نے اپنے بیان میں یہ بات بھی نہیں بتائی کیونکہ اب تک اسے اندازہ ہو چکا تھاکہ عدالت کے پاس اُس کے بیان کی صداقت کو جانچنے کا کوئی طریقہ نہیں ، اگر ایساکوئی طریقہ ہوتا تو الف کواُس کے بیان کے تضادات کی روشنی میں ضرور ٹوک دیا جاتا ۔ لیکن کمرہ عدالت میں تو روشنی ہی نہ ہونے کے برابر تھی ۔

الف کا بیان تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ اِس دوران اُس نے اپنی پوری زندگی کی روداد سنا دی مگر جہاں جہاں اُس سے کوئی کوتاہی یا لغزش ہوئی تھی ، اُس کو گول کردیا ۔بیان ختم کرنے کے بعدوہ تعظیماً جھکا اور اپنے فیصلے کا انتظار کرنے لگا ۔ کئی منٹ گزر گئے مگر منصف کی طرف سے خاموشی ہی رہی ۔ اُس نے ایک دو مرتبہ گلا کھنکار کر منصف کو متوجہ کرنا چاہا مگر اُس کی آواز دیواروں سے ٹکرا کر واپس آگئی ۔ اُس لمحے الف کو کچھ خیال آیا ، اُس نے قدم بڑھائے اور اُس جانب چلنا شروع کردیا جہاں جہازی سائز کی میز کے پیچھے منصف کرسی پر براجمان دکھائی دے رہا تھا۔ الف دھیرے دھیرے چلتا ہوا میز کے قریب پہنچا اورپھر اُس نے پنجوں کے بل کھڑے ہوکر میز کی دوسری جانب نظر ڈالی ۔

اُس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ،کرسی پر محض ایک بُت نصب تھا ، کسی ذی روح کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا ۔

(بشکریہ: روزنامہ جنگ)