انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام انیس احمد کے ناول ’نکا‘کی تعارفی تقریب

انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے زیر اہتمام  ناروے میں مقیم صحافی ، ادیب اور ناول نگار انیس احمد کے ناول ’نکا‘ کی تعارفی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس  میں لاہور کے ممتاز ترقی پسند دانشوروں اور مصنفین نے شرکت کی۔

حال ہی میں عکس پبلیکیشنز  نے انیس احمد کا ناول  ’نکا‘ نئی آب و تاب کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ ناول ابتدائی طور پر 2019 میں شائع ہؤا تھا لیکن اردو قارئین تک اس کی رسائی نہیں ہوسکی تھی۔ عکس پبلیکیشنز کے محمد فہد نے  یہ ناول پڑھنے کے بعد اسے دوبارہ شائع کرنے اور اردو قارئین تک پہنچانے کی ذمہ داری  اٹھانے کا فیصلہ کیا۔  اس ماہ کے دوران میں  ’نکا‘ کا دوسرا ایڈیشن سامنے آنے کے بعد بدھ 22 مئی کو انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور نے  ناول نگار سے ملنے اور ان کی تخلیق متعارف کرانے کے لیے ایک بھرپور تقریب کا اہتمام کیا۔ اس سے پہلے عکس پبلیکیشنز  بھی گزشتہ ہفتے کے دوران میں  ناول ’نکا‘ کی تعارفی تقریب منعقد کرچکے ہیں۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام تقریب کی صدارت ممتاز دانشور، ڈرامہ نگار اور اجوکا تھیٹر کے مینیجنگ ڈائیریکٹر شاہد محمود ندیم نے کی۔  تقریب میں ممتاز ترقی پسند ادیب اور استاد  ڈاکٹر سعادت سعید، ناول نگار اور شاعر   ڈاکٹر غافر شہزاد،  کاروان کے مدیر سید مجاہد علی ، شاعر اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی روح رواں عابد حسین عابد، خواجہ جمشید امام اور اظہر علی نے خیالات کا اظہار کیا۔ انجمن کے سیکرٹری و ادیب مقبول خالق نے خوبصورتی سے اس تقریب کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔

مقبول خالق نے  محفل کے آغاز میں مصنف کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ اگرچہ پاکستان سے باہر مقیم ہیں لیکن انیس احمد نے  اپنی دھرتی سے اپنا رشتہ استور رکھا ہے۔ ’نکا‘ اس کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ عکس پبلیکیشنز کے سی ای او محمد فہد نے ’نکا‘ کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ان کا ادرہ اچھا فکشن شائع کرنے ہی پر نہیں بلکہ انہیں تمام اہل علم اور  فکشن کے قارئین تک پہنچانے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ ناول ابتدائی طور سے پڑھنے کے بعد  انہیں احساس ہؤا کہ اردو قارئین ایک بہت اچھے اور حقیقی ناول سے محروم ہیں اور انہیں یہ ناول پہنچانا چاہئے۔ اسی لئے اس کی دوبارہ اشاعت کا ارادہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 500 صفحات پر مشتمل یہ ضخیم ناول اردو فکشن میں گراں مایہ اضافہ ہے۔

پبلشر کے بعد ناول پر تبصرہ کرنے اور مضامین پڑھنے والوں نے محمد فہد ہی کی بات کو آگے بڑھایا۔ اور اسے اردو ادب میں قابل تحسین اضافہ قرار دیا۔ محمد اظہر نے اپنی  گفتگو میں کہا کہ بیرون ملک سے آنے والے اکثر شعرا اور ادیبوں کے اعزاز میں تقاریب تو منعقد ہوتی ہیں لیکن عام طور سے  وہ اعلیٰ معیار پر پوری نہیں اترتیں لیکن پھر بھی ان کی تعریف کے پل باندھے جاتے ہیں۔ البتہ میں نے طے کیا تھا کہ ’نکا‘ اگر  اچھا ناول نہ ہؤا تو میں اس پر بات نہیں کروں گا۔ انہوں نے  ناول کو ایک  دلچسپ اور  منفرد کہانی قرار دیا جسے  ادب کے ہر قاری کو پڑھنا چاہئے۔

خواجہ جمشید امام نے  ناول پر تحریری مضمون پیش کرنے کے علاوہ تفصیل سے زبانی  گفتگو بھی کی۔  انہوں نے بتایا کہ یہ ناول انہیں تین دن پہلے ملا تھا۔ ان تین دنوں میں اس ناول نے انہیں اپنے ساتھ باندھے رکھا۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوکر اس ناول کے مطالعے میں مصروف رہے۔ اس کی کہانی اور منظر نگاری قاری کو پوری طرح اپنی جکڑ میں لے لیتی ہے۔ انہوں نے اس امر پر حیرت انگیز مسرت کا اظہار کیا کہ ناروے میں رہنے کے باوجود انیس احمد نے روہی سماج کے مناظر یوں تحریر کیے ہیں کہ وہ کسی خوبصورت پینٹنگ کی طرح محفوظ ہوگئے  ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف کوئی  بڑا ناول نگار ہی ایسے ہنر کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ انیس احمد اس تخلیق پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ترقی پسند شاعر عابد حسین عابد نے ناول کو معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا نمائیندہ قرار دیا اور کہا کہ مصنف نے بڑی خوبصورتی سے اس سماج کی تصویر کشی کی ہے جہاں استحصال اور دوہری اخلاقیات عام ہیں۔ ایسی تخلیقات ترقی پسند حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہوتی ہیں۔ انیس احمد کا ناول ’نکا‘ اس معیار پر پورا اترتا ہے۔ ڈاکٹر غافر شہزاد نے ناول کی کہانی، منظر نگاری، کرداروں کے باہم تعلق  اور ان کے میل جول سے آگے بڑھتی ہوئی کہانی کی توصیف کی اور ’نکا‘ کو ایک بیش قیمت   تخلیق قرار دیا۔ سید مجاہد علی نے وقت  کی قلت کی وجہ سے اپنا مضمون نہیں پڑھا تاہم انہوں نے دو نکات کی طرف توجہ دلوائی۔ ان کا کہنا تھا کہ  انیس احمد نے جب یہ ناول لکھا تو انہیں ناروے میں رہتے چالیس پینتالیس سال ہوگئے تھے۔ اتننی مدت تک پاکستان سے  دور رہ کر بھی انہوں نے ان مناظر اور کہانیوں کو خود میں محفوظ رکھا جو روہی جیسے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں رونما ہوتی ہیں۔  یہ ان کا کمال ہنر ہے کہ   ’نکا‘ لکھتے ہوئے انہوں نے    جزئیات نگاری کی  اور حقیقی زندگی کو ہوبہو پیش کرنے میں کامیاب  ہوئے۔ ان کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ کوئی بھی ادب پارہ یا فکشن اگرچہ کسی فرد، معاشرے یا خاص ماحول کے بارے میں ہوتا ہے لیکن  بڑا ادب وہی شمار ہوتا ہے جسے پڑھتے ہوئے تمام لوگ خواہ وہ دنہا کے کسی بھی علاقے میں رہتے ہوں، خود کو اس کہانی کا  حصہ سمجیں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔ مجاہد علی نے کہا کہ میرے خیال میں انیس احمد کا ’نکا‘ آفاقیت کے اس اصول پر پورا اترتا ہے۔ اسے صرف چولستان یا روہی کے لوگ ہی لطف اندوز نہیں ہوں گے بلکہ کسی بھی زبان و ثقافت سے تعلق رکھنے والے اس سے اسی طرح استفادہ کریں گے کیوں کہ اس میں مہارت سے انسانی احساسات و جذبات کو زبان دی گئی ہے۔

ادیب، دانشور اور استاد ڈاکٹر سعادت سعید  نے اپنا طویل مضمون پڑھنے سے گریز کیا اور اس کے صرف چند پیرے ہی پڑھ کر سنائے ۔ انہوں نے  ’نکا ‘ کو زندگی اور شخصی تجربات کا عکاس قرار دیتے ہوئے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ  ناول کا  ہیرو  نکا انیس احمد ہی ہے اور انیس احمد،  نکا ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ دریا کے پاٹ پر  چلتا تبت کی طرف جاتا جوگی نکا کسی دن  اوسلو میں انیس احمد کے فلیٹ میں پہنچ جائے اور ان سے ہم کلام ہو۔

انیس احمد نے  تقریب سے خطاب کرتے ہوئے  پزیرائی پر لاہور کے ترقی پسند دانشوروں کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ انہوں نے کیسے ایک کردار کے دھاگے میں ایک پورے سماج  میں رونما ہونے والے واقعات کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی ہے۔ اگر اردو پڑھنے والے اسے پسند کریں تو یہ ان کے لیے خوشی کا مقام ہوگا۔ تقریب کے صدر شاہد محمود ندیم نے انیس احمد سے پرانے تعلق خاطر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سب سے پہلے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا  سراغ لگایا تھا۔ انہیں خوشی ہے کہ طویل عرصہ کے بعد انیس احمد نے ایک عمدہ تخلیق کے ذریعے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ انیس  احمد خود کو نمایاں نہیں کرتے لیکن اس ناول کے ذریعے انہوں نے ایک اعلیٰ  تخلیق اردو کو دی ہے۔ انہیں لکھتے رہنا چاہئے۔

اس تقریب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ناول ’نکا ‘ کے بارے میں گفتگو کرنے والے سب  لوگ اسے پڑھ کر آئے تھے اور انہوں نے اس کے تمام  پہلوؤں کا احاطہ کرنے والے مضامین پیش کیے۔ تقریب کا اختتام  چائے کی پیالی پر علمی مکالمے کے ساتھ ہؤا۔ اس گفتگو میں اینس احمد، ’نکا‘ اور  بیرون ملک لکھے جانے والے  اردو ادب پر بات ہوتی رہی۔