سفر ہندوستان (1)

انڈیا جانے کا موقع ملنے کے بعد دوست و احباب کا اصرار ہے کہ انڈیا سے متعلق اپنے کچھ تاثرات بھی قلم بند کروں اور وہاں کے حالات کے بارے اظہار کروں۔ گو اتنے مختصر قیام میں کوئی موثر رائے قائم کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔لیکن پھر بھی آنکھوں دیکھا حال اور کانوں سنے کو پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

سردست کچھ تاثرات وہاں کے سیاسی حالات سے پہ مبنی یہ مختصر تحریر پیش کر رہا ہوں۔ کیونکہ انڈیا میں انتخابات مکمل ہو کر نتائج جلدی آنے والے ہیں لہٰذا اس بارے چند تجزیاتی الفاظ آپ کی نذر کر رہا ہوں۔ انڈیا جا کر سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ انڈیا کے بارے جو ذرائع ابلاغ اور وہاں کے باشندوں سے سنا تھا وہ دیکھنے کو نہیں مل رہا تھا۔ اُس کی ایک وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ ہندوستان کی ترقی سے متعلق سنی گئی روئیداد سے توقعات زیادہ باندھ رکھی ہوں۔

البتہ ایک چیز حیران کر رہی تھی کہ انڈیا کی بڑی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کی جھلک روزمرہ کی عام زندگی میں ابھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ شاید انڈیا کی ترقی کے ثمرات سے عام آدمی ابھی محروم تھا۔ اور دوسرا یہ کہ جو معاشرتی نظم و ضبط کسی ترقی یافتہ ملک کا ہوتا ہے وہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہی تیسری دنیا کے ممالک والی بے ہنگم ٹریفک اور شہروں میں وہی گندگی کے ڈھیر اور پھر شہریوں کی اکثریت کے غیر ذمہ دارانہ رویے، جس کا میں آبائی پاکستانی ہونے کے ناطے خود بھی ایک طرح سے حصہ ہوں۔

ویسے اس میں تو شک نہیں کہ انڈیا اور پاکستان تقسیم کے بعد دو ملک ہیں لیکن سرحد کے دونوں پار کے لوگوں میں ابھی بھی بہت سی عادات اور رویے مشترک دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کا احساس سرزمین انڈیا پہ کچھ وقت گزارنے کے بعد ہی ہو جاتا ہے۔ اور خاص کر روزمرہ کی زندگی اور گلی بازاروں میں لوگوں سے مل کر۔ گھر اور چاردیواری کا تو پتہ نہیں لیکن زندگی کی بھاگ دوڑ دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ چہرے مختلف ہیں لیکن عادات و سکنات تو لاہور کراچی والوں جیسی ہی ہیں۔ جب کچھ دن وہاں گزارے تو کان پڑی آوازوں نے چونکا دیا کہ ہندوستان کے عوام بھی وہی رشوت ستانی کا رونا رو رہے ہیں۔ نوجوان بیروزگاری پہ ماتم کناں ملے۔ سرکار کی عیاشی کا شکوہ، اُمرا کا قومی دولت پر قبضہ سے عوامی بیزاری۔حقیقی انصاف کی عدم دستیابی پہ طعنہ زنی، حکومت کی طرف سے سرکاری اختیارات کے غلط استعمال کا خوف، سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے سرکاری مشینری کا استعمال ۔

ایک چیز البتہ مختلف تھی کہ کہیں پہ بھی انڈین فوج کی سیاست میں مداخلت کا کوئی الزام سننے کو نہ ملا۔ بلکہ جو بھی شکایات تھیں ان کا ہدف سرکاری نوکر شاہی، پولیس کی بےجا مداخلت اور جبر اور جھوٹے مقدمات کی بازگشت۔اور پھر موقع پرست سیاستدانوں پہ لعن طعن، جو ہوا کا رُخ دیکھ کر جماعتیں بدلتے ہیں، ٹھیکیداریوں میں گھپلوں کی کہانیاں۔ صحافت کی جبری زبان بندی کی داستانیں اور نو دولتیوں کی طرف سے میڈیا ہاؤسز کی خریداری کا دکھ جس میں صحافت کے ادارتی اختیار پہ قدغن کی صدائیں تھیں۔

اور اُس وقت تو حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب وہاں کے مقامی اخبارات میں نامی گرامی ماہرین قوانین اور سابقہ جج صاحبان کی طرف سے ایک خط نظر سے گزرا جس میں عدلیہ سے اپنے وقار کو بچانے اور سیاست سے دور رہنے کی اپیل گئی تھی۔ اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ عدلیہ اپنا مقام و وقار کھو رہی ہے۔ اور لوگوں کا عدلیہ بھی اعتماد زوال پذیر ہے۔

میں نے تو بس یہی سمجھا کہ اس سرحد کے دونوں طرف کے عوام ایک ہی قسم کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی پالنے میں تو چاق وچوبند جبکہ اپنے حالات کو سنوارنے میں ایک جیسی ہی غفلت کا شکار۔ برحال میرے لیے یہ سب کچھ حیرت سے کم نہ تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ میری حیرت کی وجہ وہ توقعات ہوں جو بین الاقوامی اور انڈین میڈیا میں انڈین معیشت کے اعدادوشمار پر قائم کی گئی تھیں۔ لیکن موقع پہ دیکھ کر وہ سب کچھ ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دےرہا تھا۔ کیونکہ ایک خوشحال اور ترقی کرتے معاشرے میں اعلیٰ ظرفی، بلند نظری، بُردباری اور نظم و ضبط کی موجودگی لازم ہوتی ہے یا پھر ا سکی علامات عیاں ہوتی ہیں۔

اسی دوران میں ایک اور چیز جس نے حیران کیا وہ وہاں کے عوام کی اپنے نظام جمہوریت اور سیاسی کلچر سے متعلق مضحکہ خیزیاں تھیں۔ 77 سال تک انتخابات کے ذریعے چلنے والے نظام پہ عوام کے شک و شبہات اور الیکش کمیشن کی جانبداری پر سوال۔ ایکشن کمیشن آف انڈیا کی جانبداری پہ اعلیٰ عدلیہ میں عرضیوں کا دائر ہونا اور ایکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) سے متعلق چہ میگوئیاں سُن کر تو بندہ ایک طرح سے سکتے میں چلا جاتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک کے باشندے اپنے جمہوری نظام کی بگڑتی حالت سےاتنے پریشان ہیں۔ جہاں الیکشن کمیشن پر بے اعتمادی ہو وہاں جموریت بیچاری تو تڑپ ہی سکتی ہے۔

پھر سیاستدانوں کی طرف سے ظاہر ہونے والی عدم بلوغیت۔ اکثریت کو یہ کہتے سُنا کہ سیاستدان موقع پرستی کی سیاست کے اسیر ہیں۔ ہر کوئی قلیل المدتی مفادات کا پیروکارہے اور دور اندیشی اور قومی مفادات سے عاری ہے۔ گو لوگ کھل کر بات کرنے سے کتراتے بھی تھے لیکن جب آرام سے بیٹھ کر موقع ملا اور دوسروں کو احساس ہوا کہ مقصد آگاہی ہے، نہ کہ کسی تنقیدی پہلو کی تلاش تو پھر لوگ کھلا اظہار کردیتے ہیں۔

قابل تعجب تو یہ تھا کہ بی جے پی کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنی مایوسی کااظہار کر رہی تھی اور برملا اعتراف کر رہی تھی کہ بی جے پی کی حکومت مندر کی سیاست سے آگے نہیں بڑھ پارہی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کب تک مندر کی سیاست کے بھنور میں گھرےرہیں گے۔ کیونکہ عوام کو تو پیٹ کی بھی فکر ہے۔ جب میں نے کہا کہ بی جے پی کی تو اس وقت انڈین قومی سیاست پر مکمل گرفت ہے اور اپوزیشن تو بہت ہی کمزور نظر آتی ہے تو آگے سے کہا گیا کہ الیکشن کے بعد آپ کوئی رائے بنانا، ابھی مرحلہ وار جاری انتخابات کے نتائج آنے کا انتظار فرمالیں۔

اس سے میرا تجسس اور بڑھا اور ایک سابق سیاستدان ہونے کے ناطے مزید ہندوستانی سیاست کو کریدنے سے یہ بات ابھر تی نظرآئی کہ مودی سرکار اور بی جے پی جس فتح کی توقع کر رہی ہے، وہ شاید اتنی آسان نہ ہو۔ اُس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ عوام شاید تیسری بار ہندوتوا اور اقلیتوں سے متعلق شدت پسندی کی بنیاد پہ جذبات میں بہہ کر ووٹ دینے کے موڈ میں نہیں۔ کیونکہ عوام میں مہنگائی کی وجہ سے بہت بے چینی ہے۔ اور مستقبل کے بارے نوجوان بہت پریشان ہیں ۔ میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انڈیا جیسا ملک جس کی ترقی کے ہر طرف چرچے ہیں، وہاں پر نوجوانوں میں اتنی نااُمیدی بھی پائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی طرح انڈیا کے اندر بھی بہت بڑی اکژیت کی ترجیح بیرون ملک ہجرت ہی دکھائی دی۔ پچھلے چند سالوں میں لاکھوں نوجوان بیرون ملک جا چکے ہیں اور ہزاروں لائن میں لگے ہیں۔ اب الیکشن کا آخری مرحلہ یکم جون کو مکمل ہو جائے گا اور چار جون کو نتائج آئیں گے تو میرے اندازے کے مطابق بی جے پی کو نتائج حیران کر سکتے ہیں اور توقع کے بالکل برعکس بی جے پی کی مقبولیت گرسکتی ہے ۔ اس میں اپوزیشن کا کردار شاید اتنا نہ ہو جتنا بی جے پی کی دس سالہ کارکردگی سے عوامی کی مایوسی کا ہو۔ کیونکہ عوام کا ایک بڑا حصہ توقعات کے پورے نہ ہونے پہ شکوہ کناں دکھائی دیا۔ چند لوگوں کےبہت امیر ہو جانے اور حکومت کے بڑے دعوؤں کے باوجود عام لوگوں کا ملکی ترقی سے براہ راست بہر ہ ور نہ ہونے کے تاثر سے موجودہ حکومت عوامی بے رُخی کا شکار ہو سکتی ہے۔

بے شک بی جے پی ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتی ۔ لیکن روز مرہ کے مسائل سے دوچار عوام اپنی معاشی حالت میں بہتری کی خواہاں ہیں، نہ کہ جذباتی بھاشن کی طالب۔ اس طرح کی عوامی بے چینی کی موجودگی میں بی جے پی کے حکومت سے ہاتھ دھونے کے بہت سے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ بہر حال نتائج کا وقت اب بہت قریب آ چکا ہے اور اکثر لوگوں کی رائے میں بی جے پی جیت جائے گی لیکن میرے خیال میں یہ بات خارج از امکان نہیں کہ عام تاثر کے برعکس نتائج بی جے پی کے لیے حیرت کا سندیسہ لائیں ۔ لگتا ہے کہ الیکشن کے نتائج آنے پر شاید دھاندلی کی بازگشت بھی سُنائی دے گی۔ اور ایسا ہونامیرے لیے باعث حیرت نہیں ہو گا۔ لہٰذا اگر آپ انڈیا میں کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیں اور کانوں پڑی آوازوں پر ہی اکتفا کریں تو آپ کو معلوم نہ پڑے گا کہ آپ پاکستان میں بیٹھے ہیں یا کہ انڈیا میں۔

عوامی آہ وزاری ایک ہی جیسی ہے اور اپنی اپنی پسند کی پذیرائی کا انداز بھی ایک ہی جیسا ہے۔