شیطان کا قہقہہ

عمر رسیدہ حاجی  مزدلفہ میں تیزی سے بڑے بڑے پتھر جمع کرکے اپنے تھیلے میں ڈال رہا تھا۔ پورا دن میدان عرفات میں وقوف کے دوران تھکاوٹ  و نقاہت کے آثار نمایاں تھے  لیکن  یہ بوڑھا عقیدت مند چاہتا تھا کہ اگلے تین دنوں میں جب اسے  شیطان کو کنکریاں مارنے کا موقع ملے تو اس کے پتھر بڑے اور بھاری ہوں تاکہ شیطان کی ٹانگ نہیں تو ہاتھ تو ٹوٹ ہی جائے۔ کم بخت سب مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہتا ہے۔

اس موقع پر اس بزرگ کو اس سے غرض نہیں تھی کہ جمرات میں جس مقام کو شیطان کی ’پناہ گاہ‘ سمجھ کر  کنکریاں ماری جاتی ہیں، وہ تو محض علامت ہے اور کنکریاں مارنا    سنت ابراہیمی ۔ اگر  چھوٹا یا  بڑا پتھر مارنے سے شیطان فنا ہو سکتا تو  اب تک اس عفریت کا   خاتمہ ہوچکا ہوتا اور مسلمان  ’گمراہ‘  نہ ہورہے ہوتے اور نہ ہی اب انہیں پتھر مار کر شیطان کو نقصان پہنچانے کی ضرورت محسوس ہوتی۔

عقیدے  اور روایت کو اگر علامت سے حقیقت کی نشانی بنا لیا جائے تو اس کا حشر بھی اس شخص جیسا ہی ہوتا ہے جو اپنے خیالوں میں گم ، نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے پرعزم  ، شیطان کو ختم کرنے کے ارادےسے   کنکریوں کی بجائے  نوکیلے  بھاری پتھروں سے اپنا تھیلا بھرنا چاہتا تھا۔

مزدلفہ میں حاجی پہنچتے ہیں تو رات کا وقت ہورہا ہوتا ہے  نفسا نفسی کے عالم میں کسی کو دوسرے کی خبر گیری کا خیال بھی نہیں آتا۔ ہر کوئی اپنے خیالوں میں گم، عرفات  میں حج کا رکن اعظم ادا  کرنے کی سرشاری میں ،  عبادت یا آرام کے لیے وسیع و عریض میدان میں کوئی کونا کھدرا تلاش کرنے کی فکر میں ہوتا ہے کیوں کہ علی الصبح منیٰ پہنچ کر جمرات میں شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل شروع کرنا ہوتا ہے۔

ایسے میں کسی  کو اس  سادہ لوح  بزرگ کی لگن اور ذوق و شوق پر  دھیان دینے کا موقع ہی نہیں ملا۔  جب بڑے بڑے پتھروں سے تھیلا بھاری ہونے لگا اور اس میں  مزید پتھر ڈالنے کی گنجائش نہ رہی،  ہانپتا کانتا بوڑھا ایک ٹیلے پر سستانے کے لیے بیٹھ گیا۔   حاجیوں کے جس گروپ میں وہ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لیے آیا ہؤا تھا، اس نے قریب ہی ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ ایک نوجوان کو اچانک اس بوڑھے ساتھی کا خیال آیا تو اس نے ادھر ادھر دیکھا اور دور ایک ٹیلے پر بیٹھا بزرگ  دکھائی دیا۔  نوجوان  کو خیال آیا کہ وہ یا تو راستہ بھول گیا ہے یا پھر وہ  بیمار ہے ۔ شاید اسے طبی امداد کی ضرورت ہو۔ چوکس نوجوان بوڑھے کے پاس پہنچا تو کسی سوال جواب سے پہلے ہی بوڑھے نے پریشانی میں پوچھا:

’بھئی تمہارے پاس کوئی فالتو تھیلا ہے‘۔ حالانکہ اسے یقین تھا کہ حج کی نفسانفسی میں اور مزدلفہ جیسی مشکل جگہ پر کوئی اپنا تھیلا اسے کیوں دے گا۔ مگر ساتھ ہی دل میں خیال گزرا کہ شاید اللہ  میری نیت  قبول کرلے اور واقعی پتھر ڈھونے کے لئے اسے کوئی دوسرا تھیلا مل جائے۔

نوجوان نے حیرت سے بزرگ کو دیکھا۔ اس کے سوال کو سمجھے بغیر نظرانداز کیا اور کہا کہ ’کیا آپ راستہ بھول گئے ہو یا طبیعت ناساز ہے۔ ساتھیوں  میں کیوں نہیں آئے؟‘

’نہیں بھئی نہیں۔ میں راستہ نہیں بھولا ۔ میں تو اپنی چٹائی بچھا کر آیا ہوں۔ ابھی تو شیطان کو مارنے کے لیے پتھر جمع کررہا تھا۔ ایک تو یہ تھیلا بھاری ہوگیا ہے،  دوسرے اس میں صرف دس ہی پتھر آئے ہیں۔ ابھی گیارہ  پتھر اور جمع کرنے ہیں۔ اسی لیے تھیلےیا چادر  کاپوچھ رہا ہوں‘۔

نوجوان مسکرایا۔ اس نے کہا ’بابا  جی،  اتنے بھاری پتھر کون مارتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کنکریاں جمع کرتے ہیں جو جیب میں بھی آجاتی ہیں۔ آپ کا یہ تھیلا  اٹھائے  گا کون؟ ‘

بزرگ نے نوجوان کی بات نظرانداز کرتے ہوئے کہا ’ہاں ہاں مجھے پتہ ہے۔ تب ہی تو شیطان دندناتا  پھرتا ہے۔ یہ جو کنکریاں تم دکھا رہے ہو، ان سے بھلا شیطان ڈرتا ہے۔ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ بھاری پتھر لے جاکر شیطان کا ہاتھ پاؤں توڑ دوں۔  تاکہ اس  کی گمراہی تو ختم ہو‘۔

نوجوان کو بوڑھے کی حماقت پر غصہ تو بہت آیا لیکن کچھ بزرگی کا لحاظ اور کچھ حج جیسی عبادت ضائع ہوجانے کا خوف، اس نے نرمی سے بوڑھے کا ہاتھ پکڑا اور اسے اٹھاتے ہوئے بولا ’آپ میرے ساتھ چلو۔ لاؤ یہ تھیلا مجھے دو، پہلے کچھ دیر آرام کرلو پھر دیکھتے ہیں کہ پتھروں کا کیا کرنا ہے‘۔

بوڑھا  شدید تھکا ہؤا تھا لیکن اپنے جذبے ، شوق و  جوش میں پتھر جمع کرتا پھرتا تھا۔  اب بیٹھا ہانپ رہا  تھا۔ اس میں بھی نوجوان کے ساتھ بحث کی ہمت نہیں تھی۔  پیاس  بھی لگی تھی۔ سوچا گروپ میں پانی تو مل ہی جائے گا  پھر  ایک آدھ گھڑی آرام کرکے فجر سے پہلے پتھر جمع کرتا ہوں۔ اس نے پہاڑی دیکھ لی تھی جہاں اس کے خیال میں ایسے پتھر موجود تھے جو شیطان کو گزند پہنچا سکتے تھے۔ وہ ایک چھوٹے سے ٹیلے کی اوٹ میں اپنی چٹائی بچھا کر اس پر اپنا لوٹا اور رکھ آیا تھا تاکہ بعد میں تلاش کرنا مشکل نہ ہو۔

دونوں واپس روانہ ہوئے۔ گروپ کے لوگ بھی بوڑھے  کو خیریت سے دیکھ کر مطمئن ہوگئے ۔ بوڑھے نے اپنی جگہ تلاش کرنی شروع کی۔ جس مقام پر اس نے چٹائی بچھائی تھی وہاں کسی گروپ کا سامان پڑا تھا اور کچھ لوگ بیٹھے آرام کررہے تھے۔

’میری  چٹائی کہاں گئی‘؟ اس نے سوچا اور تگ و دو کرنے لگا۔  ساتھیوں نے سمجھایا کہ وہ جگہ بھول گیا ہوگا۔  مزدلفہ میں نشانیاں رکھ کر  چیز تلاش نہیں کی جاسکتی۔ یہاں تو نفسا نفسی کا عالم ہے۔ لیکن میری چٹائی تو بالکل علیحدہ ہے۔ میرے گاؤں کے کاریگر نے خاص طور سے بنا کر دی تھی۔ اس میں نیلے اور سرخ رنگ کا امتزاج تھا۔ میرے بچپن کا نام ’سائیں‘ بھی اس پر کڑھا ہے۔  ابھی دیکھتا ہوں ، ضرور مل  جائے گی۔ سب اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے اور بوڑھا پتھروں کو بھول کر چٹائی کی تلاش میں بھٹکنے لگا۔

اچانک اسے اپنی چٹائی دکھائی دی۔ ہاں یہی تو ہے۔ وہی رنگ ، وہی  لمبائی و چوڑائی، وہ آگے بڑھا۔ چٹائی پر ایک لمبا  تڑنگا شخص  بے خود سورہا تھا۔  ’ارے یہ میری چٹائی‘   ۔ وہ  جذبے سے آگے بڑھا۔ ابھی وہ اس  شخص کو اٹھا کر چٹائی واپس مانگنا ہی چاہتا تھا کہ کسی نے اس کےکان  میں سرگوشی کی:

 ’یہ چٹائی میں نے اسے دی ہے‘

غصے میں بزرگ نے گھوم کر دیکھا۔ کوئی دکھائی نہیں دیا لیکن اس نے جھنجلاہٹ میں پوچھا’ لیکن تم کون ہو میری چٹائی دینے والے‘؟

’شیطان‘ ایک پراسرار سرگوشی بوڑھے کے کان میں   گونجی۔

’کیا‘ بوڑھے نے پریشانی سے سوال کیا۔ جواب میں اسے ایک زوردار قہقہہ سنائی دیا۔ شیطان کا قہقہہ ۔ اور بوڑھا بدحواسی میں چکرا کر گر گیا۔ لوگوں نے کہا ڈاکٹرکو  بلاؤ، نہ جانے اس بوڑھے کوکیا ہؤا۔

قہقہے کی گونج فضا میں دور تک محسوس ہوتی تھی لیکن اسے سننے والا کوئی نہ تھا۔