صحافی اداریے میں کیا لکھے؟
- تحریر سید مجاہد علی
- جمعہ 21 / جون / 2024
سوات کے سیاحتی مقام پر ہجوم نے توہین قرآن کے الزام میں ایک شخص کو پولیس کی حراست سے چھڑا کر گولی مار کر ہلاک کیا پھر اس کی لاش کو نذر آتش کرکے اسلام کے ’پائیندہ و زندہ‘ ہونے کے نعرے بلند کیے۔ البتہ اس فعل میں شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان نامی ملک میں حکومت ہی نہیں ریاست نامی چیز بھی موجود نہیں ہے۔ افراد ہیں یا گروہ ہیں۔ ان کے سامنے ہر قانون یا واعظ بے کار ہے۔
ایسا پاکستان میں ہی کیوں ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے مذہب کی توہین کرنے والے بھی زیادہ تر پاکستان ہی میں دریافت ہوتے ہیں اور اسی ملک میں انہیں ’عوامی انصاف‘ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ حیرت ہے جس ملک میں جمہوریت کو مشکوک اور مذاق بنا لیا گیا ہو، وہاں عوام کو ہجوم کی صورت میں عدالت لگانے، ’انصاف‘ کے تقاضے پورے کرنے اور پھر فوراً ہی سزا پر عمل کروانے کی تقریباً مکمل آزادی ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ یہ بیان غلط ہے۔ پولیس بھی موجود ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کام کررہے ہیں۔ جیسے مدین میں اس’ گستاخ قرآن‘ کو پکڑ لیا گیا تھا لیکن ہجوم بے قابو ہوگیا۔ پولیس کی نفری کم پڑ گئی، مساجد سے اسلام زندہ کرنے کے لیے سروں سے کفن باندھ لینے کی صدائیں ، پولیس افسروں کی طرف سے پر امن رہنے کی اپیلوں سے بہت زیادہ بلند آہنگ تھیں۔ غور کیا جائے کہ اس ہنگامے میں جو 11 افراد زخمی ہوئے ہیں، ان میں 13 سے24 سال کے نوجوان شامل ہیں۔ یہ وہی نسل ہے جو اس ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے اور تعلیم و تربیت سے انہیں ملک میں معاشی ترقی، سماجی بہتری اور جمہوری روایات کا پاسبان بنایا جاسکتا ہے۔
لیکن ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جس نے یہ قیمتی نسل محلے کے مولوی کی نعرے بازی یا کسی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے بلند ہونے والی صداکے حوالے کردی ہے۔ جب موجودہ زندگی اور اس کی ضرورتوں کو بعد از مرگ حیات سے کم تر ثابت کرنے کے اسباق نصاب کا حصہ ہوں گے تو کیا وجہ ہےکہ نوجوان نعرے کا پیچھا کرنےکی بجائے اسکول کا منہ دیکھیں گے۔ اس نعرے میں طاقت ہے، نجات ہے اور راحت ہے۔ اس کا سبق ہی تو ہمیں اسکول میں مدرس ، کالج یا یونیورسٹی میں پروفیسر پڑھاتے ہیں۔ یہی تصور تو مولوی سے لے کر سیاست دان تک عام کرتے ہیں۔ کون سی جماعت ہے جو انسانی زندگی کی قدر کی بات کرتی ہو، کون سیاست دان ہے جس کا عمل معاشرے میں فکری احیا چاہتا ہو۔ کیا سب ہی لیڈر خواہ وہ جبہ و دستار تھامے ہوں یاقومی اسمبلی کے مائیکرو فون سے ارشادات ارزاں کررہے ہوں، اسی گھسے پٹے نعرے پر اپنا بیانیہ استوار نہیں کرتے جس نے پاکستان کے لوگوں کو انسان سے وحشی درندہ بنا دیا ہے۔ وہ مظلوم ہیں، پھر بھی مل کر فلاح کا کام کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے بلکہ مل جائیں تو تخریب کا ہر مرحلہ طے کرنے پر جوش و خروش سے راضی ہوجاتے ہیں۔ یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو اس حد تک کون لے کر آیا ہے اور کون ہے جو اب بھی اپنی پناہ گاہ میں بیٹھا اس تخریب کو اپنی فلاح کے لیے برتنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
مدین میں ایک انسان بے موت مارا گیا۔ شاید اچھا ہی ہؤا۔ اگر سابق فوجی آمر جنرل ضیا کے عطا کردہ توہین مذہب قوانین کے تحت وہ پولیس کے ذریعے ہمارے عدالتی نظام کے ہتھے چڑھ جاتا تو کیا ہوتا؟ کیا کوئی عدالت جاننے کی کوشش کرتی کہ کہ اس نے واقعی کوئی قصور کیا ہے یا اسے محض کسی رنجش یا لین دین کے کسی قضیہ یا کسی گروہی یاسیاسی تنازعہ کی وجہ سے اس الزام میں پکڑ کر ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس نظام انصاف میں ایک ہونے والا چیف جسٹس کسی جڑانولہ میں بعد از فساد امدادی سامان لے جاکر افسوس کا اظہار تو کرسکتا ہے لیکن انصاف کی مسند پر بیٹھا ہؤا کوئی جج اس مشتعل ہجوم کے سامنے بے بس رہتا ہے جسے اگر اس کی ’مرضی کا انصاف‘ نہ ملے تو وہ جج کے گھر پر حملہ کرنے پہنچ جائے گا۔ ملتان کے جنید حفیظ کا المیہ اور اس کے وکیل راشد رحمان کا قتل ابھی تک حافظے سے محو نہیں ہوتا۔ لیکن کسی عدالت کو یہ المیہ دکھائی بھی نہیں دیتا۔
مدین ہی میں دیکھ لیجئے۔ ہوٹل کے عملے نے پولیس کو مطلع کیا۔ پولیس آکر توہین مذہب کے نام نہاد ملزم کو گرفتار کرکے تھانے لاتی ہے لیکن مساجد کے لاؤڈ اسپیکر علاقے میں آگ لگادیتے ہیں۔ آخرت سنوارنے کے جنون میں نوجوانوں کا ہجوم جمع ہوتا ہے۔ قانون محو تماشہ رہتا ہے اور پولیس بے چارگی کا نمونہ بنے اپنا تھانے اور گاڑیاں جلنے نظارہ کرتی ہے یا اہلکار اپنی جان بچا کر ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ سمجھ لینا بھی کچھ عجب نہیں ہونا چاہئے کہ بعض پولیس والے بھی اس ہجوم کا حصہ بن کر خود اپنے لیےجنت میں جگہ بنانے کی کوشش میں مصروف رہے ہوں، جس نے تھانہ جلایا اور ایک انسان کو ہلاک کیا۔
سابق وزیر فواد چوہدری نے ایکس پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’ پاگل پن جاری ہے۔ ہمارا معاشرہ خود کشی کا تہیہ کیے ہوئے ہے‘۔ پچیس کروڑ کے ملک میں ایک فرد کو اس وقوعہ میں دہشت یا تخریب کا پہلو دکھائی دیا ہے۔ کسی مفتی اعظم، کسی شیخ الشیوخ، کسی علم کے بے کراں سمندر، کسی سیاست دان کے شعور نے اسے یہ حوصلہ نہیں دیا کہ وہ اس واقعہ میں قوم کی ہلاکت کا منظر دیکھ کر سامنےآئے اور پاکستانیوں کو اجتماعی خود کشی سے روکنے کا اہتمام کرے۔ اب گنتی کرنے اور حوالے دینے کا محل نہیں ہے۔ پاکستان میں تواتر سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں مذہب سے کسی کی محبت واضح ہو یا نہ ہو لیکن خوں ریزی و قتل و غارت گری کے ذریعے خود کو منوانے کا راستہ سمجھنے کا رجحان فزوں تر ہے۔ ہجوم کے انصاف کی اس صورت حال سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ لوگ ملک کے نظام انصاف سے مایوس ہیں اور خود ہی موقع پر انصاف فراہم کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ عدالتوں اور نظام کو مزید زیر بار نہ کیا جائے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس رویہ سے ریاستیں تعمیر نہیں ہوتیں، ان کی تباہی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
صحافی پر یہ ساری رات بھاری تھی۔ ساری رات لفظ لکھتا اور مٹاتا رہا۔ جان نہیں پایا کیا لکھنا چاہئے اور کیسے۔ ہجوم کے ہاتھوں ایک قتل ہوگیا۔ مجمعے کا غصہ اس پر بھی کم نہیں ہؤا اور مزید ثواب کے لیے لاش کو جلاکر درجات کی بلندی کا اہتمام کیا گیا۔ کیا ہؤا؟ پاکستان میں روزانہ 24 افراد قتل ہوتے ہیں۔ دنیا میں یہ تعداد 1700 ہے۔ اگر ان میں ایک منکر قرآن کا اضافہ ہوگیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ لوگ پیداہوتے ہیں تو مرنا بھی برحق ہے۔ روزانہ پاکستان میں تقریباً چار ہزار لوگ اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں روزانہ مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 67ہزار ہے۔ ایک موت پر صحافی کیوں بدحواس ہے۔ کیوں کہ یہ موت ایک فرد کی نہیں ، زندگی کے اس احساس کی موت ہے جس کی بنیاد پر کسی ملک یا قوم کی تعمیر ممکن ہے۔ صحافی اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتا رہا کہ معاشرے کی تباہی کے اس سفر پر غور کرنا بھی کیا اس کے ادارتی فریضہ میں شامل ہے۔
اداریہ تو درپیش مسائل و واقعات کا جائزہ لے کر کوئی منطقی نتیجہ نکالنے کا نام ہے۔ ایک فرد کی ہلاکت پر اداریہ لکھنے سے کیا حاصل۔ دنیا میں کتنے آلام ہیں۔ غزہ میں تباہی رکنے کا نام نہیں لیتی۔ حج پر گرمی سے مرنے والے حاجیوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے قرار دیا کہ نیا بجٹ ’معاشی دہشت گردی‘ ہے۔ کیا جاننا نہیں چاہئے کہ عمر ایوب جیسا منجھا ہؤا سیاست دان کیوں چن چن کر ایسے الفاظ استعمال کرتا جس سے پریشانی میں اضافہ ہو۔ پھر حکومت کے اندر اپوزیشن کا منظر بھی کم دلچسپ نہیں۔ ایک بار پھر وزیر اعظم شہباز شریف پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرادری کو’منانے‘ میں کامیاب ہوگئے۔ کیا یہ کوئی کم اہم واقعہ ہے؟
ملک کے چیف جسٹس نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی ایک درخواست پر غور کے دوران ریمارکس میں عدلیہ کے ’مصالحتی کردار‘ کی بات کی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ الیکشن ٹریبونلز پر تنازعہ کھڑا کرنے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مل کر معاملہ کیوں طے نہیں کرتے۔ زریں حروف سے لکھے ان الفاظ کا البتہ کارروائی کے بعد جاری ہونے والے فیصلے میں ذکر نہیں تھا۔ صحافی پریشان تھا کہ کیا اب عدالتیں انصاف فراہم کرنے کی بجائے مصالحت کروایا کریں گی۔ یہ انقلاب کیسے برپا ہوگا۔ سوال لبوں پر مچلتے رہے کہ سوات کے قصبے مدین میں ایک قتل ہوگیا۔ اس قتل پر ہی کیوں لکھا جائے؟
دنیا بھر کی معیشت دگرگوں ہے۔ ہر جگہ پریشانی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا بھرمیں گرمی کی شدت بڑھا رہی ہیں۔ کرہ ارض کی آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان میں حکومت لوگوں کو سہولتیں دینے میں ناکام ہے۔ خیبر پختون خوا میں لوڈ شیڈنگ زیادہ کیوں ہے۔ صحافی کے پاس موضوعات کی کیا کمی ہے۔ لیکن اس انسان کی جلتی ہوئی لاش سے نظر کیوں نہیں ہٹتی۔
دیکھئے ایک شخص سوات میں مارا گیا۔ سیالکوٹ میں اس کے گھر کے باہر پولیس کو پہرا لگانا پڑا ہے۔ اور مرنے والے کی ماں نے ویڈیو پیغام میں واضح کیا ہے کہ ’ ان کے بیٹے کا ڈیڑھ سال سے اپنے گھر والوں سے کوئی تعلق نہیں۔
ان کے شوہر30 سال قبل وفات پا گئے تھے۔ بیرون ملک سے واپس آنے کے بعد اس بیٹے کی شادی کروائی ۔ تاہم یہ ہم سے لڑائی جھگڑا کرتا رہا جس پر اس کے حصے کی جائیداد اسے دے دی اور قطع تعلق کرلیا‘۔ یہ ایک ایسی ماں کا بیان ہے جس کا جوان بیٹا ایک ہجوم نے ہلاک کیا اور اس کی لاش جلاکر بھسم کردی۔ ماں کے بیان میں کسی غم یا تکلیف کا شائبہ نہیں ہے۔ کون ہے جو ماؤں کو بیٹوں کے مرنے پر رونے بھی نہیں دیتا۔
صحافی اس سوال کا جواب کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بتائے صحافی اداریے میں کیا لکھے؟