اپنا مذہب تبدیل کرلو!
- تحریر سید مجاہد علی
- منگل 25 / جون / 2024
تھانے میں عید الاضحیٰ سے پہلے ہی عیدکا سماں تھا۔گوشت کی فراوانی تھی۔ تھانیدار صاحب نے تھانے کے احاطے میں بھنے گوشت کی دیگ اتروانے اور گھروں کے فریزر مال غنیمت سے بھرنے کے بعد بچا کھچا گوشت غریب غربا میں تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ گویا عید سے پہلے عید کے مزے لیے جارہے تھے اور اس بندربانٹ میں سب ہی شامل تھے۔
یوں تو عید قربان دو روز بعد تھی۔ بازاروں میں جانور خریدنے کی گہما گہمی تھی اور ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر جانور خرید کر اپنا دل خوش، آخرت خوشگوار اور اہل محلہ کو مرعوب کرنا چاہتا تھا۔
عید الاضحیٰ پر قربانی سنت ابراہیمی بتائی جاتی ہے۔ اس کا مقصد لوگوں میں جذبہ ایثار پیدا کرنا ہے۔ یہ کہ وہ اللہ کے حکم پر اپنے پسندیدہ جانور کی قربانی دے کر حضرت ابراہیم کی اس سنت کی یاد تازہ کریں کہ اللہ کا حکم آجائے تو بیٹا قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ اس روایت کا مقصد مسلمانوں کو اطاعت الہیٰ کا سبق یاد کروانے کے علاوہ معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا بھی ہے۔
یعنی صاحب استطاعت اچھا جانور خرید کر قربان کرتا ہے ۔ اس کا گوشت عزیزوں ، دوستوں اور غریبوں میں تقسیم کرکے ان لوگوں کو بھی خوشی منانے اور اچھا کھانا پکانے کا موقع فراہم کرتا ہے جو خوشی کے موقع پر وسائل کی کمیابی کی وجہ سے بے بس و لاچار ہوتے ہیں۔ اس طرح صاحبان حیثیت اپنی سماجی و معاشرتی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ گو کہ وقت نے روایات کی شکل بگاڑ دی ہے۔ لیکن ان میں ترمیم و تبدیلی عام انسان کے بس میں نہیں۔
ایک تو قربانی کرنے اور دوسروں کا ’حصہ ‘ دینے یا ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے اس فریضہ کی وضاحت کرتے ہوئے علمائے دین نے کبھی یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ وقت تبدیل ہونے کے ساتھ قربانی کے کچھ دوسرے لوازمات کا خیال رکھنا بھی اہم ہے۔ یعنی ماحول پاکیزہ رکھنے کا اہتمام کیا جائے، جانور خریدنے اور ذبح کرنے کے عمل کو اپنے لیے ’ثواب‘ اور دوسروں کے لیے زحمت نہ بنایا جائے۔
چونکہ مذہبی فرائض محض سماجی روایت و پہچان کا ذریعہ بن چکے ہیں ، اس لیے ایسی بنیادی باتوں پر غور کرنا عام مسلمان اہم نہیں سمجھتا۔
جانور کی قربانی کرنا اگر اللہ کے نام پر ایثار کا نام ہے تو کیا گلی محلے صاف رکھنا اور ہمسایوں کو کسی غیر ضروری مشکل، آلائش، بدبو یا پریشانی سے محفوظ رکھنا بھی صلہ رحمی اور دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی خواہشات پر ترجیح دینے کے زمرے میں نہیں آتا؟ ان سادہ سوالوں کو مشکل پہلو سمجھ کر نظرانداز کرنا عام رویہ ہوگیا ہے۔ حکومتیں شہریوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہیں لیکن باقی کسر مسلمان خود ہی پوری کرلیتے ہیں۔ کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ وقت کے ساتھ آبادی میں اضافے اور معاشرتی طور و اطوار میں تبدیلی کے سبب اب قربانی کے طریقے بھی بدلے جائیں۔
حتی کہ جن ممالک میں گھروں یا ذاتی املاک پر جانور زبح کرنے کی ممانعت ہے اور یہ پابندی عائد ہے کہ جانور صرف مذبحہ خانہ یا Slaughter house میں ہی زبح ہوسکتے ہیں، وہاں آباد ہونے اور طویل عرصہ قیام کے باوجود مسلمان اپنے اطوار تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ حال ہی میں جاپان سے ایک دوست نے فیس بک پر ایک وارننگ پوسٹ کی ،اس کا متن کچھ یوں تھا:
’ایسے دوست جو اپنے احاطوں میں قربانی کا اہتمام کررہے ہیں، انہیں چاہئے کہ فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر نہ کریں ۔ اگر بہت ہی ’مجبوری ‘ ہے تو صرف گوشت کی تصویر لگا دیں تاکہ یہ علم نہ ہو کہ جانور کس گھر کے احاطے میں کس نے زبح کیا ہے کیوں کہ جاپان میں نجی طور سے جانور زبح کرنا منع ہے‘۔
یقین کرنا چاہئے کہ جن دوستوں کی اطلاع کے لیے یہ پوسٹ لکھی گئی ہوگی، انہیں بھی یہ خبر ہوگی کہ اپنے طور پر جانور زبح کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن مذہبی وفور میں قانون کو نظر انداز کرنا شیوہ بنا لیا گیا ہے ۔حالانکہ اسلام منظم سماج کی جو شکل سامنے لے کر آیا تھا،اس میں قانون کا احترام بنیادی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں جاکر آبادہونے والے پاکستانیوں میں اس شعور کی کمی جابجا محسوس کی جاسکتی ہے۔ بعض اوقات ایک معمولی لغزش سے ایسی الجھن اور پریشانی پیدا ہوتی ہے کہ اس کی تلافی کرنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ جیسا کہ احترام مذہب کے لیے تشددکا استعمال جائز قرار دینے اور اس کا عملی مظاہرہ کرنے کا رویہ۔ یہ طریقہ جہاں اختیار کیا گیا ، وہاں درستی کی بجائے خرابی کا سامان ہؤا لیکن ہم بضد ہیں کہ یہی طریقہ عقیدے سے محبت کے لیے ضروری ہے۔
بات طویل ہوگئی ۔ درحقیقت آپ کو پاکستانی پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے کے ایک تھانے میں عید سے پہلے خوشیوں کی بہار کا حال سنانا تھا۔ تھانیدار کی معیت میں چار بکرے اور دو گائیں مال غنیمت سمجھ کر زبح کی جاچکی تھیں اور قصبے کے مختلف خاندانوں کے پندرہ لوگ شدید گرمی کے باوجود تہوار سے پہلے حوالات میں بند تھے۔ ان کا جرم کیا تھا؟ اور کون سا قانون ان پر لاگو ہوتا تھا۔ یہ پوچھنے کا نہ محل تھا اور نہ کسی میں حوصلہ۔
جرم یہ کہ انہوں نے عید الاضحیٰ پر قربانی کے جانور خریدے تھے حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ گویا ابھی قربانی کا ارادہ ہی کیا تھا کہ جاں نثاران اسلام نے انہیں دھر لیا۔ پاکستان میں ایک مذہبی گروہ نے سال رواں کے دوران میں احمدیوں کو خاص طور سے ٹارگٹ کیا اور جہاں یہ قیاس ہؤا کہ کوئی احمدی خاندان قربانی کا ارادہ رکھتا ہے تو پولیس کے ذریعے اسے ہراساں کیا گیا یا گرفتار کروایا گیا۔ پولیس تو پہلے ہی موقع بے موقع اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیے شہریوں کو پھنسانے کی تاک میں ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک منظم گروہ کا تعاون اور مذہب کا حوالہ فراہم ہوجائے تو وارے نیارے ہیں۔
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اپنے مذہب سے رغبت پر دوسروں کو ہلاک کرنے یا گزند پہنچانے کی روایت عام کی جارہی ہے۔ حالانکہ اگر کوئی غیر مسلم اسلامی شعائر پر عمل کرتا ہے، قرآن پڑھتا ہے یا کسی دوسرے اسلامی طریقے کو اپناتا ہے تو یہ خوشی کی بات ہونی چاہئے۔ کیا کسی نے کبھی دیکھا ہے کہ کسی مذہب کو ماننےوالا کوئی شخص کسی ایسے شخص پر حملہ آور ہوجائے جس نے اس کی مقدس کتاب کو پڑھا یا اس کے مذہب کی کسی اچھی بات پر عمل شروع کیا؟
یہ اعزاز صرف پاکستانی مسلمانوں کو حاصل ہے جہاں احمدیوں کے تباہ شدہ گھر، مقتولوں کی لاشیں اور اکھڑی ہوئی قبریں مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کی شہادت دیتی ہیں۔
پاکستان اس لحاظ سے بھی یکتہ روزگار ہے کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے آئینی ترمیم کے ذریعے انسانوں کے ایک گروہ کو غیر مسلم قرار دیا اور اپنے لیے مسلمان کا لفظ استعمال کرنے سے منع کیا۔ گویا اللہ کے کرنے کا کام قیامت آنے سے پہلے خود ہی انجام دے لیا۔
کیا عجب کہ پاکستان میں ہر روز، روز قیامت ہوتا ہے اور کوئی نہ کوئی انسانیت سوز واقعہ آنکھوں کو نم اور دلوں کو زخمی کرتا ہے۔ لیکن خبردار پاکستان میں انسانیت کے نام پر آنسو بہانا منع ہے۔ ورنہ آپ کا ایمان خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
کچھ لوگ پیغام عام کرتے ہیں: اپنا مذہب تبدیل کرلو!
اس پر صاد کہنا ہی اچھے مسلمان کی نشانی ہے۔ اختلاف کرنے والوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ دار ی نہ ہوگی۔ جانتے بوجھتے آفت کو دعوت دینے والےہر فرد کوبرےبھلے کاخود ذمہ دار ہونا چاہئے۔ یہی آج کا خوشگوار پاکستان ہے۔