مراکش میں ایسا کیا ہے جو لاہور میں نہیں
- تحریر یاسر پیرزادہ
- سوموار 08 / جولائی / 2024
ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر آنے کے بعد ٹھنڈی ہوا نے گالوں کو تھپتھپایا تو یقین آیا کہ واقعی لندن پہنچ گئے ہیں۔ بے یقینی اِس لیے تھی کہ لاہور سے نکلے ہوئے ہمیں لگ بھگ بیس گھنٹے ہو چکے تھے، پہلے ابو ظہبی میں طویل قیام کیا اور اُس کے بعد پرواز تاخیر سے روانہ ہوئی۔
اس سے جلدی تو بندہ سائیکل پر لاہور سے لندن پہنچ جائے۔ موسم کی خوشگواری دیکھ کر البتہ ساری تھکان دور ہو گئی، درجہ حرارت پندرہ کے آس پاس جھوم رہا تھا، فوراً ً چیک کیا کہ لاہور میں اِس وقت کتنی گرمی پڑ رہی ہے تو پتا چلا کہ بارش کے بعد وہاں بھی موسم خاصا بہتر ہو گیا ہے۔ جان کر بہت مایوسی ہوئی۔ برادرم احسان شاہد نے بتایا کہ کل یہاں بے حد گرمی تھی اور اگر درجہ حرارت کچھ مزید اوپر چلا جاتا تو حکومت نے ’ہیٹ ویو‘ کا اعلان کر دینا تھا۔ احسان شاہد گزشتہ تین دہائیوں سے لندن میں مقیم ہیں، بے حد عمدہ شاعر ہیں اور اُس سے بھی عمدہ انسان ہیں، اِن کی کمپنی میں بندہ بور نہیں ہو سکتا، آتے جاتے چٹکلے پھینکتے جاتے ہیں، حال ہی میں انہیں حکومت برطانیہ کی طرف سے برٹش ایمپائر میڈل سے نوازا گیا ہے اور یہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں بہترین کمیونٹی سروس کرنے پر یہ اعزاز دیا گیا ہے۔
بچپن میں ہم ایک بورڈ گیم کھیلا کرتے تھے ’مونوپلی‘ ۔ آپ میں سے بھی جن لوگوں نے یہ گیم کھیلی ہے انہیں یاد ہو گیا کہ اِس میں لندن کی مختلف جگہوں کے نام ہوتے تھے جیسے آکسفورڈ سٹریٹ، پارک لین، پکاڈلی، ٹرافلگر سکوائر، بونڈ سٹریٹ، مے فیئر وغیرہ۔ اُس وقت ہمیں سوائے اِس کے اور کچھ نہیں پتا تھا کہ یہ جگہیں لندن میں ہیں۔ 1993 میں جب پہلی مرتبہ میں لندن آیا تھا اسی وقت میں نے یہ تمام جگہیں دیکھ لی تھیں اور نہ جانے مجھے کیوں لگا تھا کہ لندن اور لاہور میں خاصی مماثلت ہے اور اِن دونوں شہروں کو جڑواں قرار دے دینا چاہیے۔ جیسے کسی زمانے میں شاہی قلعے کی دیواروں کے ساتھ دریائے راوی کی لہریں ٹکراتی تھیں ویسے ہی ویسٹ منسٹر کے ساتھ ٹیمز بہتا ہے۔ اُن کے عروج اور ہمارے زوال کی بس اتنی ہی داستان ہے۔ اکتیس سال پہلے اور آج کے لندن میں مجھے کوئی خاص فرق نہیں لگا، وہی ڈبل ڈیکر بسیں اور وہی زیر زمین ریلوے ٹرین سٹیشن۔ البتہ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ لندن کے روایتی فون بوتھ اب بہت تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔ حکومت نے چند ایک بوتھ محض یادگار کے طور پر رکھے ہوئے ہیں جو اب بھی کام کرتے ہیں۔ اکتیس سال پہلے کے لندن سے میری یادیں اِن فون بوتھ سے وابستہ ہیں۔ اُس وقت میں تھا تو لندن میں مگر دل لاہور میں تھا۔ اِس مرتبہ یہ مسئلہ نہیں ہے، اب وہ میرے ساتھ ہے۔ لندن کا بیان فی الحال ختم ہوا۔
ایک دن بعد ہماری مراکش کی فلائٹ تھی۔ سفر کے معاملے میں احسان شاہد ضرورت سے زیادہ احتیاط پسند واقع ہوئے ہیں۔ مثلاً ہماری پرواز کا وقت علی الصبح چھ بج کر پچیس منٹ بجے تھا، فرمانے لگے کہ ہم دو بجے ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوں گے۔ میرے تو جان نکل گئی، کافی کوشش کی کہ دو کی بجائے تین کا وقت طے ہو جائے مگر ناکام رہا۔ خیر گیٹ وِک کے ہوائی اڈے پر رش دیکھ کر اندازہ ہوا کہ احسان صاحب کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے۔ میرے ذہن میں نہ جانے کیوں یہ بات تھی کہ اردو میں موروکو کا نام مراکش ہے، یہ غلط فہمی مراکش آ کر دور ہوئی۔ اِس ملک کا نام المغرب ہے، موروکو انگریزی میں کہتے ہیں جبکہ مراکش اِس کا ایک شہر ہے۔
صبح دس بجے جہاز نے مراکش کے ہوائی اڈے پر لینڈ کیا۔ امیگریشن ہال میں آئے تو وہاں سینکڑوں لوگ پہلے سے قطار میں لگے تھے جن میں کالے، گورے، ایشیائی، سب شامل تھے۔ امیگریشن کے مرحلے سے گزرنے میں ہمیں دو گھنٹے لگے۔ المغرب سیاحوں کی پسندیدہ منزل ہے۔ اکیلے مراکش میں ہی روزانہ بیسیوں پروازیں دنیا کے مختلف ممالک سے آتی ہیں جن کی وجہ سے شہر سیاحوں سے بھر جاتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے یہاں مقامی لوگ کم اور سیاح زیادہ ہیں۔ دو دن مراکش میں گزارنے کے بعد مجھے وہی احساس ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے کہ امریکہ، یورپ اور برطانیہ سے تو ہمارا موازنہ نہیں بنتا لیکن المغرب جیسا ملک جو افریقہ میں ہے، جہاں آج کے زمانے میں بادشاہت رائج ہے، اور جہاں کے لوگ بھی ہمارے جیسے ہیں یعنی تھوڑے سے فراڈیے اور زیادہ تر مہمان نواز، پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں سیاح امڈتے چلے آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں کوئی نہیں آتا!
سب سے پہلے یہاں کا ماحول۔ پورے شہر میں کلب، کیسینو اور مساجد پھیلی ہوئی ہیں، جس نے جہاں جانا ہے وہاں چلا جاتا ہے۔ شہر میں حجاب پہنی ہوئی عورتوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہے جتنی سکرٹ اور بلاؤز پہننے والیوں کی۔ یاد رہے کہ ملک اسلامی ہے مگر کچھ بھی کھانے پینے پر پابندی نہیں۔ ہر شے دستیاب ہے اور کسی بات سے بھی یہاں اسلام خطرے میں نہیں پڑ جاتا۔ دوسری بات یہاں کی تاریخ اور کلچر ہے جسے یہ لوگ نہایت کامیابی کے ساتھ مارکیٹ کرتے ہیں۔ شہر کا مرکزی مقام مدینہ اولڈ سکوائر ہے۔ یہ وسیع و عریض جگہ ہے اور مراکش کی ثقافت کا نمونہ ہے۔ اگر آپ انارکلی، فوڈ سٹریٹ اور اندرون لاہور کو اکٹھا کردیں تو مراکش کا اولڈ سکوائر بن جائے گا۔ یہاں مداری ہیں، بندر اور سانپ کا تماشا دکھانے والے ہیں، روایتی لباس میں رقص کرنے والے ہیں، ٹھیلوں پر چیزیں فروخت کرنے والے ہیں اور کھانے پینے کا سٹال لگانے والے ہیں۔
یہاں خریداری بھی پاکستان کی طرح کی جاتی ہے۔ مقامی لوگ ایک چیز کی قیمت ہزار درہم بتاتے ہیں اور تین سو میں دے دیتے ہیں۔ رات کو یہ جگہ اور بھی پُر رونق ہو جاتی ہے۔ سارا علاقہ روشنی میں نہا جاتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ایک میلہ سا لگا ہو۔ مراکش کے لوگ ہماری طرح کھلے ڈلے ہیں۔ یورپی لوگوں کی طرح ابھی اِن کے دماغ میں کمپیوٹر فِٹ نہیں ہوا کہ ہر بات کے جواب میں کہیں کہ سسٹم اِس کی اجازت نہیں دیتا۔ بھکاری بھی جگہ جگہ ملتے ہیں۔ حتّیٰ کہ رات دو تین بجے کلبوں کے باہر بھی بھکاریوں کا رش لگا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے لوگ کلب سے نکلتے ہیں بھکاری اُن کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ لے کر ہی جان چھوڑتے ہیں۔
اللہ کو جان دینی ہے۔ مراکش کی تاریخ، یہاں کی ثقافت اور پرانی عمارتیں اپنی جگہ بہت پُرکشش ہیں، مگر یہ سب کچھ لاہور سے بڑھ کر نہیں۔ بے شک اِس بیان میں تعصب شامل ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اندرون شہر لاہور جیسا خزانہ کسی کے پاس نہیں۔ لیکن یہ خزانہ اُس وقت تک کسی کام کا نہیں جب تک کوئی اسے دیکھنے نہ آئے اور اِس کام میں دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک، شدید گرمی کا موسم اور سردیوں میں سموگ کا عذاب۔ اور، دوسرے، وہ پابندیاں جو اب صرف ہمارے ملک میں ہی رہ گئی ہیں۔ باقی دنیا بشمول سعودی عرب بھی اُن سے جان چھڑا کر آگے نکل گیا ہے۔ میں نے مراکش سے مرعوب ہونے کی بہت کوشش کی مگر آخری تجزیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اگر لاہور میں وہ آزادی مہیا کر دی جائے جو مراکش میں میسر ہے تو تمام تر قباحتوں کے باوجود سیاح یہاں کھنچے چلے آئیں گے۔
لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ محض پابندیوں کی وجہ سے پاکستان میں سیاحت فروغ نہیں پا رہی۔ اِس کی مزید بے شمار وجوہات ہیں۔ یورپ اور برطانیہ سے لوگ جوق در جوق مراکش آتے ہیں۔ جبکہ اِس شہر میں ایسی کوئی خاص دلکشی اور خوبصورتی بھی نہیں، آخر کیوں؟ اِس کیوں کا جواب تلاش کرنے میں ہی مسئلے کا حل پوشیدہ ہے۔
(بشکریہ: ہم سب لاہور)