انیس احمد کے ناول ’نکا‘ کے بارے میں ڈاکٹر انوار احمد کی رائے
- تحریر ڈاکٹر انوار احمد
- جمعہ 19 / جولائی / 2024
انیس احمد کا اس سے پہلے ایک ناول " جنگل میں منگل " شائع ہوچکا ہے، ویسے تو " نکا " بھی 2019 میں شائع ہوا مگر ناروے میں ان کے دوست سید مجاہد علی کے مطابق 2019 میں اس کی " ناقص طباعت " نے انہیں اتنا مایوس کیا کہ انہوں نے مزید لکھنے سے ہاتھ اٹھا لیا۔
تا آنکہ سید مجاہد علی نے انہیں عکس لاہور کے محمد فہد کو آزمانے کا مشورہ دیا۔ اب 511صفحات کا یہ ناول قارئین کے سامنے ہے۔ فرض کریں آپ بھی میری طرح انیس احمد سے ناواقف ہیں تو داخلی شہادتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہاولپور کی روہی، گمشدہ سرسوتی اور ہمسائے کے پاس بیچا ہوا ستلج ، روہی میں رات کو منعقد ہونے والا چنن پیر کا میلہ اور پھر خواجہ فرید کی غنائیت سے لبریز کا فیاں، پیلھوں چنتی نازک نازو جٹیاں جن کے مٹھوس ( کاہل / آرام طلب ) مجازی خدا اس بات کو غیرت کا مسئلہ نہیں بناتے کہ ان کا بوچھن کیسے لیر لیر ہوا۔
کہ وہ جانتے ہیں کہ اس علاقے کے پیر ، ان کے مختار کار ، پولیس اہل کار اور کچے کے ڈاکوؤں کو " جلالی وظیفے " یا کسی سے بدلہ لینے کے لئے تخم ریزی کی آزادی ہے۔ نہ اس جہان میں ان کی پکڑ ہے نہ اس جہان میں۔ سو اس ناول کا کمسن ہیرو
’نکا ‘ خود ایک پیر صاحب کے جلالی وظیفہ کا ثمر ہے ۔
نکا جس طرح کی زندگی گزارتا ہے وہاں بے انت خوف ہو سکتا ہے مگر اسے تین باتیں بے خوف رکھتی ہیں:
1۔ ڈائن اور نیولے کا قصہ
2۔ سوال کرنے کی اس کی عادت اور تجسس۔
3۔آخر کار جوگی بن کر اڑ سکنے کا خواب
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آپ کے تخیل پر چھا جانے والا ناول ہے۔ اس میں کئی اقتباس ایسے ہیں کہ لگتا ہے کہ انیس احمد کسی سیریل یا فلم کا منظر نامے لکھ رہے ہیں۔
’بچوں کے معصومانہ صبر میں دل دوز قسم کی اداسی تو ہے
کیا ہرنوں کے بچے بھی روتے ہیں ؟‘
’ماں مر جائے تو سارے بچے روتے ہیں‘۔
اس میں بہت سے ایسے ٹوٹکے ہیں جو گوگل کے بتائے ہوئے نہیں
’مسجد کی کھوئی میں مولوی کی نگرانی میں وقفے وقفے سے دو دو بوریاں نمک اور بھنگ کی پھنکوائی جاتی ہیں کہ اس کا پانی ٹھنڈا رہے اور دیواروں پر کائی نہ جمے‘۔
میری ایک ننھیال پاک دروازے میں تھی جس کے ایک طرف گیلانی پیر کا دربار تھا جب کہ ان کے سیاسی مخالف سر نواب مرید حسین قریشی کے آستانے سے وابستہ تھے جو آستانہ زکریا کہلاتا تھا ۔ سو میں نے اپنے بچپن میں ایک "خوبصورت/ متمول آدمی" کو دیکھا تھا جس کے بارے میں سرگوشیوں میں بتایا جاتا تھا کہ موٹاپے کے سبب جب مخدوم صاحبان سہولت سے استنجا بھی نہیں کر سکتے تو وہ کسی با اعتماد کو اس کام کے لئے آبدار کی پوسٹ پر رکھ لیتے تھے ۔ اس لئے "نکا " کے قصے میں جب بڈو ( پستہ قد ) کو گام صاحب اس کام کے لئے رکھتے ہیں، تو علامہ عتیق فکری سے منسوب ایک لطیفے کی طرح "پوری گالھ سمجھ آ گئی"۔
انیس احمد نے سائیں کی مرضی کے خلاف مزاحمت کرانے کی کوشش بھی کی سو نکے کے نین نقش دیکھ کر پیر صاحب کو اس کی ماں پر اپنا جلالی وظیفہ برائے اولاد یاد آتا ہے، تو وہ اسے اپنے ایک دوست شیرانی صاحب کے سپرد کرتا ہے۔ اسے اعلی تعلیم دلاؤ چاہے یہ ولایت جائے۔ پھر اس میں نکا جب ایک ڈاکو کو گھائل کرتا ہے تو وہ اپنی روہی کا روہیلا بن کے نو سروں والے راکھشش کا خاتمہ کرنے کا جتن کر رہا ہوتا ہے۔ تاہم آخر میں انیس احمد کی اپنی سمجھ میں نہیں آ رہا ہوتا کہ وہ اس قصے کا خاتمہ کیسے کرے ۔
انہوں نے اپنے ایک دوست غلام شبیر مغل کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے باریک بینی سے ناول کا مسودہ دیکھا ہے۔ کاش مغل صاحب انہیں ایڈیٹنگ کا بھی مشورہ دیتے۔ جیسے جندو کے تنور سے سانپ کے نکلنے اور پٹاری میں بند ہونا، 25 صفحات پر ہے۔ دو ایک جگہ واقعات خلاف قیاس ہو گئے ہیں۔ پھر ایسے ضخیم ناول کے کردارواں کے ناموں اور کوائف کے اشاریہ کا ایک صفحہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔ مگر آپ خود پڑھیں تو ۔۔۔ یہ محمد فہد ( عکس لاہور) نے شائع کیا ہے۔