تحریک انصاف پر آئی ایس پی آر کے الزامات اور پارٹی قیادت کی پراسرار خاموشی
- تحریر سید مجاہد علی
- منگل 23 / جولائی / 2024
تحریک انصاف کی قیادت نے ’عزم استحکام‘ کے بارے میں آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس پر رد عمل میں کہا ہے کہ اس حوالے سے بات کرنا ان کا کام نہیں تھا بلکہ حکومت کو خود اس بارے میں ذمہ داری قبول کرنی چاہئے تھی۔ ان لیڈروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے حکومت کو ’فیس سیونگ‘ کی سہولت دی ہے۔
تاہم تحریک انصاف نے جنرل احمد شریف کے اس مؤقف پر کسی رائے کا اظہار نہیں کیا کہ ملک میں ایک بہت بڑا سیاسی مافیا اپنے مفادات کے لیے ’عزم استحکام ‘ کے خلاف جھوٹ پھیلانے اور اس مشن کو ناکام بنانے میں مصروف ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے گزشتہ روز منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں بظاہر کوئی نئی بات نہیں کی ۔ صرف ’عزم استحکام‘ کو فوجی آپریشن کا نام دے کر جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے مافیا کے بارے میں متنبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کوئی ضرب عضب جیسا فوجی آپریشن نہیں ہے بلکہ اس مہم کے ذریعے ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی ٹھوس کارروائی ہو گی۔ انہوں نے معاملہ کے اس پہلو پر غم و غصہ کا اظہار کیا کہ ایپکس کمیٹی میں متفقہ طور سے ہونے والے فیصلہ کی تائید کرنے کی بجائے، اس کے خلاف جھوٹ پر مبنی مہم چلائی جارہی ہے اور فوجی قیادت کو بدنام کیا جارہا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے نام لیے بغیر ذاتی مفاد کے لیے سرگرم ایک بڑے سیاسی مافیا کا ذکر کیا اور اس پر الزامات عائد کیے۔ ان کی گفتگو کے بعد صحافیوں نے متعدد سوالات بھی کیے اور مختلف موضوعات پر آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل کو صورت حال کی وضاحت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ تاہم بظاہر کسی صحافی نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کن عناصر کے لیےسیاسی مافیا کے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ اور نہ ہی پاک فوج کے ترجمان نے خود یہ کوشش کی کہ پریس کانفرنس چونکہ ’جھوٹ اور سچ میں فرق‘ کے لیے منعقد کی گئی تھی ، اس لیے وہ خود ہی بتا دیتے کہ کون سے عناصر یا کن کارروائیوں کے بارے میں ایک مفاد پرست سیاسی مافیا کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے جس کا کوئی نام نہیں ہے۔ اس طرح تو غلط فہمیاں دور ہونے کی بجائے ، ان میں اضافہ ہوگا۔
البتہ اگر آپریشن ’عزم استحکام‘ کے حوالے سے ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے بعد سامنے آنے والے تنازعہ پر غور کیا جائے تو اس پر سب سے پہلے اور سب سے پرجوش رد عمل پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ہی سامنے آیا ہے۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ متعدد دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی اس آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ البتہ اس تنقید کی بنیاد یہی تاثر تھا کہ ماضی کی طرح اس بار بھی وسیع و عریض علاقوں سے شہریوں کو عارضی کیمپوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔ ملکی سیاسی قیادت اس قسم کے کسی آپریشن کو قومی مفاد اور عوامی ضروریات کے خلاف قرار دیتی ہے۔ البتہ یہ گتھی بدستور الجھی ہوئی ہے کہ وزیر اعظم خود بھی اس معاملہ پر وضاحت کرچکے ہیں اور جو باتیں آئی ایس پی آر کے سربراہ نے اب کہی ہیں وہی باتیں یا وضاحتیں وزیراعظم ہاؤس کے علاوہ متعدد وزرا کی طرف سے کی جاچکی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ’عزم استحکام‘ کے حوالے سے الزامات کا سلسلہ کم نہیں ہؤا۔ خاص طور سے تحریک انصاف نے اسے مسلسل ایک اہم سیاسی نعرہ بنایا ہے۔
تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ یہ کوئی فرضی یا ہوائی دعویٰ نہیں ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق تحریک انصاف کو 8 فروری کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ اسے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں بھی حاصل ہوئی تھیں۔ خیبر پختون خوا اسمبلی میں اس پارٹی نے بھاری بھر کم اکثریت حاصل کی ہے۔ حال ہی میں مخصوص نشستوں کے فیصلہ میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے تحریک انصاف کو ملک کی باقاعدہ سیاسی پارٹی قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ عوام کی نمائیندہ جماعت ہے ۔ عوام کے ووٹوں کا احترام کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس کیے حق نمائیندگی کو قبول کرنا چاہئے تھا اور اسے مخصوص نشستوں میں اس کا جائز حصہ ملنا چاہئے تھا۔ یہ نشستیں الیکشن کمیشن نے چونکہ آئین و قانون کی اپنی فہم کے مطابق دوسری جماعتوں میں تقسیم کردی تھیں، اس لیے 12 جولائی کو جاری ہونے والے حکم میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر تحریک انصاف کی پارلیمانی طاقت کے مطابق اسے سیٹیں دینے کی ہدایت کی تھی۔ الیکشن کمیشن اس حکم پر عمل درآمد کا اعلان بھی کرچکا ہے۔
آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل کی پریس کانفرنس کے تناظر میں اس پس منظر کو سمجھنا بے حد اہم ہے۔ بادی النظر میں پاک فوج کے ترجمان نے تحریک انصاف کو ’بڑا سیاسی مافیا‘ قرار دیا ہے۔ یعنی جو سیاسی پارٹی ملک میں سب سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی اور جسے سپریم کورٹ نے عوام کی نمائیندہ قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں دینے کے لیے بعض اہم قانونی طریقوں کو نظر انداز کرنے کا حکم بھی دیا ہے، پاک فوج کے نزدیک اس کی حیثیت ایسے شرپسند مافیا کی ہے جو ذاتی مفادات کے لیے کثیر مالی وسائل اور جھوٹے پروپیگنڈے کے زور پر فوج کے ایسے مشن کی مخالفت میں مہم جوئی کررہا ہے جو صرف دہشت گردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے شروع ہوگا۔ اس کا مقصد ہرگز لوگوں کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے۔
یہ قرار دینے سے پہلے کہ پاک فوج کو کسی سیاسی پارٹی کو مافیا کہنے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کے ترجمان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جو عوام کو مطمئن و شاد کرنے کی بجائے ان میں اشتعال اور پریشانی پیدا کریں ، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس میں کی گئی باتوں کی روشنی میں راقم الحروف نے از خود یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جس سیاسی پارٹی کو فوج اب ’سیاسی مافیا‘ قرار دے رہی ہے، وہ تحریک انصاف کے علاوہ کوئی دوسرا گروہ نہیں ۔ گزشتہ روز جو باتیں کی گئیں اور جیسے عزم استحکام، میڈٖیا، دہشت گردی، فوجی قیادت کے خلاف جھوٹ پھیلانے اور سانحہ 9 میں ملوث عناصر کو سزائیں دینے میں عدالتی نظام کی ناکامی کا ذکر کیا گیا تھا ، اس کی روشنی میں ’سیاسی مافیا‘ کی اصطلاح تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی کسی سیاسی پارٹی پر پوری نہیں اترتی۔
یوں تو کسی بھی قانونی سیاسی پارٹی کو اپنے سیاسی مؤقف اور حکمت عملی کی وجہ سے مفاد پرست مافیا کہنا درست نہیں ہوسکتا کیوں کہ سیاسی پارٹی قانونی طریقے سے کسی نظام میں تبدیلیوں کے لیے کام کرتی ہے جبکہ مافیا کی تفہیم یہی ہوتی ہے کہ یہ منظم مجرموں کا ایسا گروہ ہوتا ہے جو اپنے مفاد حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے اختیار کرتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی جسے سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں عوامی نمائیندہ ہونے کا ’سرٹیفکیٹ‘ بھی دیا گیا، کے بارے میں فوج کا بالکل متضاد طرز تکلم ملکی سیاسی نظام کی توہین کے مترادف ہے۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا مقصد چونکہ تضادات کم اور غلط فہمیاں دور کرنا تھا، اس لیے ایسے الفاظ کا استعمال درحقیقت اس مقصد کے خلاف نتائج سامنے لا سکتا ہے۔
یہ امر اپنی جگہ باعث حیرت ہے کہ تحریک انصاف نے یہ بیان تو ضرور دیا ہے کہ آئی ایس پی آر کو حکومت کا کام نہیں کرنا چاہئے لیکن جنرل احمد شریف کی طرف سے اپنی جانب کیے گئے اشاروں کے بارے میں تحریک انصاف نے کسی وضاحت یا احتجاج کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حالانکہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف فوجی قیادت کے بارے میں منفی رجحانات کو ہوا دینے اور ملکی نظام میں اس کی ناروا و ناجائز بالادستی کی نشاندہی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اس طریقہ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف خود اس ابہام کا شکار ہے کہ اس نے ملکی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تصادم کا جو راستہ اختیار کیا ہے، اسے کیسے اور کس انجام سے دوچار کرنا ہے۔
پارٹی کے اپنے مفاد میں ہوگا کہ وہ یا تو اس شش و پنچ سے باہر نکلے یا پھر محض سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے فوج سمیت ملکی اداروں کے خلاف چاند ماری کا سلسلہ بند کیا جائے تاکہ سیاسی مفاہمت کا ماحول پیدا ہوسکے۔ تحریک انصاف فوج کے علاوہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے خلاف مسلسل مہم جوئی کرتی ہے۔ اسے صرف وہی جج اور وہی فیصلے اچھے لگتے ہیں جن میں پارٹی کے مؤقف کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ جیسا کہ آج ہی عمران خان نے مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیلوں کا حوالہ دیتے ہوئے ججز کمیٹی میں چیف جسٹس کے مؤقف پر تنقید کی اور کہا کہ ’انہیں نظر ثانی پر فیصلہ کی بہت جلدی ہے‘۔ حالانکہ کسی بھی عدالتی فیصلہ پر نظر ثانی سائلین کا استحقاق ہے اور حتمی فیصلہ بہر حال سپریم کورٹ ہی کو کرنا ہے۔ لیکن عمران خان آرمی چیف کی طرح چیف جسٹس کو نشانے پر لینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ البتہ جب آئی ایس پی آر ان کی پارٹی کو بلاواسطہ طور سے ’مافیا‘ کہہ کر الزامات عائد کرتا ہے تو وہ خاموشی ہی میں بھلائی سمجھتے ہیں۔
عمران خان کو جاننا چاہئے کہ اگر نظام سے ٹکر لینے کے بارے میں ان کے حوصلے کا یہی عالم ہے تو اس کا اعلان کرنے سے بھی گریز کریں۔ خود کو مقبول ترین سیاسی لیڈر کہلوانا اور سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتے رہنا اسی وقت بھلا لگے گا جب وہ ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر کا کردار ادا کریں گے۔ اور تبدیلی کے لیے سیاسی عمل کو ہی ترجیح دیں گے۔ اس کے برعکس اگر تنقید کو اسٹبلشمنٹ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہے گا تو اس سے نہ پارٹی فائدہ اٹھا سکے اور نہ ہی ملک و قوم کو کوئی راستہ سجھائی دے گا۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ کی پریس کانفرنس ہی کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت نے تمام تر احتجاج کے باوجود تحریک انصاف پرپابندی لگانے کا ارادہ ترک نہیں کیا اور نہ ہی عمران خان اور سابق صدر عارف علوی کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے بارے میں پسپائی اختیار کی گئی ہے۔ حکومت کے علاوہ اب فوج کے ترجمان نے بھی بنوں امن ریلی میں رونما ہونے والی کشیدگی کی ذمہ داری تحریک انصاف اور اس کی صوبائی حکومت پرہی عائد کی ہے ۔ دوسری طرف خیبر پختون خوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے صوبے کے بگڑتے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’ وزیر اعلیٰ خود دہشت گردوں کو بھتہ دے رہا ہے‘۔ ان حالات میں تحریک انصاف بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر شاید ہمدردی تو حاصل کرلے گی لیکن اس کے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا راستہ بدستور مسدود رہے گا۔
کسی سیاسی پارٹی کو تعصب، جبر،اور ریاستی دباؤ کا نشانہ بنانا غلط اور قابل مذمت ہے۔ لیکن ہر سیاسی پارٹی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہعش مندی سے کام لے اور سیاسی عمل اور قومی منصوبوں کو منتشر کرنے کی حکمت عملی اختیار نہ کرے۔ موجودہ حالات میں اگر تحریک انصاف کے ساتھ کوئی سخت کارروائی ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کے لیڈر بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ اس لیے اب تصادم کی بجائے سیاسی جد و جہد منظم کرنے، طعن و تشنیع سے گریز کرکے میرٹ پر بیان جاری کرنے اور فوج و عدلیہ سے لڑائی مول لینے کی بجائے سیاسی حکومت سے پنجہ آزمائی کا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔