ڈیجیٹل دہشت گردی کا الزام اور عمران خان کا جوابی وار

آئی ایس پی آر کے بعد اب وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی پاک فوج ، آرمی چیف  اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں جھوٹے  پروپیگنڈے کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس قسم کی ڈیجیٹل  دہشت گردی کو  برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس دوران عمران خان  نے ایکس پر  ایک بیان میں   کہا ہے کہ 70 کی دہائی میں رہنے والوں کو علم ہی نہیں کی آج کا سوشل میڈیا کیسے کام کرتا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے فوج کے خلاف سوشل میڈیا مہم جوئی کو  آئین کی بالادستی  کی خواہش کا نام بھی دیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان کابینہ کے اجلاس کے دوران سامنے آیا جس میں انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں اور ہتک آمیز تبصروں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور پاک فوج کے ترجمان کے الفاظ میں اسے ’ڈیجیٹل دہشت گردی ‘ قرار دیا۔  انہوں نے ایسے عناصر کو برداشت نہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اگرچہ  یہ  وضاحت  نہیں  کی گئی کہ حکومت تحریک انصاف کی سوشل میڈیا مہم  جوئی کے خلاف کیا اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ لیکن  اس سے پہلے عائد کی گئی پابندیوں اور صحافیوں  و  سوشل میڈیا پر متحرک عناصر کے خلاف تادیبی کارروائیوں کے علاوہ حکومت کے پاس بہت زیادہ متبادل بھی موجود نہیں ہیں۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کے بعد گزشتہ روز  اسلام آباد پولیس نے تحریک انصاف کے دفتر پر چھاپا مارا تھا اور پارٹی کے  سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کو گرفتار کرلیا تھا۔ ان پر نفرت انگیز سوشل میڈیا مہم جوئی کی قیادت کرنے کا الزام  ہے۔  پولیس نے پارٹی دفتر سے کئی کمپیوٹر بھی اپنے قبضہ میں لیے ہیں۔  تاہم اگر ماضی کی مثالوں کو پیش نظر رکھا جائے تو سوشل میڈیا مہم کے حوالے سے کوئی ٹھوس مقدمہ  قائم ہونے کی صورت میں  عدالتوں میں ان الزامات کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے عام طور سے  اہم لیڈروں کو ایسے  مقدمات میں ضمانت مل جاتی ہے۔ آئی ایس پی آر کے  ڈائیریکٹر جنرل    نے اپنی پریس کانفرنس میں  سوشل میڈیا مہم جوئی کو دہشت گردی کے مماثل قرار دیا تھا۔ اور اس ارادے کا اظہار کیا تھا کہ ان لوگوں سے ویسے ہی عزم سے نمٹا جائے گا۔

سوشل میڈیا مہم جوئی کے حوالے سے  لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف  کا مؤقف تھا کہ سوشل میڈیا پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف جعلی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس سے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال کو ہی پاک فوج کے ترجمان ڈیجیٹل دہشت گردی  کہنے  پر مصر ہیں اور اب وزیر اعظم نے بھی ان کی تائید میں بیان جاری کیا ہے۔   تاہم پاک فوج  کے ترجمان یا حکومت کے سربراہ نے سخت الفاظ استعمال کرنے اور انتباہ دینے کے علاوہ   سوشل میڈیا مہم جوئی کی روک تھا کے لیے کسی  مؤثر عملی منصوبہ کا اعلان نہیں کیا ۔ اس کی ایک وجہ شاید یہی ہو کہ ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے جس  کے ذریعے لوگوں کو سوشل میڈیا پر رائے دینے اور کسی معاملہ کی مخالفت یا حمایت میں مہم جوئی کرنے سے روکا جاسکے۔ آزادی اظہار رائے اور  نفرت پھیلانے کے درمیان حد فاصل قائم کرنا آسان نہیں ہوتا، جس بات کو ایک گروہ توہین یا نفرت  قرار دیتا ہے دوسرے گروہ کے نزدیک وہ آزادی اظہار کا معاملہ ہے۔ جب تک کوئی حکومت جمہوریت کے نام پر اقتدار  پر قابض ہو اور بنیادی انسانی اصولوں کا احترام کرنے کی دعویدار ہو تو اس سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کی رائے کو عام کرنے کی اجازت دے گی چاہے اس سے حکومتی مفادات کو نقصان پہنچے اور  اس کے بعض منصوبے  اس کی زد میں آئیں۔

جنرل احمد شریف کی اس بات میں وزن ہے کہ بعض عناصر  جھوٹ اور ذاتی سیاسی رائے کو ملاکر فوج کے خلاف ایسا بیانیہ  عام کررہے ہیں  جس سے فوج کو پریشانی لاحق ہوتی ہے اور اس کی قیادت کو براہ راست نشانہ بنایا جاتا  ہے۔   ایک عسکری ادارے کی طرف سے ایسی مہم جوئی کا مقابلہ کرنے کے لیے پابندیاں لگانے یا سختی کرنے کا مزاج سامنے آئے تو اسے  سمجھا جاسکتا ہے کیوں کہ فوج کو  مکالمہ، مباحثہ یا دلیل کے ذریعے بات ماننے یا سمجھانے کی عادت نہیں ہوتی۔ فوج کا پورا نظام ادارہ جاتی ڈسپلن اور افسر کے حکم کی پابندی کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ اسی لیے جمہوری نظام  استوار کرتے ہوئے جہاں فوج کے اندرونی  نظم و ضبط کو قبول کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی معاشرے میں عام طور سے اس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کا اہتمام بھی ہوتا  ہے۔ اسی اصول کے تحت پاکستان کے آئین میں بھی فوج  کی خدمات کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اور وہ اسی کے مطابق کام کرنے کی پابند ہے۔  اس  انتظام میں پارلیمنٹ بالادست ہوتی ہے اور ملک میں اگر کوئی منفی یا قومی مفاد کے خلاف بیانیہ فروغ پارہا ہو تو سیاسی پارٹیاں اس کے خلاف عوامی رابطہ مہم کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کرتی ہیں۔

جعلی اور قومی مقاصد سے متصادم بیانیہ کو مسترد کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا  ہے، جس پر کسی حد تک پاکستانی حکومت عمل بھی کررہی ہے۔   اور پاک  فوج نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایسے عناصر کی گرفت کرنے  کے لیے ملکی قوانین کو استعمال کیا جائے۔ یا سخت قوانین بنا کر مخالفانہ ، گمراہ کن یا جھوٹی  رائے ظاہر کرنے والے عناصر کو جیلوں میں بند کردیا جائے۔ لیکن یہ طریقہ آزادی اظہار اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔ اس لیے عام طور سے نہ تو اسے پسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اس  کے مطلوبہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔  انتظامی سختی کی صورت میں  جھوٹ پھیلانے والے یہ دلیل سامنے لاسکتے ہیں کہ حکومت کے پاس ان کی باتوں کا جواب نہیں ہے، اس لیے سختی سے کام لے کر  حقوق کی جائز آواز  دبانے کی کوشش  کی  جارہی ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت نے  تحریک انصاف کی آواز دبانے کے لیے جب بھی کوئی اقدام کیا تو اس کے خلاف ملکی  میڈیا کے علاوہ بین الاقوامی طور پر بھی آواز اٹھائی گئی۔ امریکی کانگرس  حال ہی میں تحریک انصاف کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے خلاف قرارداد منظور کرچکی ہے جسے وزارت خارجہ نے پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دے کر مسترد کیا تھا ۔ اور کل ہی برطانوی پارلیمنٹ میں قانون سازوں کے ایک اجلاس میں پاکستان میں  تحریک انصاف  کی سیاسی  جد و جہد کے لیے عالمی  مہم کا حصہ بننے کا ارادہ ظاہر کیا  گیاہے۔

یعنی اظہار  کو جبراً روکنے کا طریقہ کم از کم مہذب دنیا میں قبول نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی جمہوری حکومت کو ایسی سختی زیب دیتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اس کا تعلق اظہار رائے کی  آزادی سے  ہے جس کا ہر قیمت پر تحفظ ہونا چاہئے۔ خواہ  بعض عناصر اس حق کو استعمال کرتے ہوئے جھوٹ عام کرنے کی کوشش ہی کیوں نہ کریں۔ اس جھوٹ کا مقابلہ ’سچ‘ سامنے لاکر کیا جانا چاہئے۔  ایک قابل اعتراض بیانیہ مسترد کرنے کے لیے ریاستی ڈنڈا اٹھانے کی بجائے متبادل بیانیہ عوام تک پہنچایا جائے۔  یہ کام ان سیاسی پارٹیوں کا ہوتا ہے جو اقتدار پر قابض ہوں اور  بعض طریقوں   سے اظہار خیال کو وسیع  تر قومی  مفاد کے خلاف سمجھتی ہوں۔ ان پارٹیوں کو  عوام سے رابطہ مہم چلانی چاہئے۔ اپنا مؤقف زیادہ واضح اور قابل فہم الفاظ میں لوگوں تک پہنچانا چاہئے اور اپنی پارٹیوں کی تنظیم سازی کے ذریعے اوپر سے لے کر نچلی سطح تک حقائق اور معاملات کی درست تصویر پہنچائی جائے۔ اس طرح لوگ ایک تو  جھوٹی خبروں کو خود ہی مسترد کردیں گے  اور دوسرے  جھوٹ پہنچانے والوں  پر واضح کردیں  گے کہ انہیں اصل بات کا پتہ  ہے ، اس لیے وہ  ان کے جھوٹ اور منفی پروپیگنڈا کو نہیں مانتے۔ فعال جمہوریت میں اس طریقے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ  موجود نہیں ہے۔ کسی بھی جمہوری نظام میں اس طریقہ کے خلاف کوئی بھی طریقہ جبر کی علامت بنے گا اور پہلے سے منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کی پوزیشن مستحکم ہو گی۔ بلکہ لوگ اس جھوٹ کو  ہی سچ ماننے لگیں گے جو کسی بھی طرح عوام و معاشرہ کے کے لیے خوش آئیند نہیں  ہوسکتا۔

حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا مہم جوئی کے خلاف بند باندھنے میں ناکام ہے کیوں کہ ابھی تک اسے انتظامی ہتھکنڈوں اور پابندیوں کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیاسی حکومت کے طور پر شہباز شریف یا ان کے ساتھی ابھی تک  عمران خان کے اس بیانیہ کے خلاف کوئی بیانیہ سامنے نہیں لاسکے  جس میں وہ موجودہ حکومت کو جعلی اور اسے مسلط کرنے میں فوج کے کردار کو نشانہ بناتے ہیں۔ حکومت  تو ابھی تک 8 فروری کے انتخابات کے بارے میں عام طور سے پائے جانے والے شبہات دور کرنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرسکی۔  نہ عدالتی تحقیقات  کا اہتمام کیا گیا اور نہ ہی  انتخابات کے دوران سامنے آنے والی شکایات کی پڑتال کے نظام کو شفاف رہنے دیا گیا۔ بعد از وقت الیکشن ٹریبونلز کے بارے میں کی جانے والی قانون سازی سے  تحریک انصاف کا بیانیہ مزید مضبوط ہؤا ہے۔ اسی طرح جب مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ  کے خلاف صرف اس لیے مہم جوئی کی جائے گی کہ  ایسی پارٹی کو کیوں یہ سیٹیں دی جارہی ہیں جو مدعی ہی نہیں تھی تو درحقیقت حکومتی پارٹیوں کی  بدحواسی  نمایاں ہورہی ہوتی ہے۔ 

بہتر ہوگا کہ شہباز شریف فوج کو خوش کرنے کے لیے  آئی ایس پی آر کی اصطلاحات کو مقدس قرار دینے کی بجائے، اس  صورت حال کا سیاسی حل  تلاش کریں ۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن  ٹاک شوز اور تقاریر اور بیانات میں  اپنا مؤقف دلائل کے ساتھ سامنے لائیں۔ اگر حجت اور منفی مباحث میں الجھ کر ماضی کی کہانیاں سنائی جائیں گی یا متبادل الزام تراشی کی جائے گی تو  کسی بھی پارٹی کے لیے شاید تحریک انصاف  کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا کیوں کہ  جعلی بیانیہ بنانے اور پھیلانے میں اسے زیادہ مہارت اور تجربہ ہے۔

آئی ایس پی آر کی طرف سے  ’ڈیجیٹل دہشت گردی ‘ کی اصطلاح کے خلاف عمران خان نے ایکس پر ایک بیان میں اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا ہے ۔ اس بیان میں  انہوں نے کہا ہے کہ ’ پوری قوم کو دہشت گرد قرار دے کر قوم کے ساتھ نفرت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ ستر کی دہائی میں رہنے والے چند لوگ جنہیں پتہ ہی نہیں کہ سوشل میڈیا کیسے کام کرتا ہے، اب وہ ڈیجیٹل دہشت گردی کے لیبل بانٹ رہے ہیں۔ اگر تحریک انصاف کی حمایت کرنے والے ہر شخص کو ڈیجیٹل دہشت گرد کہا جائے گا تو عوام اور فوج میں فاصلہ پیدا ہوگا۔ ملک کی 90 فیصد آبادی تحریک انصاف کے ساتھ ہے کیوں کہ 90 فیصد لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔  1971 میں بھی یہی ہؤا تھا۔ اس سال 25 مارچ کو جنرل یحیی خان نے ڈھاکہ کے لوگوں کے خلاف آپریشن کا حکم دیا تھا۔ اب  بھی اگر ملک کی اکثریت کو دہشت گرد کہا جائے گا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے‘۔ بیان کے آخر میں درحقیقت عمران خان  منفی مہم جوئی کی  ’ذمہ داری ‘ قبول کررہے ہیں بلکہ اسے جائز قرار دینے کی کوشش بھی کی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آج  اگر لوگ آپ کے خلاف بات کررہے ہیں تو  درحقیقت وہ صرف آئین کی بالادستی کا مطالبہ کررہے ہیں‘۔

اس مختصر بیان میں سے متعدد غلط بیانیاں اور جھوٹ تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ ایسے بیان پر  حکومت اگر  ایف آئی  اےکے ذریعے مقدمے چلاکر اپنی قوت و صلاحیت صرف کرنا چاہتی ہے تو  یہ اس کی صوابدید ہے لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کا جواب دینے  کے لیے عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ ملک کے  90 فیصد لوگ تحریک انصاف کے ووٹر نہیں ہیں اور نہ ہی آئی ایس پی آر  یا وزیر اعظم  ڈیجیٹل دہشت گردی کی بات کرتے ہوئے پوری قوم کو  دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ جھوٹ کو مسترد کیے بغیر سچ  جانا نہیں جاسکتا۔ سچ سامنے لانے کے لیے حکومت کو خود سراب سے باہر نکلناہوگا اور دیکھنا پڑے گا کہ  وہ کیسے عوام کا دل جیت سکتی ہے۔