توہین مذہب پر کتاب کے مصنف عطا انصاری کا انٹرویو

عطا انصاری پاکستانی نژاد نارویجن صحافی اور ایوارڈ یافتہ فلم میکر ہیں۔ بطور صحافی وہ ناروے کے سرکاری چینل ”این آر کے“سے وابستہ ہیں۔ توہین مذہب کے مسئلے پر حال ہی میں، نارویجن زبان میں ان کی کتاب ”توہین مذہب تنازعے کی خوں آشام تاریخ“ شائع ہوئی ہے۔ ’جدوجہد‘ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں اس کتاب اور توہین مذہب کے حوالے سے انہوں نے تفصیلی بات چیت کی۔

حال ہی میں پاکستان اور یورپ میں بلاسفیمی کے مسئلہ سے متعلق آپ کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں تفصیلات سے آگاہ کریں۔

عطا انصاری: میری کتاب درحقیقت میری ڈھائی تین سال کی تحقیق پر مبنی ایک صحافتی تجزیہ ہے۔ اس سے قبل بھی ناروے میں ایک اقلیت ہونے کے ناطے یہ موضوع میرے لئے کافی اہم رہا ہے کیونکہ یہاں میں نے 50برس سے زائد گزارے ہیں۔ یہ بلاسفیمی کا معاملہ گاہے بگاہے ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ اس لئے ہم کسی نہ کسی طرح اس بارے میں سوچتے، جانتے یا اس کا حصہ رہے ہیں۔

اس کتاب میں ان تمام تر واقعات کا تجزیہ کیا گیا ہے جو بلاسفیمی کے حوالے سے اہم رہے ہیں۔ چاہے وہ سلمان رشدی کی کتاب کا معاملہ ہو، ڈینش کارٹون، فرانسیسی کارٹون یا اس طرح کے دیگر پرتشدد واقعات، جو بلاسفیمی کی وجہ سے فرانس، بلجیم، ہالینڈ اور ڈنمارک وغیرہ میں ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے یا توہین کے الزام میں بہت سی جگہوں پر لوگوں کو قتل کیا گیا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ معاملات کسی نہ کسی طرح1988سے ہمارے سامنے ہیں، اور یہی وہ سال تھا جب میری پیشہ وارانہ صحافتی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ انہی دنوں میں سلمان رشدی کی کتاب بھی آئی تھی۔ ہم نئے نئے صحافی تھے، تو ہمارے خیالات یہی تھے کہ آزادی اظہارپر کوئی قدغن، کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ کسی بھی مصنف یا صحافی کو سزا کے طور پر قتل کرنے یا قانونی کارروائی کا سامنا ہو یا اس کے خلاف تشدد کا استعمال کیا جائے تو ہم اس کی حمایت نہیں کرتے تھے، نہ آج کرتے ہیں۔

کتاب لکھنے میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مجبور یا آمادہ کیا وہ مشال خان کے بہیمانہ قتل کا واقعہ تھا۔ اس واقعہ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ ایک نوجوان اور ہونہار یونیورسٹی طالبعلم تھا، جسے انتہائی بے دردی اور ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ اس سے قبل سلمان تاثیرکے قتل اور ممتاز قادری کو ہیرو بنائے جانے کا معاملہ بھی ہمارے سامنے تھا۔ بار بار کے یہ واقعات بے حد تکلیف، پریشانی اور بے چینی کاباعث بنتے تھے۔ اس لئے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بلاسفیمی کا تنازعہ یورپ اور سکینڈے نیویاسے بھی جڑا ہوا ہے۔ کسی نہ کسی طرح سے یہ سوال اور معاملہ پاکستان، پاکستانی کمیونٹی، مسلمانوں، یورپ اور پاکستان سے بہت ہی زیادہ جڑا ہوا ہے۔

تعلیمی اداروں میں جب اس طرح کے واقعات ہونے شروع ہو جائیں تو یہ معاشرے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ طلبہ جدید سوچ کے سفیر ہوتے ہیں۔ ان میں چیزوں کو جاننے، سمجھنے اور پرکھنے کی تیزی اور جذبہ ہوتا ہے۔ وہ سیاسی سرگرمیاں کرتے اور شعور کو آگے بڑھاتے ہیں۔ لوگوں کے حقوق کے دفاع، انصاف کی فراہمی اور ایک پر امن معاشرے کیلئے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نئی سوچ، نئی فکر یا علم کی نئے جہتوں تک رسائی کی کوشش جیسی چیزیں تو لگتا ہے جیسے پیچھے ہی چلی گئی ہیں۔ مذہبی انتہاء پسندی نے بہت حد تک یونیورسٹیوں پر قبضہ جما لیا ہے۔

مشال خان کے قتل کے بعد میں نے ان کے استادا ور والد کا انٹرویو سنا تو اسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ اس واقعے کو بنیاد بنا کر کتاب لکھوں گا۔ تاہم جب تحقیق شروع کی تو بہت سے واقعات میری نظروں کے سامنے تھے، جن کے بارے میں رپورٹنگ کر چکا تھا یا تبصرے کرتا رہا ہوں۔ اس کتاب میں پاکستان میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات کا ذکر، ان کا تجزیہ اور تحقیق موجود ہے۔ یورپ میں رونما ہونے والے بہت سے بڑے واقعات کی تحقیق اور تجزیہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ جاپان میں سلمان رشدی کے کتاب کے مترجم کے قتل کے حوالے سے ایک تحقیق اس کتاب میں موجود ہے۔ ان کا ذکر بہت کم ملتا ہے، اور بہت کم لوگوں کو اس واقعہ کا پتہ ہوگا۔ اس کتاب میں اس قتل میں ملوث پاکستانی اور دیگر افراد کی معلومات سمیت اس کیس کی تفصیل اور اس طرح کے دیگر بہت سے کیسوں کی تفصیل موجود ہے۔

سلمان رشدی کی کتاب کے مترجم جاپان میں اسلام کے سب سے بڑے ماہرین میں شمار ہوتے تھے اور بہت قابل انسان تھے۔ وہ واحد مترجم تھے جو رشدی اور مغربی دنیا کی آزادی اظہار کی تعریف پر بھی تنقید کیا کرتے تھے۔ وہ یکطرفہ بات نہیں کرتے تھے۔ بعض دفعہ ہمیں لگتا ہے کہ صرف مذہبی لوگ ہی انتہا پسند ہیں۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ اکثر اوقات سیکولر اور ایتھیسٹ لوگ بھی بہت زیادہ انتہا پسندی کی طرف چلے جاتے ہیں۔

تاہم جاپان کے وہ مترجم بہت متوازن تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ترجمہ اس لئے نہیں کیا کہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، بلکہ اس لئے کیا کہ کئی لوگوں نے خوف کی وجہ سے ترجمہ کرنے سے انکار کردیا۔ جب میں نے کتاب پڑھی تو مجھے اس کتاب نے ادب کے پیمانوں کی وجہ سے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مذہبی شخصیات کا مذاق اڑانے والے عمل سے متفق نہیں تھے۔ لیکن ترجمہ کرنے کا مقصد آزادی اظہار کا دفاع کرنا تھا، بلکہ ان کا مقصد صرف اتنا ہی تھا کہ ایک ادب پارہ ہے تو اسے جاپانی زبان میں بھی ترجمہ کر کے شائع کیا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ کتاب میں میری ذاتی جھلک بھی نظر آئے گی۔ جب سلمان رشدی کی کتاب آئی تو میرے والد سے بہت بحث ہوتی تھی کہ کیوں امام خمینی نے ایک مصنف قتل کا حکم دے دیا ہے۔ میرے والد کہتے تھے کہ رشدی انتہا پسند صیہونیوں اور مسیحی بنیاد پرست طاقتوں کا نمائندہ ہے۔ وہ بتاتے تھے کہ اگر مسیحی ادب پڑھیں تو وہ پیغمبر اسلام اور اسلام کی توہین سے بھرا ملے گا۔ پہلے زمانے میں یورپ میں بھی بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے۔ یہ تمام علوم لاطینی زبان میں تھے اور  صرف پادری اور ان کے حلقوں کے چند لوگ جانتے تھے۔ وہ لوگ جب اسلام کا مطالعہ کرتے تھے تو وہ اس لئے نہیں کرتے تھے کہ اسلام کا پرچار کر کے لوگوں کو مسلمان کریں گے بلکہ وہ یہ ثابت کرنے کیلئے کرتے تھے کہ یہ ایک ناقص مذہب ہے۔ اسے کفر اور بلاسفیمی قرار دے کر اس سے دور رہنے کا درس دیتے تھے۔ پیغمبر اسلام سے متعلق منفی باتوں کا پرچار کیا کرتے تھے، مثبت بات نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح صلیبی جنگیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ گو کہ برصغیر سے ان کا تعلق نہیں لیکن اب دنیا آپس میں اتنی جڑ گئی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے وہ ساری چیزیں ہم سے بھی منسلک ہو گئی ہیں۔ تاریخ کا دھارا تبدیل ہونے، جدید ٹیکنالوجی اور رابطوں کی وجہ سے شناخت کا دائرہ بھی وسیع ہو رہا ہے، کئی معنوں میں تنگ بھی ہو رہا ہے۔

ماضی میں برصغیر کے مسلمان سلطنت عثمانیہ کے ساتھ اپنی شناخت نہیں کرتے تھے۔ جب تحریک خلافت چلی تھی، تب بھی شاید لیڈروں کو تو معلوم تھا لیکن عام لوگوں کو اس بارے میں بہت کم علم تھا۔ لوگ سلطنت عثمانیہ، عباسیہ، بنو امیہ اور فاطمی سلطنتوں کے متعلق بہت کم جانتے تھے۔ اب تعلیم زیادہ ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے معلومات کی فراوانی ہے۔ اس لئے مسلم بھی اپنے آپ کو گلوبل اور لوکل مسلم کے طور پر شناخت کر سکتے ہیں۔ یروشلم پر کس نے حملہ کیا، محمود غزنوی نے کتنے مندر گرائے یا اس طرح کے دیگر واقعات سے آج کے ہندو یا مسلم کا کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ ماضی میں جب یہ واقعات ہوتے تھے تو ان کی خبر بھی دوسرے خطے یا علاقے تک پہنچتے سالوں لگ جاتے تھے اور اکثر یہ خبر قصے کہانیوں کے طور پر پہ پہنچتی تھی۔

آج تو یہ سب کچھ پلک جھپکتے میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلم شناخت کا تصور ہر زمانے میں بدلتا رہا ہے۔ آج کے عہد میں جو پاکستانی مسلم شناخت کا تصور ہے، اس سے بلاسفیمی کا تصور بہت زیادہ جڑا ہوا ہے۔ بلاسفیمی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بہت سارے ملکوں میں مظاہرے ہوئے، بہت سے مسلمانوں نے رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر بلاسفیمی کے خلاف احتجاج کیا اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔ کچھ پرتشدد مظاہرے بھی ہوئے، کچھ جگہوں پر باقاعدہ ہتھیار اٹھا کر لوگوں کو قتل بھی کیا گیا۔ یوں بلاسفیمی ایک ایسا عنصر، پہلو یا موضوع ہے جو مسلمانوں کیلئے انکی شناخت کو جوڑنے والا عنصر بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کتاب میں اس بارے میں بھی بحث موجود ہے۔

کتاب کا مقصد بنیادی طور پر یہی ہے کہ یہ واضح کرنے کی کوشش کی جا سکے کہ بلاسفیمی کی تعریف کیسے کی جا سکتی ہے یا کیا ہو سکتی ہے۔ دوسری بات کہ جو میرے لئے بلاسفیمی ہے، وہ شاید کسی دوسرے کیلئے نہ ہو۔ اس کی سب سے اہم مثال یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام نے مذہب کا پرچار شروع کیا تو اس وقت رائج مذاہب کا خیال تھا کہ پیغمبر اسلام ان کے خداؤں کے خلاف بلاسفیمی کر رہے ہیں۔ اسی طرح جب محمود غزنوی نے سونا لوٹنے کیلئے مندر گرائے تو وہ ہندوؤں کے خلاف بلاسفیمی کر رہا تھا۔ مسلمانوں کے اندر بھی جھگڑے، تضادات اور چپقلش موجود ہے، جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے اقدامات کو بلاسفیمی قرار دیا جاتا ہے۔ یوں بلاسفیمی کا تصور ہر ایک کیلئے الگ ہے۔ اسی طرح بلاسفیمی کی تعریف اور تصور ہر دور میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس سے کیسا نمٹا جائے، آزادی اظہار پر کب اور کیسے قدغن لگائی جائے، لگائی بھی جائے یا نہ لگائی جائے۔ یہ سب کچھ اس کتاب کا حصہ ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران سرگودھا اور سوات میں بلاسفیمی کے نام پر لنچنگ (ہجوم کے ہاتھوں قتل) کے دو واقعات ہوئے ہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصہ سے لنچنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان میں بلاسفیمی کے نام پر لنچنگ کی تاریخ سے متعلق کچھ بتائیں کہ یہ کب سے ہو رہی ہے اور اب تک کتنے واقعات رونما ہو چکے ہیں؟

عطا انصاری:عام طور پر لنچنگ کا تصور یہی ہے کہ بہت سارے لوگ مل کر کسی ایک شخص پر الزام لگائیں اور خود ہی اسے سزا دے دیں۔ یہ درحقیقت ماورائے عدالت قتل کی ایک شکل ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ نئی نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی بنیاد قدیمی نظام یا سوچ میں اور اس کی تاریخ میں پیوستہ ہے۔ جدید دور میں بھی دیکھا جائے تو غیرت کے نام پر خاص طورپر خواتین کا قتل آج بھی ہو رہا ہے۔ انگریزوں کے قانون کے مطابق بھی ایسا قتل یا جرم کرنے والوں کو کم سزا ملا کرتی تھی۔ انگریزوں نے اس قانون کو کلچر، اقدار یا روایات کے طور پر تسلیم کر رکھا تھا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ انہوں نے صرف برصغیر میں ہی اپلائی کیا کہ یہاں کے کلچر کا حصہ تھا بلکہ حقیقت میں یہ قانون اس وقت برطانیہ میں بھی موجود تھا۔ اگر کوئی باعزت شہری اپنی بیوی کو ’ناقابل برداشت رویے‘ کی وجہ سے مار دیتا تھا تو اس کے ساتھ نرمی برتی جاتی۔ یوں یہ سب کچھ برطانوی قانون کی دین ہے۔ آج اس معاشرے میں پائے جانے والے بہت سارے رویوں کی اصل وجوہات اور تاریخی پس منظر برطانوی راج سے ہی ملیں گی۔

جدید عہد میں لنچنگ مذہبی معاملات میں بلاسفیمی کا الزام لگا کر کسی کو مار دینا ہے۔ اس کا پہلا واقعہ غالباً موجودہ خیبرپختونخوا میں ہوا تھا، جب ایک احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کو لوگوں نے گھیر کر قتل کر دیا تھا۔ تاہم مجھے ٹھیک سے سال یاد نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ لنچنگ کا رویہ بہت پرانا ہے۔ اس میں صرف مذہبی بنیادوں پر ہی لوگوں کو اس طرح نہیں مارا جاتا رہا، بلکہ ایک زمانے میں کراچی میں جب جرائم بڑھ گئے تھے تو لوگوں نے قانون کو خود ہاتھ میں لینا شروع کر دیا تھا۔ بے روزگار یا نشے کے عادی نوجوان جب جرائم کرتے پکڑے جاتے تو لوگ اجتماعی طو رپر ان کو سزا دینے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کے ہوتے ہوئے سزا دینے کا حق کس کو حاصل ہے۔ یہ یقینا لاقانونیت کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہے۔ اس کی وجوہات ڈھونڈیں  تو فرسٹریشن بھی ہے، قانون کے نظام پر عدم اعتماد بھی ہے۔ اس طرح کی دیگر وجوہات پر ضرور بات کی جا سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ لنچنگ کا بڑا گہرا تعلق سیاسی موٹیویٹرز (ترغیب دینے اورحوصلہ افزائی کرنے والے) سے بھی ہے۔ موٹیویٹرز کا لوگوں کو اشتعال دلانا، اس قسم کے رویے کو فروغ دینا، اس کی کھلے الفاظ میں یا ڈھکے چھپے انداز میں حمایت کرنا۔ یہ تمام چیزیں معاشرے کے اندر اس طرح کے لاقانونیت سے بھرپور رویوں کو جنم دینے میں اور ان کو برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔

1988میں پاکستان میں بلاسفیمی کا موجودہ قانون بنا۔ درحقیقت یہ وہی قانون تھا جو برطانوی دور سے چلا آرہا تھا، اس میں پہلی ترمیم کر کے ایک الگ قانون بنایا گیا۔ توہین رسالت کے قانون میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا تجویز کی گئی۔ بعد ازاں نوازشریف کی حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے عمر قید کی سزا ختم کر دی اور موت کی سزا باقی رہ گئی۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور ہماری مجموعی نفسیات کیلئے بہت اہم ہے کہ توہین رسالت یا مذہب کی سزا صرف موت ہے اور کچھ نہیں ہے۔ اگر اس سے نیچے کوئی سزا دی جائے یا کسی شخص پر لوگوں کو یہ یقین ہو جائے کہ اس نے توہین کی ہے اور وہ بچ گیا ہے یا وہ نہیں بچنا چاہئے تو قانون کو ہاتھ میں لینے کا عمل بھی درست سمجھیں گے۔ کیونکہ ملک میں ایک قانون موجود ہے کہ اس الزام میں صرف موت کی سزا ہی ہو سکتی ہے۔ قوانین معاشروں میں رویے ترتیب دینے میں رہنمائی کرتے ہیں اور ان پر اثر انداز ہونے میں مددگار ہوتے ہیں۔ قوانین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔

اس سے قبل بھی ہم 1974میں دیکھ چکے تھے کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ توہین اور تکفیر دونوں چیزیں پاکستان کے آئین اور قوانین میں اس قدر اہم سمجھی گئی ہیں کہ اس پر ملکی سطح پر بڑے بڑے فیصلے کئے گئے ہیں۔ یہ چیزیں رویوں کو پیدا کرنے اور پالش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ، حکومت اور طاقتور لوگ جب یہ سب کچھ کرتے ہیں تو پھر کسی پر تکفیر یا توہین کا الزام لگا دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس عمل میں ملا، فوجی اشرافیہ اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کے سبھی لیڈر ملوث رہے ہیں۔ بھٹو سے زیادہ سیکولر رہنما کون ہوگا، جس کی قیادت میں احمدیت کو اقلیت قرار دیا گیا۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا۔

اس طرح برطانوی قانون، غیرت کے نام پر قتل کا رویہ، توہین کے قوانین، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا اور اس عدالتی نظام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قانون پر لوگوں کے عدم اعتماد کی وجہ سے قانون ہاتھ میں لینے کو بہتر سمجھنے والا پروان چڑھنا عمومی رویہ لنچنگ کی وجوہات میں شامل ہیں۔ اگر ہجوم کسی شخص کا قتل کرے یا ممتاز قادری قتل کرے تو ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں واقعات معاشرے میں پھیلے ہوئے انتہا پسندانہ رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مارنے والے کو لاکھوں اور کروڑوں لوگ درست سمجھتے ہوں یا کم از کم یہ سوچتے ہوں کہ اگر مارا نہ جاتا تو عدالت چھوڑ دیتی، اس لئے بہتر تھا کہ مار دیا۔ مارنے والے کو ہیرو بنا کر پیش کرنا اور غازی کا لقب دے دینا، یہ سب کچھ واضح کرتا ہے کہ معاشرے میں تشدد اور انتہائی پسندی کس حد تک ہے اور انسانی جان کی قدرو قیمت کس حد تک کم ہو گئی ہے۔ اور لوگوں کو ورغلانا، بھڑکانا اور تشدد پر اکسانہ کس قدر آسان ہو گیا ہے۔

یہ سنگین مسئلہ ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی، فوج، انٹیلی جنس، پولیس یا کوئی اور ادارہ پاکستان میں اس کو سمجھنے یا تدارک کرنے کیلئے تیار ہے۔ کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جو اس قسم کی بربریت کو روکنے کیلئے مستقل طو رپر کوئی کام کر رہا ہو۔ یہ معاملہ طویل عرصہ سے بگڑتے بگڑتے یہاں تک پہنچا ہے کہ ہم آج اس صورتحال سے دوچار ہیں، اس کو سدھارنے میں بھی بہت عرصہ چاہیے۔ اس کیلئے طویل مدتی کام کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں بلاسفیمی کے نام پر بہت بڑے بھیانک واقعات ہوئے ہیں۔ کالونیوں پر دھاوا بول کر آگ لگا دینا، کسی جوڑے کو تندور میں پھینک دینا، کسی ذہنی معذور شخص کو قتل کرکے اس کی لاش کو لٹکا دینا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں، جن کا میں نے مطالعہ کیا اور ان کا تفصیلی ذکر اس کتاب میں موجود ہے۔

لنچنگ کے بہت سے ایسے معاملات بھی ہیں، جن میں پھنسنے والے افراد یا تو پریشان حال ہوتے ہیں اور ان سے اس ذہنی دباؤ میں کوئی غلطی ہو جاتی ہے۔ جب انہیں احساس ہوا ہے تو وہ معافی مانگتے ہیں اور جان بچانا چاہتے ہیں لیکن قانون میں معافی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یوں یہ قانون نہ تو مذہبی ہیں اور نہ ہی جمہوری ہیں۔ لنچنگ کے حوالے سے ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات بھی ہیں جہاں کوئی سیاسی یا مذہبی لیڈر کسی کے خلاف لوگوں کو ورغلانے یا اشتعال دینے کے پیچھے ہوتا ہے۔ کئی تو اس طرح کے واقعات بھی ہیں، جن میں لوگوں نے جھوٹے، بے بنیاد، بلکہ ایک سازش کے تحت الزام لگا کر لوگوں ک پھنسایا اور انہیں مروا دیا گیا۔ ذہنی مریضوں کو دنیا بھر میں سزائیں نہیں دی جاتی۔ پاکستان کے فوجداری قوانین کے مطابق بھی ان لوگوں کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ تاہم ہمارے معاشرے میں اس اصول کو کوئی مانتا ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی کا مفاد اس لنچنگ کے پیچھے ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی کچھ کما رہا ہوتا ہے۔ کہیں زمین کا جھگڑا ہوتا ہے، کہیں پلاٹ، نوکری یا پوزیشن کا جھگڑا ہوتا ہے، یاپھر حسد ہوتا ہے۔

کیا یہ درست ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے لنچنگ کے واقعات میں تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کا اہم کردار ہے؟ پہلے اچانک کوئی ہجوم جمع ہو جاتا تھا لیکن اب اسے ٹی ایل پی کوآرڈی نیٹ کر رہی ہے۔ کیا کوئی فرق آیا ہے اس عمل میں؟

عطا انصاری: ٹی ایل پی کے پہلے سربراہ خادم حسین رضوی اور ان کے دوسرے ساتھی پیر افضل گجرات والے کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ پیر افضل نے گجرات اور کھاریاں وغیرہ کے علاقوں میں بہت سے قاتلوں کو ہیرو یا غازی بنایا ہے۔ کئی واقعات ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر قتل کو جائز قرار دیا ہے۔ تاہم بعد ازاں وہ خادم حسین رضوی سے الگ ہوئے، وہ ایک الگ تفصیل ہے۔ خادم حسین رضوی نے جب ممتاز قادری کو اپنایا اور اپنا ہیرو بنایا، اس کی جان بچانے کی لڑائی کو اپنی لڑائی بنا لیا تو اس کا انہیں بہت فائدہ ہوا۔ اس ایک کیس پر پوری پارٹی کھڑی کر دی گئی۔ یہ سب کو پتہ ہے کہ اس میں فوج اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا بڑا ہاتھ تھا۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں امریکی پاکستان کو ڈالر دیا کرتے تھے کہ دیوبندی مکتبہ فکر کو جہاد کی طرف لگایا جائے اور متشدد بنایا جائے تاکہ وہ افغانستان میں جا کر لڑ سکیں۔ بہت سے محققین کہتے ہیں کہ انتہا پسندی نے وہیں سے زور پکڑا۔ مشرف دور آیا تو امریکہ کی پالیسی تبدیل ہو چکی تھی۔ پہلے انہوں نے سوویت یونین کو مارنے کیلئے جہادی پیدا کرنا تھے، اب وہ خود افغانستان میں موجود تھے اور جہادیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے اب بریلوی مکتبہ فکر کو پیسے دینا شروع کر دیے کہ آپ موڈریٹ اسلام کی تعلیم اور تدریس کیجئے۔ یہ باقاعدہ ایک پراجیکٹ کے طور پر فوج نے امریکیوں کے سامنے پیش کیا۔ ان کا موقف تھا کہ ہمارے ملک میں انتہا پسندی بڑھ گئی ہے۔ جہاد ایک مشترکہ پراجیکٹ تھا، جس کی ذمہ داری پاکستان کو سونپی گئی۔ اب اس کی روک تھام کیلئے ہمیشہ ایسے لوگوں کی حمایت کرنا ہوگی جو ماڈریٹ اسلام پسند ہیں۔ اس میں صوفی خیالات رکھنے والے مسلم ہیں، جن کی اکثریت بھارت اور پاکستان میں موجود ہے۔ ان کی مدد کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی جس کے نتیجے میں ٹی ایل پی نے جنم لیا۔ اس کیلئے ممتاز قادری کا کیس ایک بہترین موقع ثابت ہوا۔

لنچنگ اور ماورائے عدالت قتل میں جہاں تک ہاتھ کی بات ہے تو فرانس میں قاتلانہ حملہ کرنے والا شخص خادم حسین رضوی کی تقاریر سے متاثر تھا۔ اسی طرح برطانیہ میں ہونے والے ایک قتل میں ملوث نوجوان بھی خادم حسین رضوی کی سوچ و فکر سے متاثر تھا۔ پاکستان کے چپے چپے، کونے کونے میں جہاں بھی قتل کے واقعات ہوئے ہیں، ان کے پیچھے سوچ و فکر خادم حسین اور ٹی ایل پی کی ہی نظر آتی ہے۔ اب تو ٹی ایل پی ایک ٹریڈ مارک ہے کہ جو توہین کرے اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔ تاہم یہ صرف اب ان تک محدود نہیں ہے۔ بعض مرتبہ اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسی قسم کے نعرے لگ رہے ہوتے ہیں جو ٹی ایل پی کے جلسوں میں لگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سبھی لوگ ٹی ایل پی کے ہی حمایتی ہوں۔ یہ رویہ تمام سیاسی جماعتوں، تمام مکاتب فکر کے لوگوں میں آپ کو ملے گا، یہاں تک کہ احمدیوں میں بھی۔ توہین مذہب کے حوالے سے احمدیوں کا رویہ قدرے نرم ضرور ہے لیکن وہ بھی سمجھتے ہیں کہ بلاسفیمی کے قوانین درست ہیں، سزائیں ہونی چاہئیں۔ پابندیوں کی وجہ سے ان کی صورتحال بھی اس نوعیت کی بن چکی ہے کہ اگر وہ مخالفت کریں بھی تو ایک اور الزام ان پر لگ جائے گا کہ یہ توہین پسند بھی ہیں۔

ٹی ایل پی ایک ایسا مظہر ہے، جسے ضیاالحق کے زمانے میں پروان چڑھائی گئی انتہائی پسندی کا توڑ کرنے اور بریلویوں کو آگے لانے کیلئے پالا پوسا گیا۔ تاہم بریلویوں کا توہین مذہب اور توہین رسالت کے حوالے سے ہمیشہ ہی سخت رویہ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پھربرطانوی دور ہی ہے، جہاں پر ہندو مسلم چپقلش زوروں پر تھی۔ خاص طورپر پنجاب میں اس کا بہت زور تھا۔ احمد ی تحریک بھی پنجاب سے ہی تھی۔ اینٹی احمدی تحریک بھی پنجاب میں بہت زوروں پر رہی، پھر اینٹی ہندو تحریک بھی پنجاب میں ابھری۔ اس طرح پنجاب کافی حد تک مذہبی تشدد اور اختلافات کا گڑھ بنا رہا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کی سب سے خوفناک سمجھی جانے والی تنظیم سپاہ صحابہ بھی پنجاب سے ہے، طالبان کو سب سے زیادہ حمایت بھی پنجاب سے ملی ہے۔ القاعدہ کے بھی سب سے زیادہ حمایتی پنجاب سے ملتے ہیں۔ داعش کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں لیکن جس چیز کے حق میں فوج ہوتی ہے، پنجاب بھی اس کے حق میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب میں شریف خاندان کی حکومت رہی ہے، وہ بھی طالبان کے حمایتی رہے ہیں۔

یہ ضرور ہے کہ ٹی ایل پی نے ایک ایسی شکل اختیار کر لی ہے کہ وہ نہ صرف ایک سیاسی پارٹی ہے بلکہ ایک فکر اور سوچ کو بھی فروغ دیتی ہے، جس میں رواداری، برداشت اور وہ سب چیزیں بالکل بھی نظر نہیں آتیں جو صوفی ازم سے جوڑی جاتی ہیں۔ یہاں ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دیوبندی یا بریلوی مکاتب فکر کا موازنہ اگر بھارت سے کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ وہاں نہ تو دیوبندی جہادی ہیں، نہ بریلوی توہین مذہب کے حوالے سے اس قدر انتہا پسند ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ سب کچھ سٹیٹ سپانسرڈ ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے بڑے گروہوں کے مفادات ہوتے ہیں۔

عالمی سطح پر اس میں سعودی عرب اور امریکہ جیسی طاقتوں کی مداخلت بھی موجود ہے۔ پاکستان کو انتہا پسندی کا ایک اکھاڑا بنا کر رکھا گیا ہے۔ ضیا کے زمانے سے پاکستان کے ساتھ بہت سے المیے جڑے ہیں، جن پر خود ریاست کا کنٹرول بھی نہیں ہے۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں یا کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا تھا، اس لئے یہاں یہی کچھ ہوگا۔ تاہم کسی بھی عمل کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو سیاسی و معاشی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ آپ کے خیال میں وہ کیا سیاسی و معاشی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے لنچنگ کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے؟

عطاانصاری: پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ پاکستان نہ تو تیترہے اور نہ بٹیر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکولر لوگ کہتے ہیں کہ 11اگست کی محمد علی جناح کی تقریر میں رہنما اصول دیے گئے ہیں۔ اس کے مطابق ریاست سیکولر ہوگی اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ وہ برطانوی جمہوریت کی بات بھی کرتے ہیں۔ تاہم ان کے مرنے کے بعد لیاقت علی خان کی قیادت میں سب کچھ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ قرارداد مقاصد منظور کی گئی، جس کی تمام اقلیتوں کے نمائندوں نے مخالفت کی اور احتجاج کیا۔ ان کی اکثریت پاکستان بھی چھوڑ کر چلی گئی۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں یہ جو جھگڑا ہے کہ یہ اسلام کے نام پر بنا تھا، اسلامی ملک ہونا چاہیے اور اسلامی قوانین ہونے چاہئیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے، جس کے نتیجے میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس کی بنیاد بھی یہی ہے کہ پاکستان نے اپنے لئے کوئی حدود متعین نہیں کیں۔ مثال کے طور پر کہ جمہوری ملک ہونے کے ناطے کس قسم کے قوانین بنا سکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں۔ جمہوریت کے کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ پابندیاں ہیں، جن کے اندر رہتے ہوئے ہی آپ قوانین اور آئین بناتے ہیں۔ جب آپ نہ تیتر ہوں، نہ بٹیر تو پھر کبھی کچھ اسلام سے لے لیا، کچھ برطانوی قانون سے لے لیا۔ کہیں جدید جمہوریت سے ضرورت کے مطابق اثرات لے لئے اور کبھی بین الاقوامی پریشر کی بنیاد پر کوئی قانون بنا لیا۔ یہ سلسلہ پاکستان کیلئے بہت ہی برا اور خوفناک ثابت ہوا ہے۔

سیاسی و معاشی حالات کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ بہت سی جگہوں پر خراب ہیں۔ بھارت اتنا بڑا ملک ہے، اس کا ہمارے ساتھ کوئی موازنہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر دیکھیں تو وہاں اتنی غربت اور بیروزگاری ہونے کے باوجود اب سے چند سال پہلے تک اس طرح کی لنچنگ کے واقعات بہت کم تھے جو آج کل ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ رویے معاشرے کے اندر اہم کرداروں کی وجہ سے بھی پروان چڑھتے ہیں جو اثر رکھتے ہیں۔ ان کے رویے، گفتگو، سوچ و فکر اور الفاظ لوگوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مودی رجیم ہندوتوا پر بیس کرتی ہے۔ مذہب کو سیاست کے اندر مکس کیا گیا تو نتیجہ نظر آرہا ہے۔ نائیجیریا میں بھی ہم نے دیکھا کہ عیسائیوں کو لنچ کر دیا جاتا ہے۔ ایسا عیسائی خود ہی بلاسفیمی کے الزام لگا کر کرتے ہیں۔ جنوبی اور لاطینی امریکہ میں بھی ایسے کئی واقعات ہم نے دیکھے ہیں لیکن یہ شاذونادر ہی ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ واقعات پاکستان میں ہورہے ہیں، اس طرح کہیں نہیں ہوتے۔ بھارت میں اس کی دوسری بھیانک مثال اب ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے۔

ہم بھارت میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ گاؤ رکھشا کے نام پر لنچنگ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، کیا آپ نے پاکستان اور بھارت کا کوئی موازنہ کیا ہے؟

عطا انصاری: بھارت میں ہونے والی لنچنگ اور پاکستان میں ہونے والے واقعات میں بہت سی چیزیں ایک ہی جیسی ہیں۔ قومی یا اجتماعی طور پر دیکھیں تو تھوڑا بہت فرق بھی ملتا ہے۔ ملتی جلتی چیزوں میں یہی ہے کہ مذہب کے نام پر تشدد ہوتا ہے۔ برصغیر میں پہلے بھی یہ ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ انگریزوں کے دور سے چلتا آرہا ہے۔ مسلمانوں کا بھی کافی عمل دخل رہا ہے، انہوں نے کئی قتل کئے ہیں۔ برطانوی دور میں بلاسفیمی کے حوالے سے کئی قتل ہوئے تھے۔ غازی علم دین والا واقعہ سب سے زیادہ مقبول ہوا تھا۔

اس واقعہ کی مقبولیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ ضیاالحق کے دور میں اس کردار کو ایک استعارے کو طور پر گلیمرائز کیا گیا۔ اسلام کیلئے لڑنے مرنے والا مسلمان کردار بنا کر بہت سے جھوٹ شامل کر کے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ برطانوی عہد میں ہندوؤں کی بہت سے تحریکیں تھیں، مسلمانوں کی بھی پرتشدد تحریکیں رہی ہیں۔

1947کے بعد بھارت میں سیکولر آئین کی وجہ سے مذہبی رویے مجموعی طور پر انتہا پسندی کو مسترد کرتے تھے۔ جب مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا گیا تو مذہب مندروں اور مسجدوں تک محدود ہو گیاتھا۔ تاہم مودی کے زمانے میں مذہب اور سیاست کو مکس کرنے کے اقدامات شروع کئے گئے۔ پاکستان میں اس کے برعکس 1948میں ہی قرارداد مقاصد کے ذریعے اسلام اور سیاست کو گڈ مڈ کر دیا گیا تھا۔ بھارت میں یہ پہلی کوشش ہے کہ آئین تبدیل کیا جائے اور بھارت کو ہندتوا کے تحت ایک ہندو ریاست بنایا جائے تاہم یہ کوشش بھی تقریباً ناکام ہو گئی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ جمہوری رویوں اور جمہوری طاقتوں کی ایک جیت ہوئی ہے۔ وہ دیوار بن کر مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والے حلقوں کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسی آوازیں بہت کم ہیں۔ ایسے دانشور، سیاسی شخصیات یا عوامی نمائندے جو اس حوالے سے بات کریں کہ بھائی مذہب اور سیاست کو الگ رکھا جائے۔ اس طرح سے ان رویوں پر قابو پانے کیلئے کام کیا جائے۔ اس کے برعکس بھارت میں ایسی آوازیں بہت ہیں۔ پاکستان اور بھارت کا مسئلہ الگ ہے۔ پاکستان میں اسلام اور جمہوریت کا مکسچر ہمارے ڈی این اے میں ڈال دیا گیا ہے۔ بھارت میں مودی کی یہ تحریک نئی ہے۔ بھارت کی اکثریت اس کیلئے راضی نہیں ہے کہ مذہب اور سیاست کو مکس کرکے آئین کا حصہ بنا دیا جائے۔

لنچنگ میں لیڈروں، سربراہوں اور رول ماڈلز کی نفرت انگیز تقریروں کا اثر ہوتا ہے۔ وہ اگر لاکھوں لوگوں سے بات کرتے ہیں تو ان میں سے دو چار سو ایسے ہوتے ہیں جو تشدد کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ بھارت میں مودی اور آر ایس ایس کے لوگ جب تقریریں کرتے ہیں توان میں سے کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مرنے اور مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ لنچنگ کے واقعات میں اکثر تھوڑے سے ہی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان میں بھی ہے۔ جب لنچنگ ہوتی ہے تو اس میں بڑے پیمانے پر پورا شہر ملوث نہیں ہوتا۔ موقع پر موجود چند سو افراد ہی شامل ہوتے ہیں۔ لنچنگ پر قابو پانا بھی مشکل بات نہیں ہے۔ ریاست چاہے تو قابو پا سکتی ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ جب لنچنگ ہو رہی ہوتی ہے تو پولیس کھڑی ہو کر تماشہ دیکھتی ہے یا موقع سے غائب ہو جاتی ہے، یا پھر معمولی سی کارروائی کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ اشتعال بڑھ گیا تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ جب کسی کی جان خطرے میں ہوتی ہے تو اس کی جان بچانے کا فرض کس پر عائد ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی کی جان بچانے کیلئے گولی چلانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ جب ایسا خدشہ ہو تو پولیس کو فائر کر دینا چاہئے۔ جو لوگ سرتن سے جدا والے نعرے لگائیں ان کو فوری گرفتار کر کے کارروائی کرنی چاہئے۔ اگر پولیس نے پاکستان اور بھارت میں مداخلت کر کے تین چار لنچنگ کے واقعات پر قابو پا لیا تو میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ دونوں ملکوں میں لنچنگ کے واقعات رونما ہونا ہی بند ہو جائیں گے۔

کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ یورپ میں بھی کوئی لنچنگ کی تاریخ رہی ہے، خاص کر مذہب کے نام پر لوگوں کی لنچنگ کی کوئی تاریخ رہی ہو؟

عطا انصاری: یورپ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں خاص طور پر عورتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہاں یہ ایک بہت عمومی رویہ رہا ہے۔ یہاں پر بادشاہ کے بعد سب سے بڑی طاقت چرچ کی تھی۔ جب پورا یورپ کیتھولک تھا، اس وقت پوپ کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ اب یورپ میں زیادہ پروٹسٹنٹ ہیں لیکن یہ طاقت اس کے بعد بھی رہی ہے۔

لنچنگ اور قبائلی نظام ایک زمانے میں یہاں بھی رہا ہے۔ لنچنگ کے واقعات بہت ہوتے رہے ہیں۔ سنگسار کرنا عیسائیت، یہودیت اور اسلام میں رہا ہے۔ تینوں ابراہیمی مذاہب میں لنچنگ سزا کے ایک طریقے کے طور پر تاریخی طور پر رائج رہی ہے۔ میدان میں کھڑے کر کے کوڑے لگانا، میدان میں لوگوں کے سامنے سرقلم کرنا، میدان میں جمع ہو کر کسی کو پتھر مار کر جان سے مار دینا۔ اس طرح کی سزائیں تینوں مذاہب میں رائج رہی ہیں۔ اسلام میں اس قسم کی سزائیں دینا کچھ عرصہ پہلے ہی بند کیا گیا ہے۔ کئی جگہوں پر ابھی بھی سرعام پھانسی یا سرقلم کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔

ریاست کا تصور اس کے برعکس ہے۔ ریاست شہریوں کو انتقام کی اجازت نہیں دیتی۔ انتقام اور سزا میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہم نے تو بنیادی طور پر گناہ اور جرم میں فرق ہی مٹا دیا ہے۔ گناہ ایک انفرادی رویہ ہے، جس کی سزا اور جزا کا تعلق خدا سے ہے۔ جرم الگ چیز ہے۔ ہمارے ہاں جرم اور گناہ کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے۔ رشوت، دھوکہ دہی، ملاوٹ وغیرہ جو جرائم تھے وہ اب جرائم نہیں ہیں۔ ان کی جگہ گناہوں کو جرائم قرار دے دیا گیا ہے۔ زنا جرم ہے، بلاسفیمی جرم ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ماڈرن قانون ہے، اس کی سوچ اور بنیاد میں یہ ضروری ہے کہ گناہ اور جرم میں فرق رکھا جائے۔ انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر کسی کو سزا دینے کی اجازت نہیں ہوتی، سزا دینا ریاست کا کام ہے۔ انتقام اور سزا بھی الگ الگ چیزیں ہیں اور گناہ اور جرم بھی الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہ فرق قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا پاکستان کے علاوہ بھی کوئی مسلم اکثریتی ملک ہیں، جہاں پر پاکستان جیسے بلاسفیمی کے قوانین ہیں؟ کیا آپ نے اس بارے میں کوئی تحقیق کی؟

عطا انصاری: اقوام متحدہ کا ایک چارٹ بنا ہے، اس میں یہ تفصیل موجود ہے کہ کن کن ملکوں میں بلاسفیمی قوانین موجود ہیں اور ان کی کیا سزائیں ہیں۔ عمومی طور پر یہ کہنا درست ہے کہ اکثر مسلم ملکوں میں بلاسفیمی قوانین موجود ہیں۔ اکثر مسلم ملکوں میں یہ قوانین برطانوی دور کے ہی ہیں۔ مسلم دنیا پر زیادہ تر برطانیہ کا ہی قبضہ رہا ہے اور انہی کے قوانین چلے آرہے ہیں۔ موت کی سزا البتہ صرف چند ایک ملکوں میں ہی ہے، جن میں ایران، پاکستان، افغانستان اور سعودی عرب شامل ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ملک میں موت کی سزا نہیں ہے تو کیا وہ پاکستان سے کم مسلمان ہیں یا اتنے سارے بلاسفیمی قوانین بنا لینے سے کیا بلاسفیمی کے واقعات کم ہو گئے ہیں۔ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ 1988سے اب تک دن بدن ان واقعات میں اضافہ ہے۔ 1929سے1988تک اکا دکا واقعات ہی ملتے ہیں۔ تاہم 1988کے بعد بھرمار ہوگئی ہے۔ اب پاکستان میں کل ڈھائی ہزار کے لگ بھگ مقدمات ہیں۔ اعداد و شمار بھی پاکستان کے بہت کمزور ہیں، ان پر پوری طرح یقین نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم پھر بھی ماہرین کا ایک اندازہ ہے کہ دو سے ڈھائی ہزار کے درمیان اس طرح کے واقعات زیر غور ہیں۔

زیادہ تر یورپی ملکوں میں بھی بلاسفیمی قوانین تھے، ابھی بھی کچھ جگہوں پر موجود ہیں۔ تاہم ان کا استعمال نہیں ہوتا۔ ان میں سے کسی میں بھی عمر قید، سزائے موت، 10، 20یا 25برس کی سزا نہیں ہے۔ اگر سزائیں ہیں بھی تو بہت معمولی سزائیں ہے۔ کئی دہائیوں سے البتہ ان قوانین کا استعمال ہی نہیں ہوا۔

دیکھنا پڑے گا کہ ان قوانین کا کوئی فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ معاشرے میں رواداری، انسان دوستی یا مذہب کا احترام بڑھ رہا ہے یا نہیں۔ ایسی صورت میں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ ان سوالات کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں موجود بلاسفیمی قوانین کے حوالے سے بڑے بڑے قانون دان کہتے ہیں کہ ان میں بہت بڑی کمزوریاں ہیں، جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔ قوانین کو ناجائز استعمال کرنے والوں کے حوالے سے بھی سخت قوانین بنائے جائیں اور کارروائی ہو۔ اسی طرح معافی، یعنی رجوع کرنے کی گنجائش بھی ہونی چاہیے۔ سب سے بڑا مسئلہ انوسٹی گیشن کا ہے۔ پولیس پر دباؤرہتا ہے، ججوں پر بھی دباؤ رہتا ہے۔ اکثر لوگ جا کر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے رہا ہوتے ہیں۔

بلاسفیمی قوانین کی وجہ سے بلاسفیمی میں کمی نہیں آئی بلکہ الٹا اثرہوا ہے۔ کسی نہ کسی کو ہمت کرنا پڑے گی اور کوئی نہ کوئی تو آگے بڑھ کر کہے گا کہ ہم ان قوانین کو کم از کم بہتر کیسے کرسکتے ہیں۔

آپ کے خیال میں اس سارے تشدد کو روکنے کیلئے پاکستان میں اور عالمی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

عطا انصاری: پاکستان میں نفرت آمیز گفتگو، قتل کرنے والی، قاتلوں کو سراہنے والی، انہیں ہیرو بنانے والی گفتگو اور رویوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اس پر قابو ایسے ہی پایا جا سکتا ہے کہ جب لنچنگ کا کوئی واقعہ ہو تو پولیس کو اپنی جان لگا کر متاثرہ شخص کی جان بچانی چاہیے۔ پولیس جب دو تین مرتبہ مداخلت کرے گی تو اس طرح کے واقعات رک جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ قتل کرتے ہیں ان کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کے عمل پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ الزام لگانے والے افراد پر بھی قانونی کارروائی ہونی چاہئے کہ آپ نے الزام کیسے لگایا، اس سے کسی کی جان خطرے میں جا سکتی ہے۔ اگر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے تو سزا ملنی چاہئے اور کارروائی ہونی چاہئے۔ جب دو چار لیڈروں کے ساتھ یہ ہوگا تو خودبخود ہی لوگوں کو سمجھ آجائے گی کہ جھوٹے الزامات لگانے کا فائدہ نہیں رہا۔

تیسری چیز یہ ہے کہ ایک مذہبی لیڈر اور سیاستدان تشدد کو جواز فراہم کرنے کیلئے عدالتوں اوراداروں کی سست روی کا بہانہ بناتے ہیں۔ یہ جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ پاکستان میں عدالتیں کسی کو سزا نہیں دیتیں۔ اس کیلئے چند ایک کیسوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ آسیہ مسیح کیس کو بنیاد بنا کر یہ جھوٹ پھیلایا گیا ہے کہ پاکستان میں بلاسفیمی کرنے والوں کو سزائیں نہیں دی جاتی ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ عدلیہ، پولیس، پارلیمنٹ یا حکومت کو یا کسی کو تو کم از کم وہ اعداد و شمار جاری کرنے چاہئیں کہ کتنے لوگوں کو آج تک سزائیں ہو چکی ہیں۔ یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی پر الزام لگ جائے تو کیس کی سماعت پر ہی 9سے10سال لگ جاتے ہیں۔ اگر اس کی سزا ہی 9سال بنتی ہو تو وہ کیس کا فیصلہ ہوئے بغیر ہی اتنا عرصہ جیل میں گزار لیتا ہے۔ پورے کا پورا نظام انصاف ہی اسی طرح کا ہے کہ لوگ سالوں فیصلوں کا انتظار کرتے جیل میں بیٹھے رہتے ہیں۔ یہی کچھ بلاسفیمی کیسوں میں بھی ہوتا ہے۔

سینکڑوں لوگ بلاسفیمی کے الزامات میں جیلوں میں ہیں اور برسوں سے ہیں۔ بڑے شوق سے یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے لیکن جب توہین کو وجہ بنا کر کسی کا قتل کر دیا جاتا ہے تو تب انسانیت کا قتل نہیں ہوتا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیا ہر انسان کی جان قیمتی نہیں ہے، چاہے وہ برا ہو یا اچھا ہو، نیک ہو، مسلم ہو یا غیر مسلم۔ کیا ہر انسان کی جان کی اہمیت اور قیمت ایک جیسی نہیں ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہم لوگوں میں ایک امتیازی رویے، امتیازی سلوک، سوچ اور تعصب کی تعلیم و تدریس پھیلا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنی تقاریر، تدریس اور تعلیمی نظام پر بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارا معاشرہ کثیر الثقافتی اور بین المذاہب معاشرہ ہے۔ مسلمانوں میں بھی اتنے فرقے اور طرح طرح کی آرا ہیں کہ جب تک وہ مل جل کر نہیں رہتے معاشرے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ چیزیں ہماری تعلیم اور تربیت کا حصہ نہیں ہیں۔ ناروے میں تدریس کا اصول رٹا یا حفظ نہیں ہے۔ یہاں مشاہدہ اور تجربہ تدریسی طریقہ کی بنیاد ہے۔ چھوٹے بچے کالے، گورے، مسلم، غیر مسلم میں فرق نہیں کرتے۔ ان کی دوستیاں ہر طرح کے لوگوں سے ہوتی ہیں۔ یہ تقسیم بڑوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس لئے خود جو مرضی کریں لیکن دوسروں کے خلاف نفرت نہ پھیلائیے۔ تعلیم، تدریس، تربیت سے نفرت کا عنصر ختم کیا جائے تو کافی چیزیں کنٹرول میں آسکتی ہیں۔

یہ بات پاکستانیوں کے لیے دلچسپ ہونی چاہیے کہ محمد علی جناح نے انگریز دور میں بننے والے پہلے بلاسفیمی قانون پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ یہ قانون مذہبی معاملات پر بات چیت اور تبادلہ خیال میں رُکاوٹیں پیدا کرے گا۔ ہر خاص و عام کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں دُنیا کے سخت ترین اور تعداد میں سب سے زیادہ بلاسفیمی قوانین موجود ہیں مگر اس کے باوجود دُنیا کے کسی دوسرے مُلک میں بلاسفیمی کے اتنے کیس نہیں ہوتے، اتنے گھر نہیں جلتے، اتنے لوگ نہیں مرتے، آخر کیوں؟ کون ہیں وہ لوگ جو انسانوں کو نفرت کے تندور میں جھونک کر اپنی روٹیاں سینک رہے ہیں اور پوری دُنیا میں جناح کا پاکستان انتہا پسندی کی آماجگاہ سمجھا جاتاہے۔

(بشکریہ: روزنامہ جد و جہد آن لائن)