احتجاج، دھرنا اور ملکی معیشت پر بڑھتا ہؤا دباؤ

جماعت اسلامی کے احتجاج کی وجہ سے آج اسلام آباد میں کاروبار زندگی معطل رہا البتہ تحریک انصاف  نے  اسلام آباد ہائی کورٹ سے فوری طور پر  اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اپنا احتجاج ملتوی کردیا۔   حکومت نے اسلام آباد اور پنجاب میں  تحریک انصاف کا احتجاج روکنے کے لئے  دفعہ 144 نافذ کردی تھی ۔  لیکن جماعت اسلامی  نے قانون کی خلاف ورزی کرنا عوامی مفاد میں بہتر سمجھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے  جائز سیاسی احتجاج کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے امن و امان کو لاحق خطرے کے حوالے سے جو دلیل دی جاتی ہے ،اسے عذر لنگ سے زیادہ  اہمیت  حاصل نہیں ہے۔  بلکہ یہ حکومت کی بدحواسی اور جمہوری حقوق سے انکار کا طریقہ ہے جس کی ہر حالت میں مذمت ہونی چاہئے۔ حکومت کی  یہ پریشانی  تو قابل فہم ہے کہ معیشت کا پہیہ چلانے کےلیے ملک میں   انتشار و بدامنی کی بجائے سکون و اطمینان ہونا چاہئے۔  مسلسل مظاہروں اور احتجاج سے جو تماشہ لگایا جاتا ہے ، اس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی تشویش میں اضافہ ہوتا ہے اور حکومت  وسائل حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا  کرتی ہے۔

تاہم اس کے ساتھ ہی حکومت کو یہ بھی باور کرنا چاہئے کہ جیسے عوام  سے ووٹ لے کامیاب ہونے کا دعویٰ کرنے کے بعد موجودہ پارٹیاں برسر اقتدار ہیں، ویسے ہی اپوزیشن نے بھی عوام سے ووٹ لے کر اپنی سیاسی طاقت  حاصل کی  ہے۔  اسے بھی عوامی مفاد یا ملکی استحکام و ترقی سے اتنی ہی دلچسپی ہونی چاہئے جتنی دلچسپی کا مظاہرہ کوئی حکومت کرتی ہے۔ اگر کسی مرحلے پر یا کسی خاص صورت حال  میں اپوزیشن حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار ضروری سمجھتی ہو  تو اس کا راستہ روکنا کسی کے مفاد میں  نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے عوام میں دبا ہؤا غم و غصہ شدید ہوسکتا ہے۔  تحریک انصاف سے ہزار اختلاف کے باوجود یہ ماننا چاہئے کہ جماعت اسلامی کے برعکس اس نے قانون ہاتھ میں لینے اور دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد ہونے کی وجہ سے احتجاج ملتوی کیا اور اس کی بجائے عدالت سے حکم حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔  فی الوقت اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا ہے۔ تحریک انصاف کی  درخواست پر غور کے دوران میں جج نے سرکاری وکیل سے سوموار کو احتجاج کی اجازت دینے  کے بارے میں پوچھا تھا لیکن انہوں نے کوئی وعدہ کرنے سے انکار کردیا۔ 

محفوظ فیصلہ    سناتے ہوئے اگر عدالت نے دفعہ 144 کے نفاذ کو ناجائز قرار دیا یا تحریک انصاف کو بہر صورت احتجاج کرنے کی اجازت دے دی تو حکومت کو مزید خفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے نمائیندے عدالتوں کی طرف سے ’ ناجائز فیصلوں‘  پر تنقید  کرتے دکھائی دیں گے۔  گزشتہ کچھ عرصہ سے  اعلی عدلیہ میں بنیادی  انسانی حقوق اور تحریک انصاف کے ساتھ سلوک کے  حوالے سے  پریشانی کا اظہار دیکھنے میں آرہا ہے۔ حکومت اس سے سبق سیکھ  کر اپنا رویہ تبدیل کرنے کی بجائے عدلیہ ہی کے پر کاٹنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ یا فیصلوں کو ماورائے آئین قرار دے کر عدالتوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عدالتی فیصلوں پر  تنقید بھی اسی طرح جائز ہے جیسے مخالف سیاسی پارٹیوں کا احتجاج کرنے یا جلسہ و جلوس کا استحقاق درست ہے۔ لیکن  موجودہ صورت حال میں خواہ مخصوص نشستوں کا معاملہ ہو یا تحریک انصاف کے لیڈروں کو ضمانتیں ملنے کے فیصلے، ان میں عدلیہ کی یہ پریشانی دکھائی دیتی ہے کہ ملک میں جمہوری انتظام چونکہ آئین کے تحت کام کررہا ہے، اس لیے   ملکی آئین کے تحت  شہریوں کو  حاصل بنیادی حقوق  کی حفاظت ضروری ہے۔ اس  اصول سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ  عدالتیں ہی  شہریوں کے اس حق کی حفاظت کرسکتی ہیں اور یہی ان کا آئینی فریضہ بھی ہے۔

تحریک انصاف نے اپنی سیاسی جد و جہد میں چونکہ اداروں کو نشانے پر رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے، اس لیے دیکھا  جاسکتا ہے کہ عدالتوں  کے احترام کا اعلان کرنے کے باوجود پارٹی کی طرف سے  اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ سوشل میڈیا پر مہم جوئی کے علاوہ عمران خان اور ان کے ساتھی  تند و تیز بیانات میں  اس طریقے کو آزماتے رہتے ہیں۔  آج ہی  سپریم کورٹ میں بنچ سازی اور پٹیشن کی سماعت کے بارے میں فیصلہ کرنے والی ججز کمیٹی کو ایک خط میں  عمران خان  نے مطالبہ کیا ہے کہ کمیٹی عمران خان یا  تحریک انصاف اور سنی اتحاد کے مقدموں  کی سماعت  کرنے والے بنچوں میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شامل نہ کرے۔     تحریک انصاف جس قانون کے تحت ججز کمیٹی کو ملنے والے اختیارات کو اپنے حق میں استعمال  کروانا چاہتی ہے، اس نے خود اس قانون  پر  عمل درآمد رکوانے کی پوری کوشش کی تھی۔ تحریک انصاف کے پسندیدہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے دور میں اس ایکٹ کے خلاف سماعت کرتے ہوئے اسے معطل ضرور کردیا تھا لیکن بعد میں اس پر غور کرکے حتمی فیصلہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی حالانکہ سپریم کورٹ کے متعدد ججوں نے اس بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مجریہ 2023  پر  اس وقت کے صدر عارف علوی نے بھی  عمران خان سے محبت کی وجہ سے  دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف  جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس  قانون کے بارے میں فل کورٹ بنچ بنایا تھا جس  نے  دس پانچ کی اکثریت سے اس کے نفاذ کو  درست قرار دیا تھا۔ جن پانچ ججوں نے اس  قانون کی مخالفت کی تھی، ان میں جسٹس منیب اختر بھی شامل تھے جن کی اب ججز کمیٹی میں شمولیت سے  تحریک انصاف کو چیف جسٹس کے خلاف شکایت کرنے کا حوصلہ ہؤا ہے۔ حالانکہ موجودہ چیف جسٹس نے تو   ایک قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے  خود ہی اپنے اختیارات پر قدغن قبول کرلی تھی۔ یہ ایک فیصلہ ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی  انصاف پسندی کا ناقابل تردید ثبوت ہونا چاہئے۔ ان کی رائے اور فیصلوں سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرکے عمران خان ایک بار پھر وہی غلطی کررہے  ہیں جو انہوں نے  2019 میں بطور وزیر اعظم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بے بنیاد ریفرنس  دائر کرکے کی تھی۔ کسی بھی سیاسی پارٹی  یالیڈر کو  عدالتی فیصلوں کے میرٹ پر بات کرنی چاہئے۔ اس کی بجائے ججوں کی نیک نیتی کو مشکوک کرکے درحقیقت ایک ایسا  افسوسناک ماحول پیدا کیا جارہا ہے جہاں سیاسی تقسیم کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں پسند و ناپسندیدہ عناصر کی نشاندہی کرنے کا رواج فروغ پانے لگا ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی   طرح ملکی مفاد میں نہیں ہے۔

عمران خان  سابق آرمی چیف سے  ارادت مندی اور قربت کی وجہ سے  2018 کا انتخاب جیتنے اور وزیر اعظم بننے کے قابل ہوئے، لیکن جوں ہی انہیں لگا کہ جنرل باجوہ ان کے مفادات کے خلاف رائے بنا رہے ہیں تو انہوں نے ان کے خلاف بدگمانی عام کرنا شروع کردی۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد تو تحریک انصاف کا میڈیا  پروپیگنڈا سیل باقاعدگی ان کی کردار کشی کرتا رہا ہے۔ یہی رویہ موجودہ چیف جسٹس اور آرمی چیف کے خلاف روا رکھا  جارہا ہے کیوں کہ عمران خان کو لگتا ہے کہ ان کی جگہ  دوسرے لوگ ان عہدوں پر براجمان ہوں تو شاید انہیں ماضی جیسے سرپرستی میسر آجائے۔   وہ بدستور یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ جس سرپرستی کی بدولت عمران خان کو ذبردستی اقتدار میں لانے اور پھر بوجھ سمجھ کر ہٹانے کا کھیل رچایا گیا تھا، موجودہ ملکی مسائل درحقیقت اسی سازشی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔

تحریک انصاف اور  عمران خان کو مسلسل تصادم سے گریز کرکے وہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس کا اظہار پارٹی  کے وکیل شعیب شاہین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتجاج کی اجازت لینے کی درخواست کے دوران میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی بھی مخصوص جگہ دے دی جائے،   پارٹی وہیں پر مظاہرہ کرے گی اور قانون شکنی نہیں کی جائے گی۔ یہ معتدل اور درست سیاسی رویہ ہے۔ تحریک انصاف کو سیاسی معاملات طے کرتے ہوئے  اسی متوازن طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے ترو تازہ رہے۔  اگر احتجاج کے لیے قانون شکنی ہوگی یا عدالتوں اور فوج  کے خلاف مہم جوئی کا سلسلہ جاری رہے گا تو حکومت کی سختی  میں اضافہ ہوگا اور اس  سے براہ راست  عمران خان اور زیر حراست قیادت کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔

عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی  ایک درخواست میں اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ حکومت انہیں  9 مئی سے متعلق مقدموں میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے فوج کے حوالے کرسکتی ہے، اس لیے اس  کے خلاف حکم جاری کیا جائے۔ عدالت نے یہ درخواست فی الوقت مسترد کردی ہے لیکن  عمران خان کے وکلا کا کہنا ہے کہ اسے پھر سے دائر کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو یقین ہے کہ کسی بھی وقت عمران خان کو فوج کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ یہ اندیشہ بلاجواز نہیں ہے لیکن اس  خطرے سے نمٹنے کے لیے تحریک انصاف بھی ویسی ہی بدحواسی اور  شدید رویوں کا اظہار کررہی ہے جو حکومت کی طرف سے تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور عمران خان پر غداری کا مقدمہ چلانے جیسے اعلانات میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ صورت حال تصادم کے خطرے میں اضافہ کررہی ہے۔ ملک اس وقت ایسی بے یقینی اور انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

تحریک انصاف نے کم از کم احتجاج کے حوالے سے قانون شکنی سے گریز کرکے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا   ہےلیکن دوسری طرف جماعت اسلامی اشتعال انگیز سوشل میڈیا بینر کے تحت اسلام آباد میں دھرنا دینے پر اصرار کررہی ہے۔ پارٹی کے سوشل میڈیا پر ’ دھرنا ہونے دو ورنہ فیصلہ اب دھرنے میں ہوگا‘ کا نعرہ عام کیا جارہا ہے۔ حالانکہ جماعت اسلامی کا عوامی مفادات سے صرف اتنا ہی تعلق ہے کہ ہر مشکل قومی مرحلے پر اس نے  سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔  اسلام آباد میں آج  جماعت اسلامی کے متعدد کارکن گرفتار کیے گئے ہیں لیکن اعلیٰ قیادت کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اسی لئے جماعت کے امیر  حافظ نعیم الرحمان نے اسلام آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہم پاکستان کا پیسہ بچانے، بجلی کے بل کم کرانے اور لوگوں کو ریلیف دلانے کا ایجنڈا لے کر اسلام آباد آئے ہیں‘۔  حقیقت مگر  یہ ہے کہ جماعت اسلامی سیاسی تصادم کی موجودہ صورت حال میں خود   توجہ حاصل کرنا چاہتی ہے  حالانکہ انتخابات میں عوام نے اس جماعت کو مکمل طور سے مسترد کردیا ہے۔ اس جماعت کے پاس پاکستانی عوام کی نمائیندگی کا کوئی حق نہیں ہے کیوں کہ وہ سال ہا سال محنت کرنے اور ووٹ مانگنے کے باوجود عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکی۔ یہ پارٹی اگر واقعی عوام کا احترام کرتی  ہے تو اسے ملک میں سیاسی انتشار کا سبب بننے سے گریز کرنا چاہئے۔

حکومت کے پاس اگر معاشی ریلیف  دینے کی صلاحیت ہوتی تو وزیر اعظم سمیت حکمران پارٹیوں کے لیڈر مسلسل عوام کی تکلیفوں کا ذکر کرکے تبدیلی لانے کے وعدے نہ کررہے ہوتے۔ اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ اور نواز شریف بجلی کے بلوں کو بار بار عوام کی استعداد سے  باہر نہ کہہ رہے ہوتے۔ ملکی مسائل کا حل ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں ہی ہے۔ احتجاج  کرنے اور سڑکیں بند کرنے میں توانائی ضائع کرنے والے عناصر کو اس سچائی کو مان لینا چاہئے۔ پاکستان میں نام نہاد ’تبدیلی ‘ کے لیے سری لنکا، نائیجیریا اور بنگلہ دیش میں احتجاج کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ حوالہ دینے والوں کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ ان ملکوں میں احتجاج اور شدید ہنگامہ آرائی کے بعد عام شہری کی صورت حال کتنی بہتر ہوئی ہے؟