ناول"جنگل میں منگل" کا تجزیاتی مطالعہ

(ساختیاتی وظائفیت کے تناظر میں (

اکیسویں صدی کے اُردو ناول پر نظر ڈالی جائے تو کئی نام ناول کے منظر نامے پر دکھائی دیتے ہیں جن میں شمس الرحمان فاروقی، مرزا اطہر بیگ، حسن منظر، عاصم بٹ، طاہرہ اقبال ، خالد فتح محمد ، محمد الیاس ، رحمان عباس ، صدیق عالم ، سید محمد اشرف اور اختر رضا سلیمی کےنام بطورِ خاص نمایاں ہیں ۔

ان ناول نگاروں نے جدید انسان کے مسائل اور اکیسویں صدی میں در پیش چیلنجز کو ناول کے کینوس کا حصہ بنایا ہے۔ ان میں سے ایک نام انیس احمد کا بھی ہے جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں ۔ ان کے اب تک دو ناول " جنگل میں منگل" اور"نکا" کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکے ہیں ۔ ان کا تعلق تو بہاول پور سے ہے، تعلیم بھی صادق ایجرٹن کالج بہاول پور سے حاصل کی لیکن 1975 سے وہ ناروے میں مقیم ہیں ۔ نارویجین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن، ناروے میں بیس سال خدمات انجام دیں اور ارود سروس کے نگران کی حیثیت سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔ قلم و قرطاس سے ان کا رشتہ اپنے والد کے توسط سے قائم ہوا جو خود اچھے شاعر تھے ۔ ان کے والد ریاست بہاول پور میں کیبنٹ سیکرٹری تھے اور انگریزی و فارسی پر مکمل دسترس رکھتے تھے ۔ ان کی صحبت اور توجہ نے ان میں علم و ادب کا شوق پیدا کیا جس کا ثبوت ان کے ناولوں ، تراجم اور دیگر تحریروں سے دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے متعدد متون کا نارویجن زبان سے اُردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔

" جنگل میں منگل" ان کا پہلا ناول ہے جو جولائی 2013 میں جمہوری پبلی کیشنز، لاہور سے اشاعت پذیر ہوا ۔ اس ناول میں انہوں نے استعاراتی اور علامتی انداز میں معاشرے کے درون میں جھانکنے اور ماضی کے مختلف ادوار اور حالات کی پرتیں کھولنےکی کوشش کی ہے۔ ان کے اس ناول سے حقیقت پسندی اور سماجی صورتِ حال کی ایسی کونپلیں پھوٹتی ہیں جو قاری کے قلب و ذہن کو شعور و ادراک کی بالیدگی اور ذہنی پختگی سے ہم کنار کرتی ہیں ۔ نقدِ ناول کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایک عمدہ ناول وہ ہوتا ہے کہ جو قاری کو حیرت سے بصیرت کا سفر طے کراتا ہے۔ انیس احمد نے بھی مذکورہ ناول میں تخیل کی طاقت سے قاری کو حیرت سے بصیرت کا سفر طے کرایا ہے۔

دنیا میں ہر شے کا محور ہے جس کے گرد وہ گردش کرتی ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کا بھی ایک محور ہے جسے فکر و فلسفہ یا دانش و بینش کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہی دانش انسانوں میں ، سماج تخلیق کرنے کا باعث بنی ہے جس کی اساس باہمی روابط اور سماجی اداروں کی ہم آہنگی پر قائم ہے۔ سماجی نظام کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی انسانی جسم کی طرح عمل آرا ہوتا ہے۔ جسم کا ہر حصہ بظاہر انفرادی دائرے میں کام کر رہا ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر مکمل جسم اس سے استفادہ کرتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی پھل ہاتھ نے توڑا ہو تو اس کی غذائیت کا فائدہ صرف اس کوہی ہوا ہو  یا دانتوں نے اگر چبایا ہے تو ان ہی کو فائدہ پہنچے ، پیٹ نے ہضم کیا ہے تو سارے فوائد اس کے ہیں بلکہ جسم کے تمام اعضا مل کر مشترکہ طور پرکام انجام دیتے ہیں۔ اور ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق حصہ مل جاتا ہے۔جسم کے اعضا کے مل جل کر کام کرنے سے جسم چاق و چوبند اور تندرست و توانا رہتا ہے اور ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی قوت بھی اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی صورتِ حال سماج کی بھی ہے۔ اس کا ہر ادارہ بظاہر الگ الگ کام کرتا ہے لیکن اس کے ثمرات سے  پورا سماج مستفید ہوتا ہے۔

سماجی وظائفیت (Functionalism) انسانی معاشرے کی ساخت اور سماجی اداروں کے افعال یا وظائف کی تعبیر عضویاتی بنیادوں پر کرتی ہے۔ سماجی ساخت تشکیل دینے میں جو ادارے حصہ لیتے ہیں ان میں خاندان، مذہب ، تعلیم، معیشت اور سیاست نمایاں ہیں۔مذکورہ ادارے سماجی وظیفے کی ادائیگی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ نامیاتی ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ پورے معاشرے کو زندہ جسم خیال کر لیا جاتا ہے اور اس کے اداروں کے وظائف کو معرض ِتفہیم میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس معاشرتی ساخت میں فرد اپنے وظائف کی بنیاد پر سماج میں زندہ رہتا ہے۔ فرد کے وظائف پر سماجی اقدار اور داخلی محرکات دونوں ہی اثرانداز ہوتے ہیں۔ فرد اور سماج کے باہمی عمل سےان کے مابین سماجی ربط کا تعین ہوتا ہے۔ سماجی وظائفیت کے حوالے سے محمد یوسف اپنے مضمون میں کچھ یوں تحریر کرتے ہیں:

"وظائفیت کے مطابق معاشرہ آپس میں جڑنے والے حصوں کا ایک نظام ہے جو تکمیل کی خاطر توازن اور سماجی استحکام کی حالت کو برقرار رکھنے کے لیے ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتا ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے جو سماج کو پیچیدہ نظام کے طور پر دیکھتا ہے جس کے حصے یکجہتی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں ۔"(1)
سماجی وظائفیت کا نظریہ حیاتیاتی علوم (Biological Disciplines) اور سماج کی حرکیات ( Social Dynamics) میں مماثلت کو دیکھتا ہے۔ سماجی وظائفیت کے ماہرین کے خیال میں معاشرہ زندہ جسم کی طرح نشوونما کے عمل سے گزر رہاہوتا ہے اور اس کی بڑھوتری میں افراد کی ضروریات عمل آرا ہوتی ہیں ۔ معاشرے کو اس طرح معرض تفہیم میں لانے کا عمل موجودہ دور میں شروع نہیں ہوا بلکہ اس کا آغازمعروف ماہرِ آثارِ قدیمہ Thomas Kenneth Penniman کے مطابق 400ق م میں اس وقت ہوا جب ہیروڈوٹس نے سماج اور فرد کے تعلق پر، لطیف اور پُر مغز تجزیہ پیش کیا۔ یونانی مفکرین میں ڈیمو کریٹس ، پروٹا غورث، سقراط اور افلاطون وغیرہ نے بھی فرد اور سماج کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا، لیکن اس کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کا کام بہت بعدمیں ہوا ۔ جن مفکرین نے اس میں حصہ لیا ان میں تھامس ہابز، جان لاک ، ہیوم اور کانٹ کے نام قابلِ ذکر ہیں لیکن فرانسیسی مفکر اوگُست کومت (August Comte) نے سماجیات کی باقاعدہ بنیادیں استوار کیں ۔جس دور میں اس نے اپنا بچپن گزارا وہ سیاسی ابتری اورفوجی طاقت کی توسیع کا دور تھا ۔ جب اوگست کومت کی عمر انیس برس ہوئی تو اس کا تعارف سینٹ سائمن سے ہوا ۔ یہ وہ شخصیت ہے جس نے اس کی فکر پر گہرے اثرات مرتسم کیے۔ اس کے تین مراحل کے قانون (Metap of Three Stages) نے خاصی شہرت حاصل کی جس کو اس نے الہہیاتی (Law physical Stage) مابعد الطبعیاتی (Theological Stage اور سائنسی (Positive Stage) مراحل میں تقسیم کیا ۔ ان تینوں مراحل میں ربط کا مضبوط رشتہ قائم ہے جہاں ہر مرحلہ انفرادی پہچان کے باوجود "کُل" سے منسلک ہوکر نظام کی تشکیل اور فعلیت میں اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔

کومت کے بعد ہربرٹ سپینسر (Herbert Spencer) نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ اسےحیاتیات سے عمیق دلچسپی تھی۔ اس نے ڈارون سے پہلےحیاتیاتی ارتقا کے خدوخال کو نمایاں کیا تھا ۔ ان ہی خدوخال کی اساس پر ڈارون نے نظریہ ارتقا کی بنیادیں استوار کیں ۔ اس کے بعد سماجی حرکیات کو نامیاتی حرکیات کی بنیاد پر تعبیر کر نے کا عمل تیز ہوا۔ ہربرٹ سپنسر  نے انسانی معاشرے کو انسانی جسم سے تشبیہ دی۔ جس طرح انسانی جسم کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ جاندار کو زندہ رہنے میں مدد ملے اسی طرح معاشرے کے ادارے بھی ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں تاکہ معاشرہ اپنا وجود تادیر برقرار رکھ سکے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں درخیم (Emile Durkheim ) نے معاشرے کے اجزا کو نمایاں کیا اور ان کے مابین ربط کو سامنے لایا جسے سماجی فعلیّت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس نے فرد اور گروہ کے باہمی تعلق کو واضح کرنے کے لیے ، محنت کی تقسیم کے سماجی اسباب اور سماجی اثرات کو اجاگر کیا ۔ جس زمانے میں جرمنی میں میکس ویبر اوراٹلی میں پیریٹو مذہب اور معاشرے کے باہمی تعلقات کا مطالعہ کر رہے تھے اس دور میں ایمائیل درخیم نے ”Elementary form of Religious Life”  تحریر کی اور مذہب اور معاشرے میں تعلق واضح کیا۔ اس کے علاوہ اس نے معاشرے کےمیکانکی اتحاد اور نامیاتی اتحاد کی بھی وضاحت کی ۔ سماجی وظائفیت میں کسی بھی معاشرے میں تشکیل پانے والی ساخت میں خاندان، مذہب ، تعلیم ، سیاست اور معاش کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

انیس احمد کا " جنگل میں منگل" سماجی وظائفیت کے عناصر کا حامل ناول ہے۔ وہ جنگل میں جانوروں کا تخیلاتی معاشرہ تشکیل دے کر علامتی سطح پر انسانی معاشرے کی بد عنوانیاں ، کج رویاں اور بے اعتدالیاں فنکارانہ مہارت سےسامنے لائے ہیں ۔ اس ناول میں موجود کردار سماجی اداروں کے وظائف میں زندگی کے شب و روز بسر کرتے دکھائے گئے ہیں۔ انیس احمد نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئےجنگل میں پورا سماج تشکیل دیا ہے جس میں مختلف سیاسی و سماجی ادارے موجود ہیں ۔ ناول میں ان سماجی اداروں کو اس مہارت سے دکھایا گیا ہے کہ ان کے مابین عدم ربط ، بے اعتدالی اور بدعنوانی ابھر کر سامنے آتی ہے جو کہ اس معاشرے کے زوال کا اصل سبب ہے۔

عام طور پر سیاست، ثقافت اور معیشت کسی بھی سماج کی بنیادی سر گرمیاں خیال کی جاتی ہیں ۔کسی بھی سماج کی صحت کا اندازہ ان کے باہمی تعلق سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ان کے مابین ہم آہنگی اور اتحادموجود ہو تو سماج ترقی کی منازل طے کر رہا ہوتا ہے۔ اسی سے اقدار، روایات اور رسوم و رواج جنم لیتے ہیں ۔ ان ہی کی ہم آہنگی سے سیاسی اور سماجی قوانین متبادر ہوتے ہیں ۔ مذکورہ ناول جس میں معاشرتی زوال کی کہانی ایک بزرگ جانور رنگو دادا کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ وہ ناول کے شروع میں معاشرتی زوال کچھ اس انداز میں جانوروں کی اگلی نسل کے سامنے رکھتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
" تو بچو!ہمارا یہ پوتر گڑھ کبھی ایک ہرا بھرا اور خاصا شاداب جنگل تھا جس میں سب کے لئے رزق موجود تھا ۔ اگر بہت زیادہ نہیں تو کم از اتنا ضرور تھا کہ رات کو کوئی بھوکا نہ سوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تب بھی اس میں درندوں کی کمی نہ تھی جن میں انسانی صفات بدرجہ اُتم موجود تھیں اور جو خلقِ خدا کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے نہ دیتے ۔مگر حالات ایسے بھی نہ تھے جیسے کہ اب ہیں ۔ کوئی نہ کوئی قاعدہ ضرور موجود رہتا تھا جس سے کسی کو مفر نہ تھا ۔"(2)

ترقی سے تنزلی کا سفر کسی ایک سمت نہیں ہوتا ۔ اس کا وقوع ، آہستہ آہستہ اور کبھی کبھار تیزی سے، متنوع اطراف میں ہوتا ہے۔ معاشرے کے مختلف سماجی و سیاسی ادارے اس حوالے سے مثبت کے بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ یوں وہ کسی بھی سماج کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ پاکستان کے قیام کے بعد سیاسی و سماجی اداروں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو ماتحت بنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ماورائے آئین حکومتیں قائم ہوئیں اور پاکستانی عوام جس آزادی کا خواب دیکھ رہے تھے ، وہ کہیں تاریک راہوں میں گم ہو گئی ۔ ماہر عمرانیات ایرک فرام کا کہنا ہے کہ آزادی کا حصول اور اس کے بعد اس کو قائم رکھنے کا عمل دشوارگزار اور کشمکش سے بھر پور ہوتاہے۔ بعض گروہ یا قومیں اس سے گھبرا کر اپنی آزادی اپنی مرضی سے کسی ایک شخص یا جماعت کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ اس وجہ سے انہیں فیصلہ کرنے کی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے اور وہ حکم کی تعمیل میں سکون محسوس کرتے ہیں 1958میں پاکستانی قوم  نے بھی یہی کیا اور اقتدار فردِ واحد کو سونپ کر خود فریبی کی راہ پر چل پڑی جو آگے چل کرسیاسی زوال کا باعث بنا جس کے اثرات موجودہ سماج پر آسانی سے محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ اس حوالے زاہدہ حنا لکھتی ہیں :
"مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے سابق صوبوں کے اشتراک سے ایک ایسی منتخب جمہوری حکومت کا انتخاب تقریباً یقینی تھا جس میں اقتدارِ اعلیٰ پر سول اور فوجی بیورو کریسی کی بالا دستی کا خاتمہ ہو جانا تھا۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے 7 اکتوبر 1958 کو ملک پر پہلا مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔"(3)

پہلے مارشل کےاس دور میں جوصنعتی ترقی ہوئی اس کا فائدہ عوام کے بجائے ملک کے بائیس خاندانوں کو ہوا۔ عوام مہنگائی اور اشیائے صرف کی قلت کا شکار رہے۔ یہ وہی دور ہے جب پاکستانی معیشت بیرون ملکی قرضوں کی عادی ہوئی۔ ایوب خان کو اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئےجاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی ضرورت تھی۔ اسی لئے فاطمہ جناح کو انتخابات میں شکست سے دوچار کیا گیا اور ایبڈو اور پیروڈا جیسے قوانین متعارف کرا کر ہزاروں سیاسی مخالفین کو کئی سالوں کے لئے نااہل قرار دے دیا ۔ صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے بعد عوام کی ناراضی جب سامنے آئی تو ان کی توجہ ہٹانے کے لئے آپریشن جبرالٹر شروع کیا گیا جس کے ردِ عمل کے طور پر 1965 کی جنگ شروع ہوئی۔ اس سےملک معاشی طور پر کمزور ہوا اور اس کا انحصار امریکا پر بڑھ گیا ۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے پاکستان میں عسکری حکومتیں قائم ہوتی رہیں جنجیں جوڈیشل بیوروکریسی قانونی تحفظ فراہم کرتی رہی۔ اس صورتِ حال کو انیس احمد نے ناول میں یوں پیش کیا ہے، اقتباس دیکھیں :
"ہوتا یوں تھا کہ جب جنگل واسی جب بھی کسی شیر، چیتے یا ہاتھی وغیرہ کو جنگل کے سنگھاسن پر بٹھاتے تو جرنیلوں سے دیکھا نہ جاتا اور وہ اسے پٹخنیاں دے کر نیچے گرا دیتے اور سنگھاسن پر خود براجمان ہو جاتے۔ مگر یہ کام کرنے کے لئے انھیں سیانے لومڑوں، گیدڑوں، خنزیروں اور سب سے بڑھ کر چکی والے دنبوں سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی جو اس کام کے لیے پہلے ہی سے تیار بیٹھے ہوتے۔۔۔ پھر جیسے ہی کوئی جرنیل، خرگوش کی پوستین سے بنی جنگل کی گدی پر بیٹھتا، بندر بانٹ عدالتوں کے منصف، جو روایت کے مطابق بوزنے ہوتے، وکیل بلیوں کے دلائل کی روشنی میں اسے حق بجانب اور بوزنائی قوانین کے عین مطابق قرار دے دیتے اور ہر چیز معمول پر آجاتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ ہاں چند باضمیر مگر مچھ اس ناٹک پر کچھ دیر آنسو بہاتے اور پھر جبڑے کھول کر دھوپ کھانے لگتے۔"(4)

پاکستان میں ہمیشہ سے حکومت کی جانب سے سر کاری اداروں کو مخالفین کے کچلنے یا دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اب تک تقریباً ہر نام نہادحکومت کا یہ مشن رہا ہے کہ جو جتنی زیادہ حق بات کہے اسے نیب اور قومی احتساب جیسے اداروں کا سہارا لے کر دبا دیا جائے۔ اس طرح ادارے ایک دوسرے سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ جاتے ہیں اور یو ں ملکی سماج ترقی کے بجائے تنزلی کی مسافت طے کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اور یہی پاکستانی سماج میں ہوا ہے۔ اس حوالے سےعائشہ جلال، حسن عسکری رضوی ، احمد رشید، حسن عباس اورحسین حقانی کی تصانیف قابلِ توجہ ہیں جنجوں نے پاکستان میں فوج کے طاقت ور ترین ادارہ بن کر ابھرنے کے موضوع پر کتب تحریر کر کے کئی انکشافات کیے ہیں ۔( جن پر بحث ہمارے موضوع سے باہر ہے)

پاکستانی سماج کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ 1980 کی دہائی سے بنیاد پرست اسلام پاکستان کی بیرونی اور اندرونی سیاست میں موجود رہا ہے۔ اس دور میں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام پسند بیانیے  نے پاکستانی سماج کو شدید طور پر متاثر کیا اور تشددنواز سوچ کو پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سے اب تک دہشت گردی اور تشدد پسندی نے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنا ڈالا ہے۔ اس وقت کے مارشل لا ایڈمنسٹیٹر ایک ایسا سماجی نظام تشکیل دینا چاہتے تھے جس میں انتظامیہ ، عدلیہ، بنکاری، تعلیم ، تجارت ، صنعت اور خارجہ امور سمیت زندگی کے تمام شعبے مذہبی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں ۔ اسی دور میں افغان جہاد بھی شروع ہوا جس میں امریکا نے پاکستانی سماج کومذہبی بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ 1984 سے 1994 تک امریکا نے افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں ڈالر کی درسی کتب فراہم کیں جو پُر تشدد تصاویر اور عسکریت پسند اسلامی تعلیمات سےبھری پڑی تھیں ۔ یہ عمل درحقیقت سوویت قبضے کے خلاف مزاحمت تیار کرنے کی خفیہ کوششوں کا حصہ تھا ۔ اس حوالے سے اشتیاق احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:
"اس سلسلے میں جہادی نظریے کے فروغ کے لیے امریکا کا کردار قابلِ توجہ ہے۔ مسٹر جو سٹیفن اور ڈیوڈ بی اوٹاوے نے" امریکا کی طرف سے جہاد کی اے بی سی " کے عنوان سے ایک آرٹیکل (23 مارچ 2002) میں لکھا ہے کہ یو ایس ایڈ کی پانچ کروڑ ڈالر مالیت سے یونیورسٹی آف نبراسکا، اوماہا کے سنٹر آف افغانستان سٹڈیز  نے سکولوں کا جو درسی نصاب شائع کیا اس کامطمح نظر مجاہدین میں جہاد کے نظریے کو فروغ دینا تھا " (5)

امریکا کے ضیائی مارشل لا نے پاکستانی سماج کو شعوری طور پر شدت پسندی اور انتہا پسندی کی جانب دھکیلا تاکہ وہ اپنے مخصوص مفادات حاصل کر سکیں۔ سامراجی طاقتوں کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ جب انہوں نےکمزور ممالک میں اپنے اہداف حاصل کر نے ہوں تو ایک خاص طبقے میں شدت پسندی کے عناصر کو پروان چڑھاتے ہیں ۔ پاکستانی سماج میں بھی اس کے اثرات کو شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ ان عناصر  نے ریاست اور نظام دونوں کو یر غمال بنا رکھا ہے۔ شدت پسند طبقات ، اس پر اثر انداز ہو کر ، معاشرے میں دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ انیس احمد نے اس صورتِ حال کو محسوس کیا ہے اور مذہبی ادارے کے اس منفی رویے کو ناول میں یوں پیش کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
"بودم ایسے مناظر پہلے بھی دیکھ چکا تھا اور جانتا تھا کہ انسان کی انسانیت کا بھرم ایسے ہی موقعوں پر کھلتا ہے ، سو ذرا اوٹ میں ہو کر بیزاری سے یہ سب کچھ دیکھنے لگا ۔ دونوں ہجوم آمنے سامنے ہوئے تو لمحے بھر کو ٹھٹکے ، پھر خونخوار بھیڑوں کی طرح لپکے اور ایک دوسرے کی تکہ بوٹی کرنے لگے ۔ جذبۂ شہادت دونوں طرف عروج پر تھا ، جسے دونوں جانب کے میناروں سے مزید ہوا دی جارہی تھی ۔ ابھی کشتوں کے پشتے لگ ہی رہے تھے کہ ایک سورما آگ کے گولے کی طرح زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹتا دکھائی دیا اور پھر چند لمحوں کے لیے مکمل خاموشی چھا گئی ۔دھواں چھٹا تو چوراہے میں لاشوں کا انبار تھا اور انسانی اعضا دور دور تک بکھرے بڑے تھے ۔ ادھر سکول کے باہر ادھ جلے بستوں اور کتابوں کے درمیان ایک اور لاش پڑی تھی ، جس کی میلی کچیلی شلوار ایسے پھولی ہوئی تھی جیسے لوہار کی بھٹی کو ہوا دینے والی مشک ہو۔ پاس ہی ایک سفید بلا مرا پڑا تھا ۔ بودم کو بلے کی موت کا دکھ ہوا جو کبوتر باز کے کوٹھے پر چند لمحوں کے لیے اس کا ہم نشین رہا تھا "(6)

پاکستانی سماج گزشتہ کئی صدیوں سے شدت پسندی اور انتہا پسندی کا سامنا کر رہا ہے۔ مذہبی ادارے میں موجود اس انتہا پسندی نے سماج کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ حالاں کہ یہ خطہ مذہبی رواداری کے حوالے سے صدیوں کی تاریخ رکھتا ہےجس کے باشندے بغیر کسی مسلکی لڑائی کے صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے ہیں لیکن اب اس میں رواداری، تحمل اور برداشت ناپید ہوتے جا رہے ہیں ۔ افرادِ معاشرہ کے رویوں کے عقب میں منفی ذہنیت کار فرما دکھائی دیتی ہے جسے خاص وقت میں خاص لوگوں نے پروان چڑھایا ہے۔ جب تک اسے جڑوں سے نہیں اکھیڑا جاتا تب تک سماجی زبوں حالی موجود رہے گی ۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ زوال پذیر دکھائی دیتا ہے۔ ماضی کی نظریاتی سیاست کہیں غائب ہو گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں نظریوں سے ہٹ کر منشوروں ، پروگراموں اور نعروں کے ذریعے سیاسی بنیادیں استوار کرتی ہیں۔ ان کے پاس کوئی بڑا اقتصادی نظریہ ، زرعی انقلاب اور صنعتی ترقی کا پروگرام نہیں ۔انتخابات میں مسلک ، برادریاں اور ذاتیں ووٹ کے حصول میں اولیت اختیار کر جاتی ہیں ۔ اس سیاسی کلچر میں نظریوں اور اعلا آدرشوں کا گزر نہیں ہوتا۔ ریاست اپنے کردار میں کہیں بھی حقیقی جمہوری رویوں کی حامل نظر آتی۔ شہری بنیادی حقوق کے لیے ترس کر رہ گئے ہیں ۔ ہمارے سماج کی سیاست کا پورا بیانیہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے پر مرکوز ہے۔ سیاست دانوں کی تمام توانائیاں ایک دوسرے کی کردار کشی کرنے اور بدعنوانیاں تلاش کرتے صرف ہوتی ہیں ۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ آمروں کا سماج کو غیر سیاسی بنانے کا عمل ہے جس میں طلبا تنظیموں کی سیاسی سرگرمیوں پر سرکاری پابندیاں اور ٹریڈ یونیوں کے راستے مسدود کر نا ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں مصلحت اور مصالحت کی سیاست پر یقین رکھتی ہیں جن کا مقصد اقتدار اور دولت سمیٹنا ہے نہ کہ عوام کی خدمت اور ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا مقصد ہے۔ سیاست کے ادارے کے زوال پر بھی انیس احمد نے ناول میں جا بہ جا اشارے کیے ہیں۔
اس ضمن میں ایک اقتباس دیکھیے :
"اچھا! یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ کسی بھی جنگل کے معاملات طے کرنے کے لیے جنگل والوں کی ایک سبھا ہوتی ہے۔ پوترگڑھ والوں کی اپنی بھی ایک سبھا تھی ، جو "اَندر سبھا " کہلاتی تھی اور باہر والوں کے معاملات طے کرتی تھی ۔ بیشتر رکن اس کے گوشت خور تھے جو اَندر سبھا میں نوچنے ، کھسوٹنے ، بھنبھوڑنے اور چیر پھاڑ کے نئے گر سیکھتے۔ ان پر بحث کرتے اور پھر باہر والوں پر جو عام طور سے ریوڑ کہلاتے تھے ، نافذ کر دیتے اور اپنی محنت کا بھاری معاوضہ پاتے۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اس چیر پھاڑ پر ممیاتے ہوئے واویلا کرتے ، دہائیاں دیتے اور پھر نئی مدت کے لئے انھیں، بگھیاڑوں ، بھیڑیوں اور کتے بلوں کو اپنا گوشت نوچنے کے نئے گر ایجاد کرنے   کے لئے دوباری اَ ندرسبھا بھیج دیتے۔"(7)

پاکستانی سیاست پچھلے پچھتر سالوں سے انتشار کا شکار ہے۔ سیاست دانوں کے راستوں کو مسدود کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کسی مثبت اصول کا پابند نہیں بلکہ مخصوص طبقوں کے مفادات ، عوام دشمنی اور موقع پرستی کی اساس پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ عوام بدحالی اور غربت کی چکی میں مسلسل پس رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے ۔

ہماری پچھتر سالہ تاریخ میں عدلیہ کا کردار بھی قابلِ فخر نہیں رہا ۔ جب بھی فوجی آمروں نے جمہوریت پر شب خون مارا، ہماری عدالتوں نے اس کی تائید کی ۔ بہت کم ایسا ہوا کہ کسی جج نے فوجی آمر کو انکار کر کے آئین و قانون کی پاسداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عہدے کی شان و شوکت اور جاہ و حشم پر گمنامی کو ترجیح دی ہو ۔ عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے ہمراہ ریاست کے بنیادی ستون خیال کیا جاتا ہے۔ اگر عدلیہ اپنا کام ذمہ داری سے انجام نہ دے رہی ہو تو ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ جس طرح مقننہ اور انتظامیہ کا استحکام ریاست اور سماج کی مضبوطی پر اثر انداز ہوتا ہے، بعینہ عدالتی نظام کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مولانا ابولکلام آزاد نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ "تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد، عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں "۔  ویسے بھی اگر کسی سماج میں انصاف کا نظام مستحکم ہو تو اس کی زوال آمادگی نا ممکن ہوتی ہے۔ معاشرے میں عدل کی اس اہمیت کو ہمارے ہاں کم تسلیم کیا گیا ہے۔ انیس احمد نے اپنے ناول میں اسی کمزوری کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اقتباس دیکھیے:
"قاضی کو جب تسلی ہو گئی کہ طوطا ٹھیک کہتا ہے اور اس کا بیان معتبر ہےتو کان پر دھرا قلم نکال کر فیصلہ لکھنے لگا ، اب تو یہ دونوں بگڑ گئے اور وزیر ہونے کے ناتے سفارتی مراعات وتحفظ کا حوالہ دینے لگے۔ قاضی کو غصہ تو بہت آیا، مگر کیا کرتا قانون کے آگے بے بس تھا ۔ مال سمیت چھوڑنا پڑا ۔ دونوں سلیس پارلیمانی زبان میں طوطے کی ہمشیرگان و دیگر زمین خانہ سے سماجی تعلقات استوار کرتے، خطر ناک نتائج کی دھمکیاں دیتے رخصت ہوئے۔"(7)

قانون سازی اور عدالتی اصلاحات کے باوجود ، پاکستان کا موجودہ قانونی نظام ، عوام کو بر وقت انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ عدلیہ کی آزادی قانون کی حکمرانی کے لیے اتنی اہم ہے جتنا کہ زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ۔ چوں کہ ہمارے سماج میں انصاف کا نظام برطانوی استعمار کے ذریعے سے وجود میں آیا ہے ، اور اسے از سر نو مرتب نہیں کیا گیا اس لیے اس میں خامیاں موجود ہیں جو ہمارے معاشرے میں انصاف کے اس ادارے کو دیگر اداروں سے مربوط ہونے میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں فوجی ، عدالتی اور سیاسی اداروں کے ساتھ ساتھ معاشرتی ادارے بھی اپنا کردار نبھانے سے قاصر ہیں ۔ سماج کے جب تمام ادارے ایک دوسرے سے مربوط ہو کر اور باہمی تعاون سے کام نہیں کریں گے، تب تک سماج میں توازن قائم نہیں ہو پائے گا ۔ ان کا ارتباط و انسلاک ایک ایسی ساخت تشکیل دیتا ہے جس کے وظیفے پر سماج کی کارکردگی کا انحصار ہوتا ہے۔ سماج کے اداروں میں تعلیم ، مذہب ، سیاست، انصاف اور خاندان ایسے ادارے ہوتے ہیں جن کی وظائفیت اہمیت کی حامل قرار پاتی ہے ۔

انیس احمد نے ان تمام اداروں کا ذکر ناول میں کیا ہے جن میں باہمی عمل اور ربط کا فقدان ہے جس کے باعث سماج زوال آمادگی کا شکار ہے۔ ان کا ناول "جنگل میں منگل" سماجی وظائفیت کے نظریے کا عکاس ہے جو سماجی اداروں کی ہم آہنگی پر زور دیتا ہے اور ان کے مابین عدم توازن کو ہمارے سماج کی زوال آمادگی کا سبب قرار دیتا ہے۔

حوالہ جات
1۔محمد یوسف، سماجی وظائفیت کا نظریہ اور خدیجہ مستور کا ناول آنگن ، مشمولہ :ترجیحات،نئی دہلی:جلد 3، شمارہ 4،جون 2023،ص:73
2۔ انیس احمد ، جنگل میں منگل، لاہور: جمہوری پبلیکشنز،2013،ص:7

3۔زاہدہ حنا ، مُلک میں پہلے مارشل لاءکاشاخسانہ،روزنامہ،ایکسپریس، لاہور،2023،ص:4
4۔ انیس احمد ، جنگل میں منگل، ص:9
5۔ اشتیاق احمد ڈاکٹر، پاکستان : عسکری ریاست،ابتدا، ارتقا اور نتائج ،مترجم: ایم وسیم ، لاہور: مشعل بکس،2016، ص:304
6۔انیس احمد ، جنگل میں منگل، ص:52
7۔ایضاً،ص:25