عمران خان کو اقتدار کیسے سونپا جائے؟

روزنامہ جنگ لاہور کے مدیر اور ممتاز  تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے اپنے تازہ کالم میں تجویز کیا ہے کہ ملک بچانے کے لیے عمران خان کو اقتدار دینا پڑے گا ورنہ اس  ملک کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ سہیل وڑائچ کو درون خانہ رونما ہونے والے معاملات کا شناسا کہا جاتا ہے ، اس لیے ان کے اس کالم کے بعد  اہل پاکستان یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ضرور  پس پردہ کوئی کھچڑی پک رہی ہوگی، اسی لیے  سہیل وڑائچ جیسے با خبر  صحافی نے یہ مشورہ عام کیا ہے۔

اس سے قطع نظر کہ موجودہ بحران میں اس قسم کی قیافہ شناسیوں اور پیش گوئیوں کے کیا منفی نتائج ہوسکتے ہیں، سہیل وڑائچ نے انتہائی معتبر صحافی ہونے کے باوجود یہ  تجویز نہیں کیا کہ اگر واقعی  ملک میں کوئی  ایسی طاقت ہے جو کسی صائب مشورے پر ایک گروہ سے اقتدار لے کر دوسرے کے حوالے کرنے پر قادر ہے تو وہ اس طاقت کو کیسے استعمال کرے۔ یعنی عمران خان کو کیسے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا جائے۔اگر یہ مان بھی  لیا جائے کہ واقعی ملکی اسٹبلشمنٹ اس  پوزیشن میں ہے کہ اس کے اشارہ ابرو سے سیاسی معاملات  طے پانے لگتے ہیں تو بھی یہ جاننا ضروری ہوگا کہ یہ کام کیسے سرانجام دیا جائے۔ کیا محض  اس ایک قیاس کی بنیاد پر کہ عمران خان ملک  کے  متفقہ  طور سے مقبول لیڈر ہیں، آرمی چیف  اڈیالہ جیل جائیں اور عمران خان کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر وزیر اعظم  ہاؤس چھوڑ  آئیں؟ اللہ اللہ خیر صلا۔

پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ سہیل وڑائچ نے کن الفاظ  میں قومی منظر نامے پر اس تبدیلی کا مشورہ ارزاں کیا ہے۔ ’کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا‘ کے عنوان سے باندھے گئے کالم میں ان کا ارشاد ہے: ’کسی کی پیشانی پر سلوٹ پڑے یا کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آئے، مخلوط حکومت میں شامل دوستوں کا دل ٹوٹے یا یہ تلخ بات انہیں ہضم نہ ہو۔مقتدرہ کے بڑے آج یہ تسلیم نہ کریں، خلیجی ممالک راضی ہوں یا ناراض، مالیاتی ادارے ہم پر مہربان ہوں یا پابندیاں لگائیں ۔ غرض یہ کہ ردعمل جو بھی ہو اگر تضادستان نے آئینی بندوبست کے تحت چلنا ہے اور خون خرابے، زور زبردستی سے بچنا ہے تو سیاسی بحران کے حل کیلئے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا، مقبولیت والے کو قبولیت والوں کو راستہ دینا پڑے گا۔ چاہیں نہ چاہیں عمران خان کو ایک بار اقتدار دیے بغیر تضادستان اب آگے نہیں بڑھ سکتا‘۔

حیرت ہے کہ یوں  تو کالم نگار آئینی انتظام کی بات کررہا ہے لیکن عمران خان کو اقتدار حوالے کرنے کے حوالے سے کسی آئینی یا مسلمہ طریقہ کار کی نشاندہی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ملک کے موجودہ  آئینی انتظام کے تحت کسی بھی سیاسی لیڈر کو انتخابات میں اکثریت ملنے کے بعد ہی  اقتدار حاصل ہوسکتا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ  (ن) نے  پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کے تعاون سے حکومت قائم کی ہوئی ہے۔  عمران خان اور تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود  مروجہ پارلیمانی طریقہ کار کے  مطابق دوسری پارٹیوں سے بات چیت  میں  کسی مفاہمت و اتفاق رائے سے مخلوط حکومت بنانے کی  کوشش نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے   اشارے بھی دیے تھے لیکن عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں  مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے کسی بھی قسم کا تعلق استوار کرنے سے انکار کیا۔  تحریک انصاف نے جب مسلمہ پارلیمانی طریقے کے مطابق حکومت سازی کے لیے اپنا استحقاق استعمال نہیں کیا تو مسلم  لیگ (ن) کو ازخود حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔

البتہ  اس دوران میں یہ بیانیہ ضرور تشکیل دیا گیا کہ تحریک انصاف کو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا ہے۔  عمران خان اور پی ٹی آئی کے لیڈر اپنی کامیابی کے حوالے سے مختلف اور متضاد دعوے  کرتے رہے ہیں۔ ان میں قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت (66 فیصد) سے لے کر 80 فیصد سیٹیں ملنے کے دعوے شامل ہیں۔  اب تازہ ترین سیاسی مہم جوئی میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے یہ اعلان  کرنا شروع کیا ہے کہ تحریک انصاف کو 90 فیصد پاکستانی عوام کی حمایت حاصل ہے۔ زیر بحث کالم میں اسی مؤقف کی تائید میں زور بیان صرف کیا گیا ہے لیکن کسی آئینی جمہوری نظام میں محض نعروں یا دعوؤں  سے کسی مقبولیت کو نہ ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔  اس میں ایک ہی طریقہ اختیار ہوتا ہے کہ انتخابی نتائج پر بھروسہ کیا جائے۔ اگر ان کے بارے میں اعتراضات  ہوں تو متعلقہ عدالتی فورمز سے   فیصلےحاصل کرنے  کی کوشش کی جائے۔ اب بھی اگر عدالتوں یا الیکشن ٹریبولنز میں فیصلوں کے  ذریعے تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے  میں کامیاب ہوجاتی ہے تو  کوئی اسٹبلشمنٹ یا زور آور،  ان کی سیاسی کامیابی کا راستہ نہیں روک سکتا۔

مخصوص نشستوں میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس حوالے سے ایک عمدہ مثال ہے۔  تحریک انصاف کو قومی و  دیگر اسمبلیوں میں عدالت عظمی کے فیصلے   کے مطابق مخصوص نشستیں دینے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ البتہ ان ارکان کا مسئلہ  تنازعہ کی بنیاد بنے گا جنہوں نے خود  کو پارٹی سے وابستہ قرار  نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس حوالے س دستاویزی شواہد فراہم کیے جاسکتے ہیں۔   جن حلقوں کے بارے میں فارم 45 اور فارم 47 میں تضاد کا اختلاف چل رہا ہے،  اس کے بارے میں متعلقہ الیکشن ٹریبونل ہی مناسب اور قابل قبول فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ آئینی انتظام کی بات کرتے ہوئے اس قانونی طریقہ کار کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔   تحریک انصاف کے لیڈر اسد قیصر نے حال ہی میں دسمبر تک مرکز میں حکومت بنانے کی بات کی ہے۔ یہ بیان دیتے ہوئے انہوں نے مخصوص سیٹوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن ٹریبونلز سے متوقع ریلیف ملنے کی امید پر ہی اندازہ قائم کیا ہوگا۔ اسد قیصر کا بیان ملک  کے مروج آئینی پارلیمانی نظام سے قریب تر ہے جس میں قومی اسمبلی میں اکثریت دکھانے والی پارٹی حکومت بناتی    ہے۔ کسی حکومت کو اکثریت حاصل نہ رہے تو وہ علیحدہ ہوجاتی ہے جیسا کہ   اپریل2022 میں  تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے کیوں کہ اسمبلی کی اکثریت نے انہیں اعتماد کا ووٹ دیاتھا۔ اس مسلمہ طریقہ کے علاوہ عمران خان کو اقتدار دینے کا کوئی دوسرا طریقہ نہ تو آئینی ہوگا اور نہ ہی اس سے ملک میں امن بحال ہونے اور معاملات درست سمت چلنے کا آغاز ہوسکے گا۔

اسمبلی میں عددی برتری  حاصل کرنے کے علاوہ حکومت تبدیل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ان  میں  ایک آئینی طریقہ  یہ ہے  کہ  سیاسی پارٹیاں مل کر حالات کی سنگینی کا جائزہ لیں اور  قبل از وقت یا مڈ ٹرم انتخاب کروانے پر راضی ہوجائیں۔ اس مقصد کے لیے سیاست دانوں کو ایک دوسرے  کی شکل سے نفرت کی بجائے مل جل کر مسائل  کا حل تلاش کرنا  پڑے گا۔ مڈٹرم انتخابات شاید  ملک میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی اور تصادم کی کیفیت کو کم کرنے کا ایک حل ہوسکتے ہیں لیکن  عمران خان ایسے کسی راستے پر چلنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے سے صاف انکار  کرتے  ہیں لیکن اسٹبلشمنٹ یا فوج کو بار بار صلح ، بات چیت اور مل جل کر کام کرنے کا پیغام بھیجتے رہتے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران میں عمران خان کے  ایسے متعدد پیغامات منظر عام پر  آئے ہیں۔  ان میں فوج سے کہا گیا ہے کہ وہ موجودہ حکومت سے تعاون بند کرے اور تحریک انصاف کے ساتھ معاملات طے کرلے۔  یہ طے کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ یہ طریقہ کس حد تک آئینی و جمہوری ہوسکتا ہے۔ 

اس کے علاوہ  حکومت کی تبدیلی کا دوسرا راستہ  یہی ہے کہ  کوئی  آرمی چیف آئین معطل کردے اور ملک پر اپنی حکمرانی کا اعلان کردے۔ ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ ایسی کسی کارروائی کے بارے میں قبل از وقت خواہ  کیسی ہی رائے ظاہر کی جائے یا عدالتوں میں کیسے ہی سخت ریمارکس سننے میں آئیں، ایک بار آئین معطل ہوجانے کے بعد کوئی عدالت یا  اصول کارگر نہیں ہوتا ۔ اور ایک فوجی جنرل طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔ خدانخواستہ  ملک نے اگر یہ منظر ایک بار  پھر دیکھا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس بار مٹھائیاں بانٹنے والوں میں تحریک انصاف کے جان لیوا  پیش پیش ہوں گے۔

سہیل وڑائچ کی سادہ دلیل یہ ہے کہ عمران خان چونکہ مقبول ترین لیڈر ہے، اس لیے اسے وزیر اعظم بنایا جائے۔ کوئی بھی نالاں  ہو لیکن ملک کا مسئلہ حل کرلیا جائے۔  انہوں نے خود ہی ان مسائل میں دوست ممالک کی ممکنہ ناراضی یا مالیاتی اداروں کی  لاتعلقی  کا حوالہ بھی دیا ہے۔   گویا وہ خود ہی  اشارہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کی صورت میں دوست ممالک سے تعلقات کو زک پہنچے گی اور عالمی مالیاتی ادارے تعاون سے  ہاتھ کھینچ لیں گے۔ بیرونی ممالک کے 130 ارب ڈالر کے مقروض ملک  میں اگر یہ وقوعہ رونماہوجاتا ہے تو خود ہی اندازہ کرلیا جائے کہ عوامی پریشانی، سول بے چینی، مہنگائی اور بدحالی کا کیا عالم ہوگا۔   ’خون خرابے‘ سے ڈرا کر  عمران خان بہر صورت اقتدار سونپ کر ملک بچانے کا سنہری مشورہ دیا گیا ہے۔ لیکن معاشی انحطاط اور میلٹ ڈاؤن  کی صورت حال میں ہونے والی خون ریزی کو  کیسے روکا جائے گا؟

یادش بخیر  پاکستان کا آئینی انتظام پارلیمانی طرز حکومت تجویز کرتا ہے۔ اس میں مقبولیت کا پیمانہ کسی ایک شخص کی مقبولیت نہیں ہے بلکہ  اس پارٹی کو مقبول یا اقتدار کے لائق سمجھا جاتا ہے جسے  اسمبلی میں اکثریت حاصل  ہو۔ ملک میں انتخابات کے موجودہ نظام میں حلقہ وارانہ انتخابات کا طریقہ مروج ہے۔ یہاں  متناسب نمائیندگی کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔ اس لیے کسی ایک  لیڈر کی مقبولیت ملک میں حکومت قائم کرنے کے لیے کوئی قابل قبول پیمانہ نہیں ہوسکتا۔ کجا کہ عمران خان کی مقبولیت کے لیے چند سرویز، سوشل میڈیا مہم جوئی یا میڈیا پروپیگنڈا کے سوا کوئی   شواہد موجود نہیں ہیں۔ البتہ اگر  مقبولیت کے اس اصول کو بنیاد مان کر تبدیلی اقتدار کا مشورہ مان لیا جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئیندہ انتخابات میں مقبولیت کی بنیاد پر اقتدار کے کئی کئی دعوے دار سامنے نہیں آئیں گے۔ کیا اب ملک میں دعوؤں، اندازوں اور سوشل میڈیا مہم جوئی کی بنیاد پر عوام کی پسند ناپسند کا فیصلہ کیا جائے گا؟ یہ طریقہ نہ آئینی ہوگا اور نہ ہی پائیدار اورقابل عمل ثابت ہوسکتا ہے۔

مقبول لیڈر کو قبول نہ کرنے کا نتیجہ دکھانے کے لیے ممتاز کالم نگار نے  سقوط ڈھاکہ کی مثال دی ہے ۔  ان کے خیال میں یہ سانحہ اس لیے رونما ہؤا کیوں  کہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو حکومت نہیں دی گئی اور مجیب الرحمان کو وزیر اعظم نہیں بننے دیا گیا۔ ریکارڈ اس بات کی گواہی دیتا  ہے کہ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160  سیٹیں جیت کر صرف قومی اسمبلی میں اکثریت ہی حاصل نہیں کی تھی بلکہ خود کو مشرقی حصے  بلاشبہ مقبول ترین لیڈر بھی ثابت کیا تھا۔ عمران خان  بھی اگر کسی انتخاب میں ایسی ہی کامیابی حاصل کرلیں تو واقعی ان کے راستے میں روڑے  اٹکانا ناجائز اور ناقابل قبول ہوگا۔  البتہ موجودہ حالات میں یہ ’مقبولیت‘ محض دعوؤں کی حد تک ہے۔ اسے ثابت کرنے کے لیے بہتر ہوگا کہ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ مل کر مڈ ٹرم انتخابات کے کسی معاہدے پر متفق ہو جائے۔

’کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا‘ والے کالم میں البتہ آئینی بالادستی کے لیے اقتدار عمران خان کے حوالے کرنے کا جو مشورہ دیا گیا ہے، اس میں فوج سے مدد مانگی گئی ہے۔ ملکی آئین میں البتہ فوج کو کسی ’مقبول ‘ لیڈر کو اقتدار سونپنے کا کوئی اختیار نہیں دیاگیا۔ وقت آگیا ہے کہ فوج کو سیاست  میں گھسیٹنے کی خواہش و کوشش کی بجائے،  فوج کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ عام کیا جائے۔