کون کون آئین کا پابند ہے!

ایک طرف حکومت پاکستان آئین کے خلاف شر انگیزی کرنے والوں اور چیف جسٹس پاکستان کو دھمکیاں دینے والے عناصر کے خلاف سخت اقدام کرنے کا دعویٰ کررہی ہے۔ تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اب حتمی طور سے طے کرلیا ہے کہ ’وہ فوج کے ساتھ مذاکرات کرنے پر تیار ہیں، فوج اپنا نمائیندہ مقرر کرے‘۔  دیکھنا چاہئے کہ ان دونوں معاملات میں ملک کا آئین ہی مظلوم ہے اور کوئی بھی  بظاہر اس پر عمل  کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔

2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے حوالے سے اسرار شاید ہمیشہ قائم رہے  گا لیکن یہ طے ہے کہ اس تنظیم نے ملک میں شرپسندی کی متعدد اور  افسوسناک  مثالیں قائم کی ہیں۔ چند روز پہلے  تنظیم  نے اس مطالبے کے ساتھ فیض آباد میں دھرنا دیا تھا کہ حکومت اسرائیلی لیڈروں کو دہشت گرد قرار دے اور  غزہ کے فلسطینیوں کے لیے امداد روانہ کی جائے۔ چند روز تک شور ،مچانے کے بعد حسب روایت یہ گروہ ایک  معاہدے اور چند وعدوں کے بعد گھروں کو روانہ ہوگیا۔ اس سے پہلے   تحریک لبیک نے  ارکان اسمبلی کے حلف کی عبارت  میں کچھ ترامیم کے خلاف 2017  میں   فیض آباد کے مقام پر 40 دن  تک دھرنا دیا تھا ۔  ایک وزیر کے استعفے اور متعدد ہلاکتوں کے بعد  وہ دھرنا بھی  ایک معاہدے  کے بعد ختم ہوگیا اور تحریک لبیک کے بزرجمہر فتح کے پھریرے لہراتے  گھروں کو روانہ ہوئے۔ شاہد خاقان عباسی کی  حکومت  اپنے زخم چاٹتی رہ گئی۔

سپریم کورٹ  کے دورکنی بنچ نے  نومبر 2017 کے آخر میں ایک فیصلہ میں عسکری اداروں کی مداخلت اور سرکاری ایجنسیوں کی ناکامی کا ذکر کیا اور تمام اداروں کو  ایسے غیر قانونی مظاہروں  کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کی سرزنش کی ہدایت کی ۔ اس حکم کے  خلاف متعدد اداروں اور پارٹیوں نے نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی تھیں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے پر یکے بعد دیگرے سب  شکایت کنندگان اپنی درخواستیں واپس لینے عدالت عظمی پہنچ گئے۔اس کے بعد بھی تحریک لبیک پاکستان نے فرانس کے وزیر  کی ملک بدری اور  فرانسیسی مصنوعات پر پابندی کے لیے مظاہرے اور دھرنے دیے لیکن کوئی بھی احتجاج کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا ۔

البتہ مذہبی جذبات کی بنیاد پر  چلائی جانے والی اس تحریک کی وجہ سے ملک میں توہین مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا ایک نیا سلسلہ ضرور دیکھنے میں آیا  ہے۔  ایسے متعدد  افسوسناک واقعات رجسٹر کیے گئے ہیں جن میں کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا کر   مشتعل ہجوم نے تشدد کے ذریعے متعلقہ شخص کو ہلاک کیا  اور لاش کی بے حرمتی سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ ان سب مواقع پر حکومتی وزرا بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے قانون شکنی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان کرتے رہے ہیں لیکن حکومت  کی تمام تر طاقت کے باوجود نہ اصل ’کرداروں‘ کی نشاندہی ہوتی ہے  اور نہ کسی عدالت سے کسی ملزم کو سزا دلوائی جاسکی ہے۔ البتہ مذہب کے نام پر مرنے  یا مار دینے کا طریقہ ضرور  رواج بن گیا ہے اور تحریک لبیک  اس طریقے کو جائز قرار دینے میں سب سے آگے ہے۔

گزشتہ دنوں مبارک ثانی کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے  ایک احمدی شہری کو ضمانت و رہائی دینے کے حکم کے خلاف نظر ثانی کی درخواست مسترد کی تھی۔  عدالت نے اس حوالے سے سامنے آنے والے دلائل  اور آرا کو ماننے سے  گریز کیا اور اصل فیصلہ کو برقرار رکھا۔  اس معاملہ میں ایک احمدی  کو ایک ممنوعہ کتاب  ’تفسیر صغیر‘تقسیم کرنے کا  قصور وار قرار دیا گیا تھا اور اسے طویل المدت سزا دی گئی تھی۔  البتہ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ یہ مقدمہ  پنجاب کے  جس قانون کے تحت قائم کیا گیا تھا ، وہ 2021 میں نافذ ہؤا تھا اور نام نہاد جرم  اس  سے دو سال پہلے سرز  د ہؤا تھا ۔  متعلقہ شخص اس کے باوجود 13 ماہ سے قید تھا جبکہ  پنجاب  قرآن ایکٹ کے تحت مقررہ سزا 6 ماہ ہے۔ اس لیے عدالت نے اسے رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔  فروری میں یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد  مذہبی لیڈروں نے اس فیصلے  کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اب احمدیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق مل گیا ہے جو پاکستانی  آئین اور اسلامی شعائر کے خلاف ہے۔  اسی لیے پنجاب حکومت نے  اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی جسے عدالت نے 24 جولائی کے فیصلے میں مسترد کیا ہے ۔ البتہ اس فیصلہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے مطابق احمدیوں کے دونوں گروہ غیر مسلم ہیں اور ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہونا چاہئے۔

بظاہر ایک بے ضرر معاملہ   میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو دو بار تفصیل سے غور کرنا پڑا اور  قرآن و احادیث کے علاوہ  علما کی آرا کی روشنی  میں اپنے فیصلے کی وضاحت کرنا پڑی ہے۔ اس کے باوجود مذہب کو ملک میں انتشار اور تشدد کا ذریعہ بنانے والے گروہ اس فیصلہ پر چیں بچیں ہیں۔ اسی حوالے سے تحریک لبیک پاکستان نے  لاہور پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی جلسہ کیا جس  میں  تنظیم کے سربراہ سعد رضوی نے اشتعال انگیز تقریر کی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف دھمکی آمیز، ہتک آمیز اور  ہر اخلاقی معیار سے گری ہوئی  زبان استعمال کی۔   ناروا اور بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے انہوں نے  واضح کیا کہ  اگر حکومت نے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرکے انہیں اس عہدے سے علیحدہ نہ کیا تو   صرف قرآن کو آئین ماننے والے  تحریک لبیک کے پیروکار سپریم کورٹ کا گھیراؤ کریں گے اور ججوں کو ان کی ’اوقات‘ یاد دلادیں  گے۔  اسی پر اکتفا نہیں  تنظیم کے نائب صدر  مولوی ظہیرالحسن نے اپنے لیڈر کی پرجوش تقریر سے متاثر ہوکر چیف جسٹس کے سر کی قیمت مقرر کرنے کا  بھی اعلان کیا۔ یعنی جو بھی چیف جسٹس کو قتل کرے گا، اسے مولوی صاحب  بھاری بھر کم انعام  عطا فرمائیں گے۔

ان تقاریر پر حکومت کی حس قانون اس حد تک متاثر ہوئی کہ دو سینیر وفاقی وزرا وزیر دفاع خواجہ آصف اور  وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے گزشتہ روز ایک  پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ  ایسی مذہبی اشتعال انگیزی اور عدلیہ کے خلاف دھمکی آمیز رویہ برداشت  نہیں کیا جائے گا۔ ریاست پوری طاقت کے ساتھ ایسے عناصر کا قلع قمع کرے گی۔ اس کے بعد ظہیرالحسن کے علاوہ تحریک لبیک پاکستان  کے متعدد لیڈروں و کارکنوں کے خلاف مقدمے قائم کرکے بعض گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ گرفتار ہونے والوں میں ظہیرالحسن بھی شامل ہیں لیکن سپریم کورٹ کا گھیراؤ کرکے ججوں کو  اپنے پاؤں پر  جھکانے کا دعویٰ کرنے والے سعد رضوی کے خلاف  کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایسے میں وزیر دفاع کے یہ الفاظ بے  معنی اور  ایک فرسودہ بیان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے کہ ’ملک میں مذہب کے نام پر خون خرابے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا بدستور جاری ہے ۔ہم کابینہ کی جانب سے سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔کسی کو بھی مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ قانون  ایسے عناصر کے خلاف پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا‘۔

عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ اقلیتوں کے سوال پر ہونے والی زیادتیوں کے  بارے میں  حکومت کے نمائیندے بلند بانگ دعوے تو کرتے ہیں لیکن کبھی ان عناصر کی بیخ کنی کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آتا جو مذہب کے نام پر قتل و غارت گری عام کرنا چاہتے ہیں اور ملکی قانون  وآئین کو مسترد  کرتے  ہیں۔ اس بار تو تحریک لبیک کے لیڈروں نے چیف جسٹس کے قتل  کا فتوی دینے، انعام مقرر کرنے اور سپریم کورٹ کو منہدم کردینے جیسے اعلانات کیے ہیں لیکن حکومتی ردعمل ایک پریس کانفرنس تک محدود ہے۔  حکومت وقت کا یہی رویہ ان سماج دشمن عناصر کو اصل  طاقت عطا کرتا ہے۔ لیکن حکومت سے تو قانون  پر عمل درآمد  کی توقع اسی وقت کی جاسکتی ہے جب حکومت خود  عدالتوں کے اختیار کو تسلیم کرنے پر راضی ہو اور سپریم کورٹ جو حکم جاری کرے انہیں سبو تاژ کرنے کی کوششیں نہ کی جائیں۔ آج ہی  قومی اسمبلی میں الیکشن ایکٹ کے ترمیمی بل کے  ذریعے درحقیقت  تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں میں اس کا جائز حق دینے والے فیصلے کے اثرات  کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوسری طرف اس ملک میں اپنی ہی دانست میں  جمہوریت اور عوامی حکمرانی کی   واحد ’امید‘ عمران خان نے اب  فوج کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اعلان کرتے  ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ  فوج اپنا نمائیندہ مقرر کرے تاکہ سب معاملات طے کرکے عمران خان اڈیالہ جیل سے وزیر اعظم ہاؤس  تشریف لے جائیں۔  ایسا خواب دیکھنا یا سیاست میں فوج کے کردار کو مسترد کرکے خالص جمہوریت کی بات کرنا تو قابل فہم معاملہ ہے لیکن جب ایک قومی لیڈر عوام  کی طاقت  کی بجائے فوج  سے سرپرستی کا خواست گار ہو تاکہ وہ اقتدار تک پہنچ سکے تو اسے ملکی آئین کی کون  سی شق  پر عمل درآمد کہا جائے گا؟ آئین انتخابات کا ایک طریقہ متعین کرتا ہے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے بھی ایک طریقہ مقرر ہے لیکن عمران خان مقبولیت کے گمان میں ایسی کسی شرط کو ماننے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ وہ کہتے ہیں’ میں عوام کا لیڈر اور آپ عسکری طاقت  کے  مالک،  آؤ مل کر بندر بانٹ کرلیں‘۔

  دیکھا جائے تو  عمران خان کا یہ اعلان بھی آئین و قانون  کی ویسی ہی خلاف ورزی ہے جس کا ارتکاب سعد رضوی اور  ان کے ساتھیوں نے لاہور میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کیا ہے۔ پھر کیسے جانا جائے کہ کون اس ملک کے لوگوں کو آئین کے مطابق قیادت فراہم کرے گا اور کون انہیں غیر آئینی ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے گا۔ یہاں تو کوئی مذہب کے نام پر اور کوئی مقبولیت کے دعوے پر آئین کی دھجیاں اڑانے اور ذاتی دعوؤں کو مان لینے کا مطالبہ کررہا ہے۔