الیکشن ایکٹ ترمیمی بل قائمہ کمیٹی پارلیمانی امور سے منظور

  • بدھ 31 / جولائی / 2024

گزشتہ روز حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل ایوان زیریں کی قائمہ کمیٹی سے منظور کرلیا گیا۔

الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل جسے الیکشن (دوسرا ترمیمی) ایکٹ 2024 کا نام دیا گیا ہے، اس میں پہلی ترمیم سیکشن 66 اور دوسری ترمیم سیکشن 104 میں متعارف کروائی گئی ہے۔ پہلی ترمیم کے مطابق کسی سیاسی جماعت کی جانب سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا جب کہ دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ جس پارٹی نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہ دی ہو، اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کا اجلاس ہوا جس میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آزاد ارکان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت اور مخصوص نشستوں کا معاملہ واضح ہے۔

پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا کہ یہ نجی بل ہے، اس بل پر وزیر قانون وکالت نہ کریں۔ جس نے بل پیش کیا، اسے تشریح کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کو بلڈوز نہ کیا جائے، حکومت اس بل کو اختیار کرنا چاہتی ہے تو بتا دے۔ لگتا ہے نجی بل وزیر قانون کی منشا سے آیا ہے۔ حکومتی رکن بشیر ورک علی نے کہا کہ علی محمد خان تاخیر سے آئے۔

وزیر قانون نے کہا کہ یہ بل بہت ساری کنفیوژنز کو دور کرتا ہے۔ پارلیمان قانون ساز ادارہ ہے عدالتیں صرف تشریح کرتی ہیں۔ جہاں پارلیمان کو لگے، اس کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے یا آئین کو دوبارہ لکھا جارہا ہے، وہاں پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار ہے۔ آئین قانون بنانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون سازی عدالت کا نہیں پارلیمان کا اختیار ہے، اس بل میں کوئی نئی چیز نہیں، جو رولز ایکٹ آئین میں موجود ہے بل اس کو واضع کرتا ہے۔ کسی جماعت میں شمولیت کی مدت تین دن ہے۔ اس کے بعد کسی دوسری جماعت میں شمولیت نہیں ہو سکتی۔ الیکشن کے بعد ایک پراسیس ہوا، شمولیت کا وقت ختم ہو گیا۔ کس قانون کے تحت کسی رکن کو دوبارہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت کا کہا جا سکتا ہے۔ کسی رکن اسمبلی کی شمولیت ایک بار ہی کسی جماعت میں ہو سکتی ہے، مخصوص نشستیں بھی اسی جماعت کو ملیں گی جس نے لسٹ فراہم کی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم کے نجی بل کی حمایت کی اور کہا کہ رولز میں سب واضح ہے، اس کو ایکٹ کا حصہ بنا رہے ہیں۔

علی محمد خان نے استفسار کیا کہ اس کا اطلاق ماضی پر ہو گا یا مستقبل پر؟ وزیر قانون نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 232 میں بھی ترمیم کی گئی۔ پارلیمان نے اس پر قانون سازی کی اور اس کا اطلاق ماضی سے ہوا، جس کے تحت تاحیات نا اہلی کا قانون ختم کیا گیا۔ کریمنل ایکشن جہاں ہوں گے وہاں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ یہ ترامیم آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔ علی محمد خان نے کہا کہ ہمارے خلاف بھی سپریم کورٹ کے بڑے فیصلے آئے، یہ بل پارلیمنٹ بمقابلہ سپریم کورٹ ہو گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تحریک انصاف موجود تھی۔ الیکشن کمیشن نے کس قانون کے تحت تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات منظور نہیں کیے۔

وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ میں درخواست گزار سنی اتحاد کونسل تھی تحریک انصاف نہیں۔ سپریم کورٹ میں کنول شوزب کی فرمائشی پٹیشن تھی۔ مقدمہ یہ تھا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں، اگر سنی اتحاد کونسل نے ایک نشست بھی جیتی ہوتی تو اسے مخصوص نشستیں مل سکتی تھیں۔ الیکشن کمشن میں آزاد امیدواروں نے بھی بیان حلفی جمع کرایا کہ وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ وزیر قانون نے علی محمد خان کو جواب دیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کا قانون پی ٹی آئی کی حکومت کا ہی بنایا ہوا ہے۔