ناروے میں پاکستانیوں کا تاریخی حوالہ: سید مجاہد علی کی کتاب ’گفتگو‘

کتاب:  ’گفتگو‘

تحریر:سید مجاہد علی 

پبلیشر:آئی جی ایف پبلی کیشنز ،لاہور

تبصرہ: شگفتہ شاہ

یہ کتاب اسّی اور نوے کی دہائی میں ناروے کے اردو ماہنامہ کاروان میں ’گفتگو‘ کے عنوان سےشائع ہونے والے علامتی اداریوں کا مجموعہ ہےجو  اعلٰی ادبی و استعاراتی انداز ِنگارش کی وجہ سے ایک منفردادبی حیثیت  رکھتاہے ۔

  ستر  اور اسّی کی دہائی کے وسط میں  پاکستانی   نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادتلاش معاش  کے سلسلےمیں ناروے  پہنچی۔اس  کتاب  کے خالق بھی  ایک بہتر مستقبل کی تلاش  میں  ۱۹۷۵میں ناروے تشریف لائے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ناروے میں تیل کی دریافت کے سبب روزگار کے وافرمواقع  تومیسر تھےمگر پاکستانیوں کے لئے  ناروے مذہبی ،تاریخی، جغرافیائی اور تہذیبی لحاظ سے ایک بالکل  انجان خطہ تھا ، اس لئے انہیں بہت سے  معاشرتی و نفسیاتی مسائل  کا سامنا کرنا پڑا۔

سید مجاہد علی  نے ’گفتگو‘میں گونا گوں موضوعات کے ساتھ ساتھ ان مسائل کو بھی اپنے اداریوں کا  موضوع بنایا جوتارکین وطن کو ابتدائی سالوں میں درپیش رہے۔کتاب کے آغاز میں وہ اردو  جریدہ ’کاروان ‘اوراس میں شائع ہونے والے اداریوں  کے بارے میں لکھتے ہیں:  ’ ستر واسّی کی دہائی میں ایک دوسرے کے حالات وصورت حال سے ناواقفیت متعدد مسائل کو جنم دے رہی تھی۔۔۔ ایسے میں چند دوستوں نے مل کر ایک ایسا جریدہ شروع کرنے کا عزم کیا جس میں مقامی معاشرے کے بارے میں معلومات اردو میں پاکستانی تارکینِ وطن تک پہنچائی جائیں۔۔۔اردو میں معلومات فراہم کرنے کی کاوش  ماہنامہ   ’کاروان ‘  کی شکل میں سامنے آئی۔ اس جریدے کے مدیر کے طور پراداریہ لکھنے کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی۔‘(گفتگو ص ۵)

یوں اداریوں کی اس کتاب کی بنیاد پڑی جوبہت سے دوسرے اہم موضوعات کے ساتھ ساتھ ہجرت کی وجوہات،تارکینِ وطن کی پہلی نسل کو نئے معاشرے میں درپیش مسائل اور ان  کے حل، اس معاشرے میں اپنی پہچان بنانے  کی تگ ودو اور اپنی آئندہ نسل کےمستقبل کی فکر جیسے موضوعات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔  یہاں خاص طور پران  ہی  موضوعات کی نشاندہی کی جائے گی ۔

 صاحب ِ کتاب ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ناروے آمد کے بعد پاکستانی تارکینِ وطن کا سب سے پہلا اور اہم مسئلہ نارویجن زبان سے ناآشنائی تھا۔ ناروے میں اس وقت تک  ایشیائی زبانیں بولنے والوں کے لئے نارویجن لینگویج کورسز کاآغاز  نہیں ہوا تھااور پھرپاکستان سے آنے والے نوجوانوں کا خیال تھا کہ وہ اس دور دراز اور برفیلے ملک میں چند سال خوب محنت مزدوری کرکے کچھ پیسے جمع کریں گے اور اپنے وطن لوٹ جائیں گے اس لئے بیشتر لوگ زبان سیکھنے میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں رکھتے تھے۔ ابتدائی سالوں کی اس ذہنی کشمکش  کو سید مجاہد علی اپنے ایک اداریے ’لمحے کی بات‘  میں بڑی خوبی سے مکالماتی انداز میں بیان کرتے ہیں:’اتناعرصہ یہاں رہ کر بھی کیا بنا لیا۔مجھے تمہاری بات سے اتفاق ہے کوئی ایسی ترکیب سوچو کہ واپس چلیں اور پھر وہاں امن و سکون سے رہیں‘۔

’ اس میں ترکیب کی کیا بات ہےتھوڑے سے پیسے اکٹھے کر لو اور وہاں جا کر کوئی بھی کام شروع کر دو، روزگار کا وسیلہ بن جائے گا۔ مزے سے زندگی گزر جائے گی‘۔ (گفتگو، ص۴۱)

 تارکینِ وطن کی پہلی نسل کو ناروے میں سخت محنت  ومشقت کرنا پڑی۔ دراصل اکثریت ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ تھی ،جو معدودےچند تعلیم یافتہ تھے وہ زبان سے نابلد تھے اس لئے ابتدائی دنوں میں سب کو فیکٹریوں اور ہوٹلوں میں ہی محنت مزدوری کرنا پڑی۔در اصل یہاں وہ لوگ آئے تھے  جو اہل خاندان کی امیدوں کے چراغ تھے،انہیں ایک کماؤ پوت کی طرح پیسہ کماکراپنے والدین کو بھیجنا تھا۔صاحبِ کتاب اکتوبر ۱۹۸۱میں لکھےایک اداریے ’سوال‘ میں رقم طراز ہیں:

’ہماری مجبوریاں آج بھی ہمارے پاؤں کی زنجیریں ہیں۔۔۔آج بھی بہنیں اوربیٹیاں جوان ہوتی ہیں اور مائیں آج بھی ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں گھلی جاتی ہیں آج بھی سونے کے سکوں کی کھنکار انسانوں کے جذبات و احساسات سے زیادہ دلکش ہے۔آج بھی وہ ندیاں خشک ہیں جو ہماری ہیں اور وہاں پانی لانے کے لئے ہمیں یہاں اپنا خون دینا پڑتا ہے۔‘ (گفتگو،ص۱۵تا ۱۶)

ان ابتدائی سالوں میں تارکینِ وطن کو ایک اور نفسیاتی کشمکش   کا سامنا رہا ۔ وہ اس جنت نظیر وادی میں رہتے ہوئے اپنوں سے دوری اورعذابِ تنہائی سے دوچاررہے۔اس موضوع پر لکھےاداریے میں تنہائی اور اپنے پیاروں سے دوری کے عمومی دکھ کو اس خوبی  سے بیان کیا گیا ہےکہ اسے پڑھ کردل خون کے آنسورو دیتا ہے:

’آج پھر ایک خط آیا ہے۔۔۔

تمہارے آنے کی امید میں زندگی کے دن بیت رہے ہیں۔

جب سے تم گئے ہو موسموں کے رنگوں میں حسن نہیں رہا۔

اب تم آجاؤ کہ زندگی کا کیا بھروسا-

تم نے کیوں پردیس چن لیا‘-

آج کے خط میں اس کی ماں نے لکھا تھا:’بیٹازندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ نہ جانے کب اوپر والے کا بلاوا آ جائے۔ بس اب تو اتنی خواہش ہے کہ میرا آنگن ایک بار پھرتمہارے قہقہوں اور باتوں سے بھر جائے اور تم میرے سامنے اتنی دیر رہو -  اتنی دیر رہو کہ میرے دل اور میری آنکھوں کی پیاس بجھ جائے‘۔

ان تارکین وطن کے لئے ایک اجنبی معاشرے میں سخت محنت و مشقت کرتے اپنوں سے دوری کے کرب میں مبتلا  شب وروز کرنا کچھ ایسا سہل  نہیں تھا ۔لیکن غم روزگار اورہجر کے صدموں کے ساتھ ساتھ انہیں جلد ہی اس نئے معاشرے میں ایک اور چیلنج کا سامنا  بھی کرنا پڑا۔ اب معاشرے میں ایک ایساگروہ پیدا ہوا جس نے نئے آنے والوں  کے خلاف  اس بنا پرآواز اٹھانا شروع کر دی  کہ وہ ان سے مذہبی ،نسلی اور تہذیبی طور پر مختلف تھے اور ان کے وسائل میں حصّہ دار بن رہےتھے ۔سید مجاہد علی اس سوچ کے خلاف بڑی جرأت مندی سے دوٹوک اور مدلل انداز میں اظہارِ رائے کرتے ہیں: ’۔۔۔آج ہم سنتے ہیں ۔ہم اس معاشرے پر بوجھ ہیں جب اس معاشرے نے ہماری جوانی کے ماہ وسال چھین لئے،ہم نے اس معاشرے کی اقتصادکو مستحکم کرنے کے لئےمحنت کی ہے، لہذا اس کے ثمرات پر ہمارا بھی برابر کا حق ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بے روزگاری کا سب سے بڑا سبب ہم ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔ بیروزگاری کا کارن اس حکومت کی غلط حکمت عملی ہے۔ہم نارویجنوں سے روز گار کیسے چھین سکتے ہیں۔ ہم تو وہ کام کرتے ہیں،جو وہ نہیں کرتے‘۔(گفتگو، ص۸۷)

جب تارکینِ وطن اور  منفی سوچ رکھنے والے نارویجنوں کے درمیان غلط فہمیاں بڑھنے لگیں توصاحب کتاب  کئی ایک اداریوں میں جہاں معاشرے کے اس گروہ پر سخت تنقید کرتےہیں جو غیر ملکیوں پرالزام تراشی کر رہا تھاکہ وہ  ان کے وسائل پر قابض ہوتے جا رہے ہیں ،وہاں وہ اپنے ہم وطنوں کو بھی نئے معاشرے کو سمجھانے اور اس میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش پر آمادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ لکھتے  ہیں:

 ’ہمیں اس مسٔلہ پر سنجیدگی سے غور کرنا  چاہیے۔نفرت اور فاصلے کی اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کرنی چاہیے‘۔ (گفتگو، ص۱۱۳)

  تارکین وطن کی پہلی نسل کئی دہائیوں تک معاشرتی عدم مساوات سے دوچار رہی ۔  روزگار کی اسامیوں کے لئےدی گئی درخواستوں  میں سے عموماًسفید فام لوگوں کا انتخاب کیا جاتا رہا۔ ایوانوں  کی کرسیوں پر صرف اور صرف سفید فام متمکن رہے۔ سید مجاہد علی  ایک نارویجن صحافی کے اس صورتِ حال کے بارے میں ایک تنقیدی مضمون کا  حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’ آج ایک سفید براق ایوان ناروے کی امیگریشن پالیسی پر غور کرے گا۔ کسی سیاہ فام نے آج تک کسی بھی حیثیت میں ہماری قومی اسمبلی میں کام نہیں کیاہے‘۔ (گفتگو، ص۱۸۶ )

لیکن پاکستانی تارکینِ وطن نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ جب وہ نئے معاشرے میں رچ بس گئے تو اپنی سخت محنت اور پھر زبان پر مہارت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے معاشرے میں اپنی پہچان بنائی اور نہ صرف یہ کہ اعلٰی عہدوں پر فائز ہوئے بلکہ اقتدار کے اعلٰی ایوانوں تک بھی رسائی حاصل کی۔

صاحب کتاب  بڑے فیصلہ کن انداز میں لکھتے ہیں:  ’ ۔۔۔اب تو ہماری بات ان ایوانوں تک پہنچ کر رہے گی جہاں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ان فیصلوں میں ہمیں شریک کرنا ہو گا، ہم ان فیصلوں میں شامل ہوں گے، وہ یک طرفہ طور پرہمارے اور ہماری نسلوں کے بارے میں فیصلے نہیں کر سکتے، نہیں کر سکتے، نہیں،ں،ں ۔۔۔۔‘(گفتگو، ص۳۵۱،۳۵۲)  

مختصر یہ کہ ان  اداریوں   کا مطالعہ  ہمیں آگاہ کرتا ہےکہ  پاکستانی تارکینِ وطن کی پہلی نسل کواس معاشرے میں دو زبانوں اور دو تہذیبوں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے اپنی شناخت بنانے میں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ سید مجاہد علی  رقم طراز ہیں :  ’ ان کے مطالعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ معاش کی تلاش میں ترک وطن آسان کام نہیں ہوتا اور اس کاوش میں انسانوں کو دیگر صعوبتوں کے علاوہ بڑے جذباتی صدموں کا سامنا کرنا پڑتا ہےجن سے نمٹنے کے لئے ہمت ، حوصلے وتحمل کی ضرورت ہوتی ہے‘۔ (گفتگو، ص۶،۷)

یہ کتاب ۳۷۶ صفحات پر مشتمل ہے جو نہایت اہم موضوعات پرگفتگو کرتی ہے۔ کتاب کی زبان بہت عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ نثر کے خوب صورت نمونے پیش کرتی ہے ۔کبھی یہ  رومانوی  انداز بیان  پیش کرتی ہے تو کبھی   داستانوی نثر کی قوس قزاح  بکھیرتی ہے۔ اور کہیں کہیں تو مکالماتی اداریے پڑھتے ہوئے یوں گماں ہوتا ہے کہ ہم باقاعدہ   نثری شاعری کا مطالعہ کر رہے ہوں۔

کتاب  پاکستان اور ناروے کے اردو قارئین کے لئے یکساں معلومات افزا ہے۔