اسماعیل ہانیہ اور پیارے مسلمانو!
- تحریر افضال ریحان
- بدھ 31 / جولائی / 2024
آج صبح سوچ رہا تھا کہ اکتیس جولائی کے ریفرنس سے اپنے پیارے گائیک امام خوش الہانی، محبوب زمانی و ربانی، جنت مکانی حاجی محمد رفیع صاحب کی دلآویز آواز کے سحر کی مدح سرائی میں لکھوں جن کی پیدائیش 1924 کو ہمارے گریٹر پنجاب میں ہوئی تھی سو اس مناسبت سے ان کی پیدائش کا جشن صد سالہ منایا جانا چاہیے۔
کیونکہ بڑی شخصیات مرتی نہیں ’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور‘‘ کے مصداق ہمیں موت کی بجائے حیات پر بات کرنی چاہئے۔ انہوں نے دکھی انسانیت میں جو خوشیاں بانٹی ہیں انہیں اجاگر کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کی نئی قیادت کو ان کی بہتر ترجیحات پر شاباش دینی چاہ رہا تھا کہ جو اپنی رجعت پسند پارٹی کو نان ایشوز کی دلدل سے نکال کر اصلی و حقیقی عوامی ایشوز کی طرف لارہے ہیں۔ عوامی دکھوں کی آواز بنا رہے ہیں، بشرطیکہ اسمعیل ہانیہ کی وساطت سے مہنگائی کے خلاف اپنے مارچ کو مڈل ایسٹ کی کھائی میں نہ پھینک دیں۔ آج کوئی مانے یا نہ مانے بالآخر عوامی دکھوں سے فلاح کی یہی راہ ہر راسخ العقیدہ یا مذہبی شدت پسند جماعت کو بھی اپنانی پڑے گی۔
ایک شدت پسند اسلامی تنظیم جو دھرنوں کی شہرت سے مالامال ہے، جس کی قیادت نے حال ہی میں ہمارے قابل فخر اور اولوالعزم چیف جسٹس کے قتل کی دھمکی یا فتویٰ جاری کیا ہے۔ اور ایک کروڑ انعام دینے کی شرارت تک جاپہنچے ہیں، جس کی مذمت سب سے بڑھ کر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب نے کی ہے اور فرمایا ہے کہ کسی گروہ، جتھے یا فرد کو کوئی حق نہیں نہ شرعاً اور نہ قانوناً کہ وہ خود ہی عدالت لگا کر کسی کے قتل کا فتویٰ جاری کرے۔ پاکستان ایک آئینی ریاست ہے، ہر چیز کیلیے قانونی نظم موجود ہے کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسرے کو واجب القتل قرار دے۔
ابھی اس ادھیئر بن میں تھا کہ انٹرنیٹ پر سی این این کی خبر نمودار ہوئی کہ تہران میں حماس کے چیف اسماعیل ہانیہ قتل ہوگئے ہیں وہ یہاں نو منتخب ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلیے قیام پذیر تھے۔ پاسداران ِانقلاب اسلامی نے بھی اس کی تصدیق کردی۔ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ جس کے نیچے دیگر تمام بحثیں دب گئیں۔ درویش کو اس پر قطعی حیرت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ سات اکتوبر کو جس دن حماس کے شدت پسندوں نے اسرائیل کے اندر گھس کر 1200 یہودیوں اور دیگر بے گناہوں کو بلااشعال اور بغیر کسی وجہ کے قتل کیا تھا، ناچیز نے اسی روز اپنے احباب کو بتایا اور لکھا کہ اب بشمول اسمعیل ہانیہ حماس قیادت شیخ احمد یسین کی طرح ماری جائے گی۔ ہمارے سوشل میڈیا پر جو لوگ اسماعیل ہانیہ کے قتل کا الزام ایرانی حکومت پر لگاتے ہوئے اس نوع کا استدلال کر رہے ہیں کہ یہ تو کوفیوں والی حرکت ہے کہ اپنے پاس بلا کر مروا دیا۔ یہ سراسر زیادتی اور شیعہ دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس افسوسناک قتل کی تحقیقات کر رہے ہیں
غزہ کی اموات اور انسانی دکھوں پر کون سا دل ہے جودکھی نہیں ہوگا لیکن اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ عصری حقائق کا کماحقہ ادراک کرنے کی کوشش کریں۔ یک طرفہ نفرت انگیز پروپیگنڈہ سے ہم لوگوں نے پہلے کیا حاصل کرلیا ہے، آئندہ جس کے حصول کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ بدقسمتی سے دور عروج میں ہمارے آمروں کے منہ کو جو خون لگا تھا اب ہمیں اس فضا سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہم لوگوں نے اپنی اپنی مسلم سوسائیٹیز میں جبرو دہشت سے گھٹن کی جو حبس استوار کر رکھی ہے کوئی بھی نصیبوں جلا حقیقت بیانی یا سچائی واضح کرنے کی کوشش کرے۔ تو ہم اس پر گدھوں کی طرح چڑھ دوڑتے ہیں۔ حضور آج کی مہذب دنیا میں یہ وتیرہ ناقابل قبول ہے۔ اپنی دہشت اور دھونس سے یہ طرز عمل ہم کب تک چلاپائیں گے؟ب شمول امریکا اہل مغرب کا بڑا حوصلہ اور جگرا ہے کہ وہ ہمارے لوگوں کی ایسی تمام کرتوتوں یا حرکتوں کو طویل دہائیوں سے برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ لمحہ بھر کیلیے سوچئے آج دنیا بھر میں طاقت اور ٹیکنالوجی کی جو برتری مغرب کو حاصل ہے اگر یہی حیثیت ہم مسلمانوں کو حاصل ہوتی تو کیا ہم دنیائے کفر کو بھسم کرکے نہ رکھ دیتے؟ ہم اس کرۂ ارض سے کیا ان کا نام و نشان نہ مٹادیتے؟ ہمارے اندر اٹھتے بیٹھتے کس قدر جوش و جنوں انگڑایاں لیتا ہے کبھی ہم ہندو بھائیوں کے خلاف غزوۂ ہند کی نعرے بازی کرتے ہیں اور کبھی دنیا میں یہود کی واحد ریاست اسرائیل کو عالمی نقشے سے کھرچ دینے کیلیے جل بھن رہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنی مساجد میں یہودو ہنود کی بربادی کیلیے دن رات دعائیں مانگیں، یہودیوں اور صلیبیوں پر اٹھتے بیٹھتے لعنتیں ڈالیں، کبھی سوچا ہماری یہ منافرت بھری دعائیں یا خواہشیں شرف قبولیت کیوں حاصل نہیں کرپاتی ہیں؟ وہ لوگ کہیں گے کہ کوؤں کے چیخنے سے عقابوں کا کیا بگڑ جائے گا البتہ اس سے ہماری ذہنی پراگندگی اور امڈتی منافرت دنیا ملاحظہ کر سکتی ہے۔
ہم غزہ کے مظالم پر چاہے جتنا ماتم کریں، یہود کے خلاف بھڑاس نکالیں لیکن کیا کبھی ہم نے اس نکتے پر غور فرمایا کہ 7 اکتوبر 2023 سے قبل یہی ہنستا بستا غزہ تھا جہاں سے ہزاروں عرب مسلمان روزانہ انہی راستوں سے گزر کر اسرائیل کے اندر باوقار طریقے سے روز گار کیلیے جاتے اور شام کو اپنے بال بچوں کے پاس اچھی خاصی رقوم لے کر ہنستے مسکراتے واپس آتے تھے۔ خود اسرائیل کے اندر آبادی کا اچھا خاصا حصہ تیس لاکھ کے قریب عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے جنہیں عبادات اور روزگار سے لے کر تمام تر وہ شہری و جمہوری حقوق حاصل ہیں جو یہود کو حاصل ہیں۔ اتنی تباہی، منافرت اور جنگ جوئی کے باوجود بھی اسرائیل میں آباد عرب مسلمان پہلے کی طرح رہ رہے ہیں۔ اسی طرح ویسٹ بنک اور یروشلم کا وہ فلسطینی خطہ جس پر صدر محمود عباس کی الفتح حکمران ہے، وہاں کے فلسطینیوں کی وہ کہانی کیوں نہیں ہے جو غزہ میں بپا ہے؟
ہمارے لوگوں کو تو شاید گزشتہ قریبی برسوں کی ہسٹری تک معلوم نہیں، زیادہ دور کی بات نہیں 2005 میں غزہ پر اسرائیل پوری طرح حاوی و قابض تھا لیکن امریکی اثرو رسوخ کے باعث وزیراعظم ایریل شیرون نے فلسطین یا پی ایل او کے لیڈر یاسر عرفات کے ساتھ امن معاہدہ محض ایک شرط پر کرتے ہوئے پورا خطہ غزہ فلسطینی عربوں کے حوالے کردیا تھا۔ خود اسرائیلی حکومت نے اپنی یہودی آبادی کو جبری طور پر اس حالت میں یہاں سے نکالا تھا کہ ان کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ اور آنکھیں ابل رہی تھیں اپنا سارا قیمتی انفراسٹرکچر تک انہوں نے عرب مسلمانوں کے حوالے کردیا تھا۔ شرط یہ تھی کہ اب آپ لوگ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے مگر اس امن معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے 7 اکتوبر کو جو کچھ ہوا کیا اس کی تفصیلات یہاں بیان کی جاسکتی ہیں؟
کیا ہمارے لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ جن دو اڑہائی سو بے گناہ اسرائیلی عورتوں اور مردوں کو حماس کے لوگ 7 اکتوبر کے روز یرغمالی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے، ان کی خاصی تعداد آج بھی حماس قیادت کے قبضے میں ہے جنہیں چھوڑنے کیلیے وہ آمادہ نہیں ہورہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ عام لوگ مرتے ہیں تو مریں ہم نے یرغمالی نہیں چھوڑنے ہیں، یہاں ہمارے بہت سے لوگ اس دہشت کو جسٹیفائی کرتے پائے جاتے ملیں گے۔ ہمارے پاپولر لیڈر طیب اردگان کو خلیفہ المسلین کہلانے کی شدید تمنا ہے۔ اسی چکر میں انہوں نے اسرائیل کو حال ہی میں یہ دھمکی دی ہے کہ ہم تمہیں نیست و نابود کردیں گے۔ دوسری جانب سے انہیں یہ جواب ملا ہے کہ ہمیں تباہ و برباد کرنے کا شوق ضرور پورا فرمائیں مگر اس حوالے سے کوئی قدم اٹھانے سے قبل اپنے صدر صدام حسین کا انجام دھیان میں رکھیں جو اسی طرح کی بڑھکیں مارتا تھا۔ (صدر اردوان نے اسرائیل پر حملہ کرنے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اسرائیل میں داخل ہوکر فلسطینیوں کی حفاظت کا اعلان کیا تھا۔ مدیر)۔
درویش کی اپنے تضادستانی میڈیا اور طاقتوروں کی خدمت میں گزارش ہے کہ یک طرفہ پروپیگنڈہ پھیلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آپ لوگ عوام کی فکری رہنمائی کی خاطر کم ازکم تصویر کا دوسرا رخ سامنے لانے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ اس سے مذہبی و عوامی جنونیت کو کچھ نہ کچھ افاقہ ملے گا۔ دوسرے اپنے راسخ العقیدہ مسلمان بھائی بہنوں کی خدمت میں التماس ہے کہ آپ لوگ جس لکیر کو پیٹ رہے ہیں، وہ سانپ کب کا مرچکا۔ دنیا مذہب اور مذہبی تنگناؤں سے اوپر اٹھ چکی۔ اب وقت کا پہیہ پیچھے کو نہیں گھمایا جاسکتا۔ آپ عصری تقاضوں کو سمجھیں اور قدیمی خونی ذہنیت کو خیر باد کہتے ہوئے مرنے مارنے اور واجب القتل کی باتیں چھوڑ دیں ۔
(مضمون نگار نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور جن ’حقائق‘ کا حوالہ دیا ہے، ان کی اصابت سے ’کاروان‘ متفق نہیں ہے۔ فلسطین کی لڑائی نہتے شہریوں کو مسلسل نشانے پر لینے اور فلسطینیوں کو اپنے علیحدہ وطن کا حق دلانے کے بارے میں ہے۔ وہاں کوئی اسلامی ریاست بنانے کا مطالبہ نہیں کرتا)