اسماعیل ہنیہ کا قتل عالمی اصولوں کی موت ہے!
- تحریر سید مجاہد علی
- بدھ 31 / جولائی / 2024
تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت عالمی قانون اور بین الملکی خودمختاری کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق، ممالک کی خود مختاری اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے سارے دعوے دار ، اسرائیل کی طرف سے تہران میں ایک پراسرار کارروائی کے ذریعے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کرنے کی بجائے یہ اندازے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ مشرق وسطی میں ’بڑی جنگ‘ شروع ہونے کے کتنے امکانات ہیں۔
شاید یہ اندازہ لگانا اور دنیا کو کسی بڑی تباہی سے بچانا بھی اہم ہے لیکن جب بین الاقوامی چارٹر، انسانی حقوق اور باہمی احترام کاپرچم لے کر پوری دنیا پر دھونس جمانے والے ممالک ایک خود مختار ملک کی سرزمین پر ایک بزدلانہ اور اشتعال انگیز حملہ میں ایک لیڈر کے قتل کی مذمت کرنے میں ناکام رہیں تو مان لینا چاہئے کہ یہ ایران کی ناکامی نہیں ہے بلکہ اسماعیل ہنیہ کا قتل درحقیقت انسانی اصولوں کی موت ہے۔ یہ قتل دنیا میں لاقانونیت اور من مانی کی ایسی بھیانک روایت کو مستحکم کرے گا جس میں کوئی بھی کسی بھی دشمن کو کبھی بھی ہلاک کرسکے گا اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہوگا۔
ہنیہ کے قتل کے حوالے سے ہی دیکھ لیا جائے کہ مذمت کرنے والوں میں عرب و مسلمان ممالک ہیں جن کے بارے میں قرار دیا جاتا ہے کہ انہیں ابھی بنیادی اصولوں کا سبق سیکھنے اور اپنے معاشروں میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ چین اور روس ہیں جن کے بارے میں عالمی اصولوں کا سب سے بڑا ’پاسبان‘ امریکہ دعوے کرتا ہے کہ وہ دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے بھارت جیسے ملک کو بحر چین میں چینی عسکری چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ اور روس جب یوکرائین کے روسی باشدوں پر مشتمل علاقوں پر دعویٰ کرتا ہے تو اسے ایک ہمسایہ ملک کی خود مختاری پامال کرنے کا مورد الزام ٹھہرا کر ایک طویل اور ہلاکت خیز جنگ کے لیے وسائل جھونکے جاتے ہیں۔
کسی دوسرے ملک میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کسی مخالف شخص یا لیڈر کو قتل کرنا کوئی نئی روایت نہیں ہے لیکن اسرائیل کا موجودہ جرم روائیتی طریقوں سے مختلف ہے۔ سعودی عرب کی ایک نیویز ایجنسی کے مطابق اسرائیل نے ایک میزائل حملہ میں تہران کے ہائی سکیورٹی گیسٹ ہاؤس میں اسماعیل ہنیہ اور ان کے محافظ کو شہید کیا۔ اس بارے میں ایران یا اسرائیل نے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ایران بوجوہ ابھی اس سانحہ پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگرچہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی حسینی خامنہ ای نے اسرائیل کو ’سزا‘ دینے اور اسماعیل ہنیہ کے قتل کے جرم کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ایران کے پاس اسرائیل کی فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کے وسائل کم ہیں۔ خاص طور سے جب دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ اسرائیل کے بھیانک ترین جرم کا حوالہ دینے سے پہلے بھی یہ یقین دہانی کروانا ضروری خیال کرتا ہے کہ امریکہ اسرائیل پر حملہ کی صورت میں اس کا مکمل دفاع کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایران نے اپریل کے دوران دمشق میں اپنے سفارتکاروں کے قتل کا انتقام لینے کے لیے اسرائیل پر میزا ئل حملہ کیا تھا تو امریکہ نے اپنے عالمی اور علاقائی حلیفوں کی مدد سے ان میزائیلوں اور ڈرونز کو ناکارہ بنایا تھا اور اسرائیل کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچنے دیا تھا۔ ان حالات میں علاقے یا دنیا کا کوئی ملک بھی شاید اسرائیل کو کوئی گزند پہنچانے کی طاقت و صلاحیت نہیں رکھتا۔
اسرائیل نے ابھی تک اس جرم کا اعتراف نہیں کیا۔ لیکن آج صبح حملہ کے چند گھنٹے بعد اسرائیلی حکومت کے سرکاری فیس بک اکاؤنٹ پر اسماعیل ہنیہ کی تصویر پوسٹ کی گئی جس پر ’ختم کردیا‘ کے الفاظ کی مہر ثبت تھی۔ اس تصویر کو اسرائیلی حکومت کا بالواسطہ اعتراف مانا جارہا تھا۔ لیکن ایک گھنٹے بعد ہی وہ تصویر اس فیس بک اکاؤنٹ سے ہٹا لی گئی۔ قیاس یہی ہے کہ امریکی حکومت کے مشورے پر ایسا کیا گیا ہو گا تاکہ اس حملہ کے بارے میں ابہام باقی رہے اور الزام تراشی کے طوفان کے باوجود اسرائیل پر براہ راست انگلی نہ اٹھائی جاسکے۔ 24 گھنٹے کے دوران کسی دوسرے خود مختا رملک کی حدود میں حملہ کرکے ایک خاص شخص کوقتل کرنے کا یہ دوسرا وقوعہ تھا۔ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے چند گھنٹے پہلے اسرائیلی فوج نے بیروت کے ایک ایسے علاقے میں حملہ کا اقرار کیا تھا جو حزب اللہ کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس حملہ میں حزب اللہ کے لیڈر فواد شکر کو نشانہ بنایا گیا تھا جو عسکری منصوبہ بندی کے ماہر ہیں اور اسرائیل کا خیال ہے کہ ہفتہ کے روز مقبوضہ گولان کے علاقے میں ایک فٹ بال گراؤنڈ پر میزائل حملہ کی منصوبہ بندی فواد شکر نے ہی کی تھی۔ حزب اللہ نے اگرچہ یہ تصدیق کی ہے کہ فواد شکر اسرائیلی حملہ کے وقت اس عمارت میں موجود تھے تاہم ان کی ہلاکت کے بارے میں بدستور متضاد خبریں آرہی ہیں۔ البتہ اسرائیلی ذرائع وثوق سے فواد شکر کو مار دینے کا دعویٰ کررہے ہیں۔
غزہ میں انسانیت سوز اور غیر قانونی جنگ اور دہشت گردی کے عین بیچ دو ہمسایہ ملکوں کی سرزمین پر حملوں میں دو اہم لیڈروں کو قتل کرکے اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کو دعوت دی ہے۔ متعدد مبصرین یہ دعوے کررہے ہیں کہ ایران اور حزب اللہ کی جوابی کارروائیوں سے اس بات کا اندازہ ہوسکے گا کہ کیا مشرق وسطی کی جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے یا نہیں۔ البتہ اگر اسرائیل کی فوجی طاقت اور مدمقابل ممالک اور گروہوں کی کسمپسری کو پیش نظر رکھا جائے تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مشرق وسطی میں کوئی بڑی یا وسیع جنگ شروع ہوسکتی ہے۔ اسرائیل بین السطور تو یہی دعویٰ کرے گا کہ حزب اللہ کے لیڈر فواد شکر کو گولان میں حملہ کے جواب میں مارا گیاہے اور اسماعیل ہنیہ چونکہ دہشت گرد گروہ حماس کی قیادت کررہے تھے ، اس لیے وہ ایک جائز ٹارگٹ تھے۔ لیکن اسرائیل یا اس کے پشت پناہوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگا کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اس حملہ کا کیا جواز تھا۔ اس اشتعال انگیزی سے اسرائیل نے ایک ایسے خود مختا رملک کو اس جنگ میں ملوث کیا ہے جو مشرق وسطی کی جنگ میں براہ راست فریق نہیں ہے۔ حزب اللہ کے ساتھ جنگ کا امکان بھی بہت کم ہے کیوں کہ لبنان سے آنے والے بیانات میں ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ حزب اللہ کسی بڑی جنگ میں ملوث ہونا چاہتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے قتل کے حوالے سے سب سے پہلے تہران کو جواب دہ ہونا پڑے گا کیوں کہ ہنیہ نومنتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے اور ایران کی براہ راست حفاظت میں تھے۔ ایرانی حکام کو بخوبی علم ہونا چاہئے کہ اسرائیلی ایجنٹ ان کی جان کے درپے ہیں اور وہ کوئی بھی موقع ملنے پر اس اہم لیڈر کی جان لے سکتے ہیں۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا گیا تھا ۔ اگر سعودی عرب سے آنے والی میزائل حملہ والی خبر درست ہے تو یہ ایران کے دفاعی نظام کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سے یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایران کا فضائی دفاعی نظام بیرون ملک سے داغے گئے میزائلوں کو شناخت کرنے اور ناکارہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ البتہ اگر یہ قتل اسرائیلی ایجنٹوں نے ایران کے اندر کسی منصوبہ بندی کے تحت کیا ہے تو یہ ایران میں داخلی سکیورٹی نظام کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہے۔ اسرائیلی ایجنٹ یہ کام مقامی مدد و تعاون کے بغیر سرانجام نہیں دے سکتے تھے۔
اس حملہ میں اسرائیل براہ راست ملوث ہے۔ اس کی مذمت محض بیانات کے ذریعے کافی نہیں ہوسکتی بلکہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلاکر بین الاقوامی قانون کی اس صریح خلاف ورزی کی شدید الفاظ میں مذمت کرنا ضروری ہے۔ تاہم ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھا جائے تو امریکہ ماضی کی طرح ایسی کسی قرار داد کو ویٹو کے ذریعے رد کردے گا۔ البتہ اس طرز عمل سے امریکہ دنیا میں ایک ایسی روایت کو ڈی فیکٹو طور سے جائز ماننے کا طریقہ اختیار کرے گا کہ کوئی بھی ملک اپنے ایجنٹوں یا عسکری صلاحیت کی بنیادپر کسی دوسرے ملک میں مخالف لیڈروں کو قتل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس رویے کو درست ماننے سے دیگر ممالک کی دیدہ دلیری کا راستہ ہموار ہو گا۔ ایسے ممالک میں امریکہ ہی کا ایک دوسرا چہیتا ملک بھارت شامل ہے جو کینیڈا کے علاوہ امریکہ میں بھی مخالف رائے رکھنے والے لیڈروں کو قتل کروانے میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی الزام لگایا ہے کہ بھارتی ایجنٹوں نے متعدد پاکستانیوں کو اس کی سرزمین پر ہلاک کیا ہے۔ اس طریقے کو مسلمہ اور جائز طریقہ مان لینے سے ریاستوں اور دہشت گرد گروہوں میں تمیز کرنا مشکل ہوجائے گا۔ دہشت گرد گروہ نام نہاد مہذب دنیا کو یہی آئینہ دکھاتے ہوئے دعویٰ کرسکیں گے کہ اگر باقاعدہ تسلیم شدہ ممالک دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کرسکتے ہیں تو کسی ایک گروہ کی طرف سے اپنے اہداف کے لیے تشدداستعمال کرنا کیسے ناجائز ہوسکتا ہے؟
ان سب مباحث سے قطع نظر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسرائیل نے اس موقع پر اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنا کیوں ضروری خیال کیا۔ تہران میں انہیں ہلاک کرنے کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ تل ابیب ایرانی حکومت کو پیغام دینا چاہتا ہو کہ وہ کسی بھی وقت امریکہ کی ’اجازت‘ کے بغیر کسی بھی ایرانی مقام کو ٹارگٹ کرسکتا ہے۔ یہ وارننگ اپریل میں ایرانی میزائل و ڈرون حملوں کا جواب بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کی اصل وجہ امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے امن معاہدے پر بڑھتا ہؤا اصرار ہے۔ بائیڈن چونکہ اب صدارتی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں، اس لیے وہ اسرائیل کو امن پر آمادہ کرنے کے لیے زیادہ دباؤڈالنے کی پوزیشن میں ہیں۔ جبکہ امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات کے سبب اسرائیل کی خواہش ہوگی کہ غزہ جنگ کو نومبر تک طول دیا جائے ۔ نیتن یاہو کا اندازہ ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے طور پر فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کے لیے اسرائیل کو زیادہ موقع دے گا۔ اس طرح غزہ کو مستقل طور سے ایک مقبوضہ علاقہ بنالینے کی پالیسی پر عمل درآمد ممکن ہوسکے گا۔
حماس اور دیگر ذرائع ابھی سے امن بات چیت کو بھول جانے کی بات کررہے ہیں۔ اس ماحول میں اسرائیلی حکومت اپنے ملک میں جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے والے یرغمالیوں کے لواحقین اور ان کے حامیوں کوآسانی سے خاموش کروا سکتی ہے کہ حماس خود ہی امن نہیں چاہتی۔ نیتن یاہو کو جنگ بندی کے لیے امریکہ کے سوا حماس کی قید میں 110 کے لگ بھگ قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔ اسرائیلی حکومت علاقائی توسیع کے لیے ان شہریوں کی ہلاکت بھی قبول کرنے پر آمادہ ہے لیکن سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے کھل کر اس کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ اسماعیل ہنیہ کی موت سے غزہ کا المیہ کم ہونے کی بجائے مزید طوالت اختیار کرے گا اور انسانوں سے محبت کے سارے دعویدا خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔