پاکستان کی اسرائیل کے ساتھ کیا دشمنی ہے؟

قومی اسمبلی میں حماس کے لیڈر  اسماعیل ہنیہ کی موت پر مذمت کی قرار داد منظور کرنے کے  علاوہ ایک روزہ قومی سوگ منانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ البتہ  جماعت  اسلامی کے امیر  حافظ نعیم الرحمان نے  دوحہ میں اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور اب جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ    مولانا فضل الرحمان  ایک  وفد کے ہمراہ دوحہ   گئے ہیں اور حماس کے لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کی اور حماس کی جد و جہد  کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔

ان دونوں   لیڈروں کے دورے سے  دو اہم سوال سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذمہ دار کون  ہے ۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کی اسرائیل کے ساتھ کیا دشمنی ہے۔  ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا پاکستان میں سیاسی ہم آہنگی اور قومی حکمت عملی کی وضاحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس میں تو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان  ہوں  یا جمیعت علمائے  اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمان، وہ نجی حیثیت میں دوحہ جاکر   حماس کی قیادت سے ملاقات نہیں کرسکتے تھے۔ اسرائیل بوجوہ   قطر میں حماس کے لیڈروں کو نشانہ نہیں بنائے گا لیکن اس کے باوجود  ان لیڈروں کو خصوصی حفاظت میں  سرکاری پروٹوکول کے   تحت  وہاں  رکھا گیا ہے۔  اسماعیل ہنیہ کی   ہلاکت کے بعد   قطر میں حماس کے لیڈروں کی حفاظت میں مزید اضافہ کیا گیا ہوگا۔ ان حالات میں پاکستانی حکومت کی سفارتی امداد  اور دوحہ میں پاکستانی سفارت خانہ کے اثر و رسوخ کے بغیر یہ دونوں مذہبی لیڈر  شاید ٹورسٹ ویزا پر دوحہ چلے تو جاتے لیکن  فوری طور سے ان کی خالد مشعل اور دیگر لیڈروں سے ملاقات کا اہتمام نہیں ہوسکتا تھا۔

حافظ نعیم الرحمان اور مولانا فضل الرحمان اپنے اپنے طور پر انتہا پسند مذہبی جماعتوں کی قیادت کرتے ہیں۔ عوام کے حق رائے دہی اور جمہوریت کا دعویٰ کرنے کے باوجود جماعت اسلامی پاکستان میں  اسلامی خلافت کے قیام کا خواب دیکھتی ہے اور  جمیعت علمائے اسلام  (ف) ملک میں   مدارس پر کنٹرول اور ان کے نصاب کو  قومی ایکشن پلان کے مطابق متوازن اور معتدل بنانے کی ہر سرکاری کوشش کی مزاحمت کرتی ہے۔  مولانا فضل الرحمان کی واحد سیاسی قوت یہی ہے کہ وہ مدارس کے طلبا کے ذریعے امن و امان کی صورت حال پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک چالاک اور تجربہ کار سیاست دان کے طور پر وہ مسلم لیگ (ن) اور  پیپلز پارٹی دونوں سے سیاسی فائدے اٹھاتے رہے ہیں۔ اب  تحریک انصاف بھی ان کی طرف راغب دکھائی دیتی ہے۔ لگتا ہے کہ اگر تحریک انصاف  ایک بار پھر اقتدار میں آئی تو مولانا فضل الرحمان کسی نہ کسی سرکاری پوزیشن کے امید وار ہوں گے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ  ان دونوں مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کی وجہ  حکومت کے ساتھ ان کی سیاسی وابستگی ہے۔ یہ دونوں اس وقت شہباز شریف کی حکومت کے سخت خلاف ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان  نے ایک ہفتے سے  راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دھرنا دیا ہؤا ہے اور وہ حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ بجلی  نرخ کم کیے جائیں ورنہ یہ  احتجاج او دھرنا پورے ملک میں پھیلا دیا جائے گا اور دوسرے اس تحریک کو’شہباز ہٹاؤ ‘مہم   میں تبدیل جاسکتا ہے۔  حافظ نعیم الرحمان بنفیس نفیس دھرنے میں شامل رہے ہیں اور اپنے کارکنوں اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اس سخت گرمی میں صرف کارکنوں  کو ہی احتجاج  کی کال نہیں دی گئی بلکہ  اعلیٰ قیادت خود بھی موسمی شدت برداشت کرنے کے لیے میدان میں نکلی ہوئی ہے۔ البتہ دوسری طرف دیکھا گیا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان حماس کے لیڈر کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے دوحہ جا پہنچے۔ 

 جماعت اسلامی اس وقت حکومت کے خلاف مہم جوئی کرنے والی سب سے نمایاں جماعت ہے لیکن بادی النظر میں  اس کے لیڈروں کو دوحہ لے جانے اور وہاں حماس کے لیڈروں سے ملوانے کے لئے حکومت پاکستان نے ہر قسم کی سہولت فراہم کی۔   حیرت  ہے کہ جس حکومت کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے اور بجلی کے بلوں جیسے حساس معاملے  پر نعرے بازی کرتے ہوئے ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے، اس کے لیڈر اسی کا ہاتھ پکڑ   کر دوحہ میں سرکاری پروٹوکول  کے مزے لیتے رہے۔  یوں تو جماعت اسلامی کی پوری سیاسی تاریخ  ایسے ہی دوغلے طرز عمل سے لبریز رہی ہے لیکن  ملک میں احتجاج منظم کرتے ہوئے درپردہ حکومت  کا تعاون حاصل کرکے حافظ نعیم الرحمان نے خود اپنے ہی کارکنوں کو اندھیرے  میں  رکھا  جو کسی بھی طرح سیاسی اخلاقیات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ 

یہاں یہ حوالہ دینا بھی ضروری ہے کہ عمران خان نے اگرچہ جماعت اسلامی کے دھرنے کی حمایت کی ہے لیکن پی ٹی آئی نے عملی طور سے  دھرنے کے لیے جماعت اسلامی کے ہاتھ مضبوط  نہیں کیے۔ حالانکہ انتخابات  میں دھاندلی اور عوامی مفادات کے خلاف پالیسیوں کے سوال پر دونوں پارٹیاں موجودہ حکومت کی سخت مخالف ہیں۔   بجلی کے نرخوں پر  احتجاج کرتے ہوئے دونوں  پارٹیوں کو  فائدہ  ہوسکتا تھا۔ جماعت اسلامی کو افرادی قوت دستیاب ہوجاتی اور تحریک انصاف کا سوشل میڈیا  اس دھرنے کی حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگتا ۔اور تحریک انصاف  حکومتی پابندیوں کی وجہ سے چوں کہ احتجاج کی پوزیشن میں ہے تو وہ  جماعت اسلامی کی آڑ میں  احتجاج کو وسعت و طاقت دے سکتی تھی۔ مشترکہ فائدے کے باوجود  ایسا تعاون دیکھنے میں نہیں آیا کیوں کہ تحریک انصاف،  جماعت اسلامی کی نیک نیتی کے بارے میں شدید  تحفظات رکھتی ہے۔

دوسری طرف مولانا فضل الرحمان نے فروری میں ہونے والے انتخابات کے بعد سے حکومت کے خلاف شدید بیان بازی کی ہے اور  سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ وہ اگرچہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں اور اس کے اجلاسوں میں شریک بھی ہوتے ہیں لیکن پریس کانفرنسوں  اور میڈیا سے گفتگو میں وہ   اسٹبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارلیمنٹ کو مسترد کرکے فیصلے میدان میں کرنے کا نعرہ بھی بلند کرتے رہے ہیں۔  مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے علاوہ وزیر اعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں سیاسی تعاون پر آمادہ کرنے کی کوشش کی  لیکن بظاہر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔   اب ایک متنازعہ  فلسطینی گروہ کے لیڈر جسے امریکہ سمیت آدھی سے زیادہ دنیا دہشت گرد قرار دیتی ہے کو  خراج عققیدت پیش کرنے کے لیے انہیں بھی سرکاری اعزاز کے ساتھ دوحہ  جانے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اس دوہری حکمت عملی پر حکومت کے علاوہ مولانا فضل الرحمان کو بھی وضاحت دینی چاہئے۔

یاد رہے کہ   اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے  چند ہفتے پہلے ایک دوسرے مذہبی  گروہ تحریک لبیک پاکستان نے فیض آباد پر فلسطینیوں کی حمایت میں دھرنا دیا تھا۔ ہفتہ عشرہ پر طویل یہ دھرنا حکومت کے ساتھ اس ’معاہدے‘ کے بعد ختم  ہؤا تھا کہ حکومت اسرائیلی لیڈروں کو دہشت گرد قرار دے گی اور غزہ کے باشندوں کے لیے امداد بھیجی جائے گی۔ یہ مضحکہ خیز  احتجاج کرنے والوں کے علاوہ  اور ان مطالبات کو ماننے والی حکومت کی سیاسی دور اندیشی اور سفارتی حساسیت  پر شک و شبہ کا اظہار ضروری ہے۔   دنیا بھر کے ممالک اور عالمی ایجنسیاں غزہ امداد فراہم کرنے  کی تگ و دو کررہی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ غزہ کے لیے وسائل کی کمی نہیں ہے  لیکن اسرائیلی حکومت اپنی ہٹ دھرمی اور جنگ جوئی کی وجہ سے اس امداد کی فراہمی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں پاکستان سے جانے والی امداد کیوں کر اور کیسے غزہ تک پہنچ پائے گی اور یہ وہاں کے مظلوم لوگوں کی کس حد تک مدد کرسکے گی۔ اس کے باوجود حکومت، تحریک لبیک کا دھرنا ختم کروانے کے لیے    یہ مطالبہ مان لیتی ہے۔ اس سے پہلے کراچی کی ایک بڑے مذہبی ادارے نے غزہ کے نام پر کروڑوں روپے کی امداد جمع کی ۔حکومت یا کوئی میڈیا ان عناصر سے یہ سوال نہیں پوچھتا کہ یہ امداد کیسے اسرائیل کا محاصرہ توڑ کر غزہ پہنچا دی جائے گی؟

عوام کو فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے نام پر مسلسل دھوکہ دیا جاتا ہے ۔ اس دھوکہ دہی میں حکومت ہی نہیں خاص طور سے ملکی  مذہبی سیاسی گروہ پیش پیش ہیں۔    اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ   میں شرکت کے حوالے سے  یہ پہلو بھی اہم ہے کہ  ان کی نماز جنازہ پہلے تہران میں ہوئی تھی جسے ایران کے مذہبی قائد آیت اللہ خامنہ ای نے پڑھایا تھا لیکن پاکستان کا کوئی مذہبی لیڈرہمسایہ ملک میں نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لیے نہیں پہنچا لیکن دوحہ جاکر فوٹو شوٹ کروانے کا  کوئی موقع ضائع نہیں کیا جارہا۔ یہ سرگرمیاں سطحی سیاسی مقبولیت کا شاخسانہ تو ہیں ہی لیکن ان سے پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی کی چھاپ گہری ہورہی ہے اور عوام کے علاوہ دنیا کو یہ پیغام بھیجا جارہا ہے کہ ریاست پاکستان اور اس کی حکومت مذہبی گروہوں کے سامنے بے بس  ولاچار ہے۔

تنازعہ فلسطین  کے حوالے سے دو باتوں  کو ماننا  ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ  فلسطین کے عوام اپنی آزادی کی جد و جہد کررہے ہیں ، وہ کوئی اسلامی ریاست بنانے کے لیے خون نہیں بہاتے۔ حماس  نے فلسطینی کاز کو مذہبی رنگ دینے کا اقدام کیا تھا جس کی وجہ سے فلسطینیوں کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور یہ واضح طور سے دو  گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ نے مغربی کنارے کے علاقوں پر حکومت قائم کرلی جسے دنیا تسلیم بھی کرتی ہے اور دوسرے گروہ حماس نے غزہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور  جبراً وہاں کا  اختیار سنبھال لیا۔  فلسطینی حق آزادی کو مذہبی رنگ دینے اور اس جد و جہد کو جہاد کا نام دینے ہی کی وجہ سے اسرائیل  نے کئی سال تک  غزہ کا بلاکیڈ کیے رکھا اور وہاں  آباد دو اڑھائی ملین لوگ   قید خانہ میں زندگی گزارتے  رہے۔ 7 اکتوبر کو   شدید دہشت گرد حملہ کے  بعد  اسرائیل نے غزہ  پر جنگ مسلط کردی۔ اس جنگ میں  اب تک چالیس  ہزار فلسطینی اس چھوٹے سے علاقے  میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ لیکن یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر اسرائیل سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کررہا ہے تو حماس کو بھی  اپنے لوگوں کے مرنے پر کوئی ملال نہیں ہے۔

اس  حوالے سے دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان نے  محض اس لیے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا کیوں کہ فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہؤا لیکن اس اصول کی بنیاد پر دیکھا جائے تو  کشمیریوں کے حق خود اختیاری کا مسئلہ بھی حل نہیں ہؤا لیکن پاکستان نے بھارت کو سفارتی  لحاظ سے تسلیم بھی کیا ہؤا ہے۔ اور  نئی دہلی میں پاکستانی  سفارت خانے بھی کام کرتا ہے۔  ا س کے  برعکس پاکستان کا تو اسرائیل کے ساتھ کوئی براہ راست تنازعہ نہیں ہے لیکن مذہبی گروہوں کی بلیک میلنگ کی وجہ سے حکومت پاکستان مسلسل   ایسا  کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام ہے  جو وسیع تر قومی مفاد سے مطابقت رکھتا ہو۔

اسرائیل کی  جارحیت اور فلسطینیوں کے خلاف جرائم کی فہرست بھیانک اور طویل ہے لیکن دنیا کے بیشتر تنازعات کی طرح پاکستان اس  مسئلہ میں بھی کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ حماس کے ہتھکنڈے دہشت گردی  کہے جاتے ہیں اور اس کے لیڈروں کو عالمی طور سے دہشت گرد مانا جاتا ہے۔ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ ملکی خارجہ پالیسی کو مذہبی جنونیت یا سیاسی مقبولیت کے  خواہاں گروہوں کے حوالے کردیا جائے۔ پاکستانی حکومت    کوواضح کرنا چاہئے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا اصولی اختلاف  ہے لیکن ایسا اختلاف  متعدد دوسرے ممالک کے ساتھ کئی معاملات پر ہوسکتا ہے۔ سیاسی و سفارتی اختلاف کو کسی ملک کے ساتھ دشمنی و نفرت کی بنیاد بنانا پاکستان کی سالمیت کے لیے براہ راست خطرہ کا سبب  ہوسکتا ہے۔

loading...