جنرل صاحب ! یہ طرز تکلم پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں ہے
- تحریر سید مجاہد علی
- جمعرات 08 / اگست / 2024
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ’ جو لوگ شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے‘۔ آرمی چیف کے انداز بیان میں شدت ، جارحیت اور مایوسی بیک وقت محسوس کی جاسکتی ہے۔ لیکن انہیں علم ہونا چاہئے کہ اسلام کو ڈھال بنا کر معاملات پر دسترس حاصل کرنے کی باتیں اہل پاکستان پہلے بھی سن چکے ہیں۔ ملکی فوج کے سربراہ کو پرانے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
ملک میں اس وقت شدید بے چینی کا ماحول ہے۔ جنرل عاصم منیر کی تقریر اور حال ہی میں آئی ایس پی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کا موضوع ایک ہی تھا۔ ان دونوں مواقع پر جرنیلوں کے لب و لہجہ میں تمکنت اور انتباہ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس قسم کی دھمکی آمیز گفتگو سے عوام کی بے چینی ختم ہوگی اور نہ ہی ملکی مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔ ملک جن سیاسی و معاشی و سماجی حالات اور مسائل کا سامنا کررہا ہے، اس میں غم و غصہ کے اظہار، انتباہ دینے اور لوگوں کے گروہوں کو خود سے کاٹ کر علیحدہ کرنے سے معاملات طے نہیں ہوں گے بلکہ ان میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ اس وقت قومی یک جہتی اور ایک دوسرے کے گلے شکوے سن کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد اب آرمی چیف نے بنفس نفیس احتجاج کرنے والے لوگوں کے بڑے گروہوں کو مین اسٹریم سے علیحدہ کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ طریقہ کسی بھی طرح قومی مصالحت کا مقصد حاصل نہیں کرسکتا۔
اسلام آباد میں نیشنل علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ کہ’ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم فساد فی الارض ہے۔ پاک فوج اللہ کے حکم کے مطابق فساد فی الارض کےخاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ ہم کہتےہیں کہ احتجاج کرنا ہے تو ضرور کریں لیکن پر امن رہیں البتہ جو لوگ شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انہیں پاکستانی نہیں مانتے‘۔ ان کایہ بھی کہنا تھا کہ ’خوارج ایک بہت بڑا فتنہ ہیں۔ فتنہ خوارج کی خاطر اپنے ہمسایہ برادر اسلامی ملک کی مخالفت نہ کریں۔ جرائم اور اسمگلرز مافیا دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انتشار پھیلایا جاتا ہے۔ کسی کی ہمت نہیں جو رسول پاکﷺ کی شان میں گستاخی کرسکے۔ اگر کوئی پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تو اللہ کی قسم ہم اس کی راہ میں دیوار بنیں گے۔ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا‘۔
آرمی چیف نے اپنی تقریر میں ملکی عوام کے بڑے گروہوں کے بارے میں فتوے بازی کا انداز بیان اختیار کیا ہے۔ یہ طرز تکلم نیا نہیں ہے اور نہ ہی اس قسم کے دھمکی آمیز انداز بیان سے عوام میں اختلافات کم کیے جاسکتے ہیں۔ عوامی مسائل کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اختلافات سیاسی تدابیر سے کم ہوتے ہیں۔ مسائل حل کرنے کی بجائے مذہب کو دلیل بنانے سے بداعتمادی اور پریشان خیالی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک طرف جنرل عاصم منیر خود ہی ’عقیدے میں جبر نہیں ہے‘ کا درس دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی شریعت نہ ماننے والوں کو پاکستانی ہونے کے حق سے ہی محروم کررہے ہیں۔ کسی شخص کو اس ملک کا باشندہ و شہری ہونے کا حق کسی ایک عقیدے کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوتا بلکہ ملک کا آئین یہ تعین کرتا ہے کہ کون ا س ملک کے شہری ہیں اور ان پر کیا حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں۔ آئینی دستاویز کے بعد عدالتوں کو یہ حق حاصل ہے وہ آئینی شقات کی تشریح کرتے ہوئے کسی مشکل میں تفہیم کے راستہ بنائیں۔ یہ حق آئین پاکستان نے آرمی چیف کو تفویض نہیں کیا کہ وہ پاکستانی عوام میں ملک کا شہری ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں حد فاصل قائم کریں۔ جنرل عاصم منیر کو ایسے طریقوں سے گریز کرنا چاہئے۔
پاک فوج اب تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے لئے خوارج کی اصطلاح استعمال کرتی ہے، اسی لیے جنرل عاصم منیر کی تقریر میں بھی فتنہ خوارج کا حوالہ دیا گیا ہے۔ دہشت گردی ایک عسکری اور انتظامی چیلنج ہے۔ اس سے کسی عقیدے کی آڑ لے کر نبرد آزما ہونا ممکن نہیں ہے ۔ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے بہتر حکمت عملی، سرکاری و عسکری اداروں میں رابطہ کاری کے نظام اور اور فوجی اقدامات کو زمینی حقائق کے مطابق منظم کرنا ضروری ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے انتہا پسند بھی پاک فوج اور ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کرتے ہوئے اسلام ہی کو عذر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اب اگر پاک فوج بھی اسلامی اصطلاحات اور مذہبی جذبات کے ذریعے اس شدت پسند گروہ کا مقابلہ کرے گی تو عقلی لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ اس کے بعد یہ عام لوگوں پر منحصر ہوگا کہ وہ کس کی طرف سے پیش کی گئی اسلامی تفسیر کو قبول کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف مذہبی ہتھکنڈا اختیار کرنے کا یہی سب سے بڑا نقصان ہے ۔ فوج کو یہ غلطی نہیں کرنی چاہئے بلکہ ٹی ٹی پی کے مذہبی نعروں کا جواب بہتر عسکری حکمت عملی سے دیا جائے۔ یوں بھی کسی فرد کے عمل اور جرائم کی فہرست دیکھ کر اس کے عقیدے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کون مسلمان ہے اور اس کا عقیدہ کتنا مضبوط ہے، اس کا فیصلہ بھی نہ تو کسی آرمی چیف نے کرنا ہے اور نہ ہی کسی گروہ کے بارے میں پرانی اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوگا۔
فوج کی دوسری بڑی پریشانی گوادر اور بلوچستان میں جاری بلوچ یک جہتی کمیٹی کا دھرنا اور احتجاج ہے۔ احتجاج کرنے والے اپنے احتجاج کو پر امن کہتے ہیں اور ان کادعویٰ ہے کہ تصادم اور تشدد کے واقعات سکیورٹی اداروں کی زور ذبردستی کی وجہ سے دیکھنے میں آئے تھے ورنہ بلوچ یک جہتی کمیٹی کسی صورت قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں چاہتی۔ البتہ اس کے برعکس ایک مؤقف آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک پریس کانفرنس میں پیش کیا اور بلوچ یک جہتی کمیٹی کی قیادت کو دہشت گردوں اور اسمگلر مافیا کی پراکسی قرار دیا۔ انہوں نے ان بلوچ لیڈروں پر غیر ملکی امدا د لینے کا الزام بھی عائد کیا۔ آج جنرل عاصم منیر نے فساد فی الارض اور انتشار پھیلانے کا حوالہ دیتے ہوئے بظاہر ٹی ٹی پی کے علاوہ بلوچ یک جہتی تحریک کے احتجاج کا ذکر کیا ہےجس کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان یہ اعلان کرچکے ہیں کہ یہ پر امن نہیں ہے۔ اس قسم کا بیانیہ بنا کر ایک خاص صوبے یا خطے کے عوام میں محرومی کے احساس کو گہرا تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس طرح ان کی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوگا۔ حالانکہ ان کے شکوے سن کر انہیں گلے لگانا اہم ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور اس کی خوشنودی کے لیے اقتدار سنبھالنے والی حکومتیں مسلسل بلوچ عوام کے بنیادی حقوق کے حوالے سے بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے بلوچستان کا مسئلہ عسکری طاقت سے حل کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے لیکن ا س کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ اب آرمی چیف ایسے عناصر کو اگر پاکستانی ہونے کے اعزاز سے بھی محروم کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ ان کے رویہ میں بھی شدت اور سختی آجائے۔ اگر ریاست کا اہم ترین نمائیندہ احتجاج کرنے پر شہریوں کےکسی گروہ کے پاکستانی ہونے انکار کرے گا تو اس سے فاصلوں میں اضافہ ہوگا۔
بلوچ یک جہتی کمیٹی کے مطالبے دو نکات پر مشتمل ہیں۔ ایک لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کے بارے میں ہے کہ ان کے رشتہ داروں کو بتایا جائے کہ ان کے لاپتہ عزیز کہاں ہیں اور اگر ان لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے تو ملکی قوانین کے مطابق ان پر مقدمے چلاکر سزا دی جائے۔ تاکہ رشتے داروں اور اہل خاندان کو معلوم تو ہو کہ ان کے عزیز کہاں اور کس حال میں ہیں۔ یہ ایسا مطالبہ ہے جس کی تائید ملک کی متعدد اعلیٰ عدالتیں کئی بار کرچکی ہیں۔ اس لیے اسے فساد پیدا کرنے کی کوشش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دوسرا مطالبہ مقامی وسائل میں مقامی آبادی کے حصے کا تعین کرنے کے حوالے سے ہے۔ یہ معاملہ اول تو کسی بھی طرح فوج کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ یہ معاملہ بلوچ عوام اور صوبائی و مرکزی حکومتوں کے درمیان آئین و قانون کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ فوج کو حکومت تک یہ پیغام ضرور پہنچانا چاہئے کہ اگر کوئی بلوچ کمیٹی پر امن انداز میں مسائل کا سیاسی حل چاہتی ہے تو اس کے ساتھ بیٹھ کر بات کی جائے اور مسائل کی نشاندہی کرکے انہیں حل کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ اس کی بجائے اگر ملک کی عسکری قیادت ان لوگوں کو پاکستان کا دشمن قرار دے گی تو یہ مسئلہ شدید اور سنگین ہوجائے گا۔
فوج کا تیسرا اہم شکوہ سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم سے ہے۔ عام طور سے فوجی قیادت کو اس مہم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لیکن یہ مہم جوئی بھی کسی عقیدے یا مذہبی عذر کی بنیاد پر شروع نہیں ہوئی، ا س کا تعلق سیاست میں پاک فوج کے کردار سے ہے۔ اس کے علاوہ ملکی قوانین کی کمزوری اور ناقص نظام عدل کی وجہ سے بھی بعض عناصر کی گرفت ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن آئی ایس پی آر اور آرمی چیف کی ناراضی و پریشانی کے باوجود یہ کہنا بے حد ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانا یا اس بات کی نگرانی کرنا کہ کون کیا کہہ رہا ہے ،سمندر میں سے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ ملک میں اگر جمہوریت درکار ہے تو آزادی رائے کے اظہار اور اس کے لیے استعمال ہونے والے مختلف ذرائع کی خود مختاری کا احترام بھی کرنا ہوگا۔ پاک فوج اور حکومت کو اب تک اندازہ ہوجانا چاہئے کہ قانونی طریقوں یا ریاستی جبر کے ہتھکنڈوں سے ایسی مہم جوئی پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ دنیا اب بہت چھوٹی ہوچکی ہے اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے مواقع کے ایک نئے جہاں سے لوگوں کو متعارف کروایا ہے۔ نفرت کی روک تھام کے لیے محبت عام کرنے اور اختلافات کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
جنرل عاصم منیر نے اسلام کا محافظ ہونے کا دعویدار بن کر علما کو بھی مذہبی شدت پسندی کے خلاف تعاون کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ علما و مشائخ شدت پسندی، تفریق کی بجائے تحمل اور اتحاد کی ترغیب دیں۔ علما کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں اعتدال پسندی کو واپس لائیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں‘۔ پاک فوج کے سربراہ کے طور پر جنرل عاصم منیر کو علم ہونا چاہئے کہ ملک کی تاریخ میں مذہبی رہنماؤں نے اتفاق و اتحاد کی بجائے انتشار و افتراق کی سیاست کی ہے اور یہی اس وقت ان کی نام نہاد شان و شوکت اور روزگار کا ذریعہ ہے۔ یہ عناصر ملک میں اعتدال عام کرکے کیوں کر اپنے پیٹ پر لات ماریں گے؟ اس پر مستزاد جب آرمی چیف خود مذہبی جذبات پر مبنی تقریر کریں گے تو مذہبی شدت پسندی کی حوصلہ شکنی کیسے ممکن ہوگی؟
جنرل صاحب کے علم میں ہونا چاہئے مسائل حل کرنے اور پاکستان کو محفوظ اور عظیم تر بنانے کے مقصد سے اس سے پہلے سابق فوجی آمر جنرل ضیاالحق اسلام ہی کو نعرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ملک پر ناجائز اور غیر آئینی طور سے اس وقت تک قابض رہے جب تک ایک حادثے میں ا ن کا انتقال نہیں ہوگیا۔ موجودہ آرمی چیف بھی ویسے ہی نعرے اختیار کرے گا تو پاکستانی عوام کو ضیا دور میں لگے ہوئے زخم یاد آنے لگیں گے۔