جسٹس منصور علی شاہ بمقابلہ بلاول بھٹو زرادری
- تحریر سید مجاہد علی
- ہفتہ 10 / اگست / 2024
سپریم کورٹ کے اختیارات اور اداروں کے حدود پر متعدد زاویوں سے بات کی گئی ہے۔ چند ہفتوں بعد چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت عظمی کے فیصلوں پر عمل کرنا آئینی ذمہ داری ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے ایک دن پہلے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعلیٰ عدلیہ پر اختیارات سے تجاوز اور پارلیمانی حدود میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔
آج ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وائلڈ لائف بورڈ مینجمنٹ آفس اور چیئرپرسن کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے‘۔ انہوں نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ریستوران اور سوسائیٹیاں بنانے پر شدید خفگی کا اظہار کیا۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے متعدد پہلوؤں کا ذکرکرتے ہوئے فوجی و سول بیوروکریسی کی اجارہ داری کا حوالہ دیا اور کہا کہ’ اٹارنی جنرل آپ کو علم ہی نہیں کہ چیزیں کیسے ہو رہی ہیں‘۔ چیف جسٹس اس استفسار سے یہ واضح کرنا چاہ رہے تھے کہ حکومت متعدد معاملات میں لاچار ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ججوں کے ریمارکس اور اعلیٰ سرکاری افسروں کو جلی کٹی سنانے سے معاملات درست ہوجائیں گے یا اس کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور ججوں کو آئین کے اندر رہتے ہوئے کوئی ایسا طریقہ وضع کرنا ہوگا کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرسکیں۔ یہ کام بوجوہ انجام نہیں پارہا۔ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور طریقہ کار اس حوالے سے زیر بحث رہے اور تنقید کا نشانہ بھی بنے۔
حکومت نے خاص طور سے12 جولائی کو جاری ہونے والے سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ کےا کثریتی ججوں کے اس حکم سے شدید اختلاف کیا ہے کہ اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں تحریک انصاف کی پارلیمانی قوت کے مطابق اسے تقسیم کی جائیں اور اسے پارلیمانی پارٹی بھی تسلیم کیا جائے۔ اس فیصلہ پر حکومت کی طرف سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے یہی اعتراض کیا تھا کہ کسی عدالت کو کسی ایسے گروہ یا پارٹی کو کوئی فائدہ پہنچانے کا آئینی حق حاصل نہیں ہے جو کسی مقدمے میں فریق ہی نہ ہو۔ 12 جولائی کا فیصلہ درحقیقت سنی اتحاد کونسل کی پٹیشن پر جاری ہؤا تھا جس میں الیکشن کمیشن کے اس حکم کو چیلنج کیا گیاتھا کہ اسے متعدد قانونی اعتراضات کی وجہ سے مخصوص سیٹوں میں حصہ نہیں دیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن نے یہ سیٹیں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں تقسیم کردی تھیں۔ تاہم سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعتوں میں ہی اس فیصلے کو معطل کردیا اور بعد میں باقاعدہ حکم جاری کرتے ہوئے مخصوص سیٹیں سنی اتحاد کونسل کی بجائے تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیا۔ اس مقصد کے لیے قانون و آئین میں مقررہ وقت کی شرط کو اس خاص معاملہ میں غیر مؤثر کرتے ہوئے اکثریتی ججوں نے حکم دیا کہ تحریک انصاف کے ارکان پندرہ روز کے اندر نئے حلف نامے جمع کرادیں اور الیکشن کمیشن پارٹی کو یہ سیٹیں الاٹ کردے۔
اکثریتی ججوں کا تفصیلی فیصلہ تو ابھی جاری نہیں ہؤا لیکن اس سے پہلے ہی اختلاف کرنے والے دو ججوں جسٹس امین الدین اور جسٹس ندیم اختر افغان نے گزشتہ ہفتہ کے روز اپنا اختلافی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ زیر غور معاملہ میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے آئین کی متعدد شقوں کو معطل کرنا پڑا ہے جس کا کسی بھی عدالت کو اختیار نہیں ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ ماہ کے دوران حکومت اور متعدد سیاسی پارٹیوں کی طرف سے 12 جولائی کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ لیکن ججز کمیٹی میں شامل جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر نظر ثانی کی درخواستیں جلد سن لی جائیں تاکہ اس تنازعہ کا کوئی حتمی حل سامنے آئے۔ کمیٹی کے دوسرے دو ججوں کا مؤقف تھا کہ ایک تو نظر ثانی کی درخواستیں تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے دائر نہیں ہوسکتیں۔ دوسرے ججوں کی چھٹیوں کی وجہ سے فل کورٹ بنچ کا اجلاس نہیں بلایا جاسکتا ۔ اس لئے اس معاملہ کو مؤخر کردیا جائے۔
تفصیلی فیصلہ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔ حالانکہ تنازعہ کی نوعیت اور اختلافات سامنے آنے کی صورت میں اکثریتی ججوں کو اپنے دلائل تفصیلی فیصلہ کی صورت میں جاری کرنے چاہئیں تھے۔ لیکن سپریم کورٹ میں یہ روایت بھی موجود رہی ہے کہ بعض معاملات کے تفصیلی فیصلوں کو طویل مدت تک روک لیا جاتا ہے حتی کہ بنچ میں شامل جج بھی ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں کی طرف سے اپنی رائے کو اکثریتی فیصلے کااعلان ہونے سے پہلے عام کرنے کا طریقہ بھی غیر روائیتی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس طریقہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دیگر متعدد پہلوؤں کے علاوہ سپریم کورٹ کے انتظامی طریقہ کار میں یہ کمزوری بھی موجود ہے کہ کوئی جج جب چاہے اپنے اختلاف یا حکم کا اعلان کردے۔ وہ کسی خاص ضابطے پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے معاملہ کو کھٹائی میں پڑتا دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے گزشتہ ماہ کے آخر میں الیکشن ایکٹ میں ترمیمی بل پیش کیا اور حکومتی پارٹیوں کے تعاون سے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود یہ بل قومی اسمبلی و سینیٹ سے منظور کرلیا گیا۔ 8 اگست کو صدر آصف زرداری کے دستخط کرنے سے یہ ترامیم اب قانون کا حصہ بن گئی ہیں۔ ان ترامیم کے تحت منتخب ہونے والے ارکان سے وہ حقوق واپس لے لیے گئے ہیں جو سپریم کورٹ نے 12 جولائی کے حکم میں تحریک انصاف کو فائدہ پہنچانے کے لیے عطا کیے تھے۔ تحریک انصاف اب اس قانون کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرچکی ہے تاہم عدالت عظمی کا فیصلہ آنے تک اس قانون کے تحت سپریم کورٹ کے حکم کے برعکس تحریک انصاف کو مخصوص سیٹیں نہیں مل سکیں گی۔ بلکہ نئی ترامیم میں چونکہ ایک بار کسی پارٹی میں شامل ہونے کے بعد پارٹی تبدیل کرنے کی بھی ممانعت کی گئی ہے لہذا عملی طور سے تحریک انصاف کے وہ 39اراکین جنہیں الیکشن کمیشن پارٹی کے رکن تسلیم کرچکا ہے کیوں کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی میں پارٹی وابستگی کا حوالہ دیا تھا ، بھی اب تحریک انصاف میں دوبارہ شامل نہیں ہوسکتے۔ واضھ رہے ان ارکان میں سے بیشتر پارٹی فیصلے کے مطابق سنی اتحاد میں شامل ہوگئے تھے۔ نیا قانون انہیں سنی اتحاد سے واپس تحریک انصاف میں جانے کا حق نہیں دیتا۔
اسی پس منظر میں گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری کو مسجد نبوی کے امام کی آمد پر خوش آمدید کہنے کا موقع دیا گیا تھا لیکن انہوں نے ملکی عدلیہ پر تحریک انصاف کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ بحران عدلیہ پیدا کررہی ہے اور اس طرح وہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کی مرتکب بھی ہوئی ہے۔ ’یہ بحران عدلیہ کا ہے، عدلیہ کی طرف سے عدلیہ ہی کے لیے ہے‘۔ چائے کی پیالی کے طوفان کو ملک میں مکمل آئینی بحران بنا دیا گیا ہے۔ عدلیہ نے آئین و قانون سے ماورا ایک سیاسی فیصلہ دیا ہے‘۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ ’اگر کسی ملک میں آئین، قانون اور جمہوری طریقوں پر عمل نہ ہو تو اس کے ادارے اپنی حدود میں کام نہیں کرتے۔ ہمارے عدالتی نظام نے اس حوالے سے عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ عدالتی امور دیکھنے کے علاوہ ڈیم بنا سکتی ہے یا ٹماٹروں اور سموسوں کی قیمتیں مقرر کرکے مہنگائی پر قابو پاسکتی ہے۔ اس معاملے میں دنیا کی کوئی عدالت پاکستانی عدالتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی‘۔
بلاول بھٹو زرداری کے عدلیہ پر حملے کا جواب بظاہر جسٹس منصور علی شاہ نے آج اسلام آباد میں اقلیتوں سے متعلق ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلہ کرلیا تو اس پر عمل ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہوسکتا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہو۔ اس طریقے سے آئینی توازن بگڑ جائے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بالکل عمل ہوتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ کا حکم نہ مانا جائے۔ ایسا سوچنا بھی یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کوئی رعایت یا بوجھ نہیں، لازمی آئینی تقاضا ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ اتھارٹی آئین سے حاصل ہوتی ہے۔ آئین کہتا ہے کہ یہ فیصلہ ہے اور اس پر عملدرآمد ہونا ہے اور یہی طریقہ ہے‘۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی نیا نظام لانا چاہتے ہیں تو بنالیں، معاملات اس طرح نہیں چلیں گے۔ یا تو سارا اسٹرکچر تبدیل کردیں یا کچھ اور بنالیں۔ لیکن اس وقت جو آئین ہے اور اس کا جو اسٹرکچر ہے اس کے مطابق تو یہی ہوتا ہے۔کسی کے پاس چوائس نہیں ہے کہ وہ اس کو (عدالت کے فیصلے) جج کرے کہ یہ فیصلہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ یہ اختیار صرف اور صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے کہ اس نے جو فیصلہ کرلیا، اس کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اور یہ اس ملک کا سسٹم ہے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرتے تو اس کے سنگین نتائج بھی ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ ریاستی اداروں کے درمیان ’نازک توازن‘ ہوتا ہے جس کا احترام ہونا چاہئے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس توازن کو قائم رکھا جائے۔
سپریم کورٹ اور حکمران سیاسی پارٹیوں کے درمیان جاری تنازعہ کی بنیاد یہی اصول ہے کہ آئین میں اداروں کے لیے جو حدود مقرری کی گئی ہیں، ان کا احترام نہیں کیا جاتا۔ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں پر ان حدود کو نظرانداز کرنے اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کرنے کا الزام لگتا ہے۔ یہی الزام 12 جولائی کے اکثریتی فیصلہ پر بھی عائد ہورہاہے۔ اب حکومتی نمائیندے ہی نہیں بلکہ فل کورٹ بنچ میں شامل دو فاضل ججوں نے بھی یہی اعتراض کیا ہے کہ اکثریتی ججوں نے اس معاملہ میں فیصلہ کرکے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ اس پس منظر میں جسٹس منصور علی شاہ کا یہ فرمان تو درست ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی آئینی حیثیت کا احترام سب پر فرض ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ججوں اور عدالتوں کی طرف سے ملکی انتظامی امور میں غیر ضروری مداخلت کا سلسلہ بند ہو۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کو من پسند آئینی تشریح کے تحت مسترد کرنے کی بجائے ، فیصلہ کرتے ہوئے اداروں کی حدود کے بنیاد مگر اہم اصول کو پیش نظر رکھا جائے۔
سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر اگر تنازعہ جاری رہا تو عدالت عظمی کے پاس اپنی اتھارٹی کو منوانے کا کوئی مؤثر طریقہ موجود نہیں ہوگا۔ اپنا احترام مانگتے ہوئے دوسرے اداروں کا احترام کرنے سے ہی کسی مشکل سے نکلا جاسکتا ہے اور غیر ضروری تنازعہ یا بحران سے بچا جاسکتا ہے۔